آب و ہوا کی تبدیلی پاکستان کے پہاڑی علاقوں کے منظر نامے کو تبدیل کر رہی ہے جس کی وجہ سے اُن علاقوں میں رہنے والے اپنے مستقبل سے متعلق غیر یقینی کا شکار ہیں۔
کومل صبح سویرے جب اپنے آبائی گھر میں آنکھ کھولتیں تو سامنے بلند و بالا پہاڑ اور گھر کے قریب مگر کئی میٹر نیچے بہتا دریا انھیں خوش آمدید کہتا تھا۔ مگر ایسا تب تک ہی تھا کہ جب تک اس دریا نے اپنا روپ نہیں بدلا تھا۔
ایک دن اس دریا میں سیلابی کی طغیانی پیدا ہوئی اور بظاہر پُرسکون نظر آنے والے دریا نے تباہی مچا دی۔ یوں کومل اور اسی علاقے میں آباد کئی دیگر لوگوں کے پیروں تلے سے زمین سرکنے لگی۔
18 سالہ کومل کہتی ہیں کہ ’اُس دن سورج اپنی آب و تاب سے آسمان پر موجود تھا اور وہ بظاہر ایک خوبصورت اور پُرسکون دن تھا۔‘
ان کا خاندان کئی نسلوں سے پاکستان کے صوبے گلگت بلتستان اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع وادی ہنزہ کی سرسبز اور باغات سے بھری زمین پر آباد تھا۔
کومل بتاتی ہیں کہ ’صبح سب کچھ نارمل تھا۔ میں معمول کے مطابق صبح گھر سے تیار ہو کر اپنے سکول پہنچی مگر کُچھ ہی دیر کے بعد ہماری ٹیچر نے ہمیں یہ بتایا کہ حسن آباد کا پُل گِر گیا ہے۔‘
اس علاقے سے اوپر کی جانب برف کا تودہ گر جانے کی وجہ سے پہاڑوں کے درمیان ایک مقام پر ایک برفانی جھیل بن گئی تھی جو کُچھ ہی وقت کے بعد اچانک سے پھٹ پڑی۔ ندی نالے بپھر چُکے تھے، ان میں پانی کا بہاؤ بلند تھا۔ اس میں پتھر اور دیگر ملبہ شامل ہو چُکا تھا۔
زمین اتنی شدت سے کانپ رہی تھی کہ کچھ لوگوں کو لگا کہ زلزلہ آیا ہے۔
یہ سیلابی ریلا جب گاؤں کے دونوں حصوں کو جوڑنے والے سیمنٹ پل سے ٹکرایا تو سب کُچھ اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔
کومل کہتی ہیں کہ ’یہ سب معلوم ہونے کے بعد جب میں اپنے گھر پہنچی تو لوگ اپنے گھروں سے سب کچھ ساتھ لے کر جا رہے تھے۔‘
انھوں نے کتابوں، کپڑوں اور ان کے علاوہ جو وہ لے جا سکتی تھیں، اپنے ساتھ لیا۔ لیکن اس سب کے دوران اُن کے دماغ میں یہ بات بھی کہیں موجود تھی کہ اُن کا گھر تو ندی کے پانی سے بہت اُوپر ہے اور اس میں آنے والے پانی اور پتھروں کے ریلے سے اُن کے گھر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
مگر کومل کے لیے یہ سب اُس وقت تک پرسکون تھا کہ جب تک انھیں وادی کی دوسری جانب سے ایک فون کال پر یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ندی میں آنے والا سیلابی ریلا اُس پہاڑ کو کاٹ رہا ہے کہ جس کے کنارے پر اُن کا گھر ہے۔
یہ وہ وقت تھا کہ جس کے بعد ایک ایک کر کے ارد گرد کے گھر منہدم ہونے لگے۔
’گھر واپس آ کر بہت تکلیف ہوئی‘
کومل کا کہنا ہے کہ ’مجھے یاد ہے کہ میری خالہ اور چچا ابھی اپنے گھر کے اندر ہی تھے جب سیلاب آیا اور پورا باورچی خانہ بہہ گیا۔‘
کومل نے کہا کہ اُن کی خالہ اور چچا کی فیملی محفوظ جگہ پر پہنچنے میں کامیاب تو ہوئے مگر ان کے گھر سیلابی پانی میں غائب ہو گئے۔
آج سیلابی پانی کے ساتھ آنے والی دھول اور مٹی پر چلتے ہوئے ہمیں دیوار پر لگی کپڑے لٹکانے والی ہک یا کُنڈیاں نظر آئیں۔ باتھ روم میں لگی چند ٹائلز بھی موجود تھیں اور ایک ایسی کھڑکی کہ جس کا شیشہ ایک عرصہ قبل ٹوٹ چُکا تھا۔
اس علاقے میں آنے والے سیلاب کو اب دو سال گُزر چُکے تھے مگر اب تک وہ سرسبز زمین اور پھلوں سے لدے باغ بنجر اور ویران تھے۔
کومل کہتی ہیں کہ ’یہاں ہر جانب سبزہ ہی سبزہ تھا۔ میں جب یہاں واپس آئی تو میری انکھوں کے سامنے میرے بچپن کے دن اور وہ خوبصورت وقت گھومنے لگا کہ جو میں نے اپنے پیاروں کے ساتھ یہاں گُزارا تھا۔
’لیکن اب یہ مقام اپنی وحشت کی وجہ سے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ یہاں واپس آ کر بہت تکلیف ہوئی ہے۔ دل و دماغ اُداس ہو گیا ہے۔‘
محققین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی گلگت بلتستان اور اس سے ملحقہ چترال کے منظر نامے کو تبدیل کر رہی ہے۔ یہ صرف ایک ایسے علاقے کا حصہ ہے جسے کچھ لوگ تیسرے قطب کے نام سے پکارتے ہیں۔ ایک ایسی جگہ جس میں قطبی علاقوں سے باہر دنیا کے کسی بھی دوسرے حصے کے مقابلے میں زیادہ برف ہے۔
انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیویلپمنٹ کے مطابق اگر کاربن کا اخراج موجودہ رفتار سے جاری رہا تو اس صدی کے آخر تک ہمالیہ کے گلیشیئرز اپنے حجم کا دو تہائی تک کھو سکتے ہیں۔
آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک (اے کے ڈی این) کے مطابق گلگت بلتستان اور چترال میں 48 ہزار سے زائد افراد جھیل کے پھٹنے یا لینڈ سلائیڈنگ کے باعث انتہائی خطرے کا شکار ہیں۔ ہمسایہ ضلع غذر کے گاؤں بادسوات کی طرح کچھ لوگ اس خطرے سے دوچار ہیں کہ انھیں مکمل طور پر محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے اور ان کا اپنے گھروں میں رہنا ناممکن ہو چُکا ہے۔
آغا خان ایجنسی فار ہیبی ٹیٹ کے پروگرام کوآرڈینیٹر دیدار کریم کہتے ہیں کہ ’موسمیاتی تبدیلی نے پورے خطے میں آفات کی شدت اور فریکوئنسی میں اضافہ کر دیا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ علاقے تباہی کے بہت قریب پہنچ چُکے ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ، پانی کے بڑھتے بہاؤ کی وجہ سے ان علاقوں میں سیلاب آتے ہیں۔ اس سے بنیادی ڈھانچے، مکانات، زرعی زمینوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس بڑھتی سیلابی صورتحال سے یہاں بڑے پیمانے پر لوگوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
دیدار کریم کا مزید کہنا ہے کہ ’بارش اور برف باری کا رجحان بدل رہا ہے اور پھر گلیشیئر کا پگھلنا بھی اب معمول بن چُکا ہے۔ لہذا یہ باتیں اور حالات کو بڑی تیزی سے تبدیل کر رہی ہیں۔‘
قدرتی آفات سے بچنے کی تیاریاں
بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بھی حالات پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ صدیوں سے یہاں آباد لوگوں کے لیے اپنے زمین کو چھوڑنا اور دوسری جگہ منتقل ہونا انتہائی مُشکل ہے۔
ہنزہ اور نگر ضلع میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر زبیر احمد کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس بہت محدود زمین اور محدود وسائل ہیں۔ ہمارے پاس لوگوں کو منتقل کرنے کے لیے مشترکہ زمین نہیں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں کہہ سکتا ہوں کہ پانچ یا دس سال بعد، ہمارے لیے زندہ رہنا بھی بہت مشکل ہو جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ لوگوں کو کچھ سالوں یا دہائیوں کے بعد احساس ہو، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ لہٰذا میرے خیال میں یہ صحیح وقت ہے، اگرچہ ہمیں ابھی بھی دیر ہو چکی ہے، لیکن اب بھی اس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔‘
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے، اگرچہ یہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے صرف ایک فیصد سے بھی کم کا ذمہ دار ہے۔
احمد کہتے ہیں کہ ’ہم ان واقعات کو نہیں روک سکتے کیونکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ اپنے لوگوں کو اس طرح کے واقعات کا سامنا کرنے کے لئے تیار کریں۔‘
حسن آباد سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع پاسو گاؤں میں، ممکنہ تباہی کے لیے تیاری اور وہاں سے لوگوں کو نکالنے کی مشق کر رہے ہیں۔ آبادی جانتی ہے کہ اگر کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہوتی ہے، اگر سڑکیں اور پل بند ہو جاتے ہیں، تو بیرونی مدد آنے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔
ابتدائی طبی امداد، ندی پار کرنے اور اونچے پہاڑوں کے بیچوں بیچ امدادی کاموں کی تربیت حاصل کرنے والے، سال میں چند بار گاؤں خالی کرنے، رضاکار زخمیوں کو سٹریچر پر لے جانے اور فرضی طور پر زخمیوں کو طبی امداد دینے کی مشق کرتے ہیں۔
اعجاز گزشتہ 20 سالوں سے ایک رضاکار کے طور پر کام کر رہے ہیں، جن کے پاس پہاڑوں میں گم ہو جانے والوں کو بچانے کی بہت سی کہانیاں ہیں۔ لیکن وہ بھی خطرات کی تعداد اور اس علاقے میں موسم کی بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کے بارے میں فکرمند ہیں جسے وہ اپنا گھر کہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اب موسم کے بدل جانے اور یہاں کے حالات کے بارے میں کوئی کُچھ نہیں کہ سکتا کہ کیا ہوگا۔ پانچ سال پہلے بھی، موسم میں اتنی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اب آدھے گھنٹے کے بعد ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیا ہوگا۔‘
وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ رضاکاروں بہت زیادہ مدد نہیں کر سکتے۔
اعجاز کا کہنا ہے کہ ’بدقسمتی سے، اگر ایک بڑا اور شدید نوعیت کا سیلاب آتا ہے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ علاقہ مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس کی شدت کم ہوئی تو ہم یہاں کے لوگوں کی جان و مال کو کسی حد تک بچانے میں اپنا کرداد ادا کر سکتے ہیں۔‘
نقصان کو کم کرنے کے لیے پورے خطے میں دیگر اقدامات بھی کیے جا سکتے ہیں۔ سیلابی پانی کی شدت میں کمی کے لیے پتھروں اور تاروں کی مدد سے رکاوٹیں کھڑی کی جاسکتی ہیں۔ گلیشیئر پگھلنے، بارش اور پانی کی سطح پر نظر رکھنے کے لئے نظام، گاؤں میں سپیکر نصب کیے گئے تاکہ خطرے کے پیشِ نظر لوگوں کو متنبہ کیا جاسکے۔ لیکن یہاں کام کرنے والے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں مزید وسائل کی ضرورت ہے۔
احمد کا کہنا ہے کہ ’ہم نے کچھ وادیوں میں قبل از وقت وارننگ سسٹم نصب کیے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ محکمہ موسمیات نے ان کی نشاندہی کی تھی اور انھوں نے ہمیں تقریبا 100 وادیوں کی فہرست دی تھی۔ لیکن محدود وسائل کی وجہ سے ہم صرف 16 میں اپنا کام مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اسے مزید وسعت دینے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔
کومل کے گھر سے کُچھ گھر چھوڑ کر 70 سالہ سلطان علی کا گھر بھی ہے۔
جب ہم ایک روائتی چار پائی پر بیٹھے سلطان علی سے بات کر رہے تھے تو ان کی پوتیاں ہمارے لیے ناشپاتیوں سے بھری ایک پلیٹ لے کر آئیں جو انھوں نے اپنے باغ سے توڑی تھیں۔
وہ جانتے ہیں کہ اگر ایک اور سیلاب آتا ہے، تو ان کا گھر بھی غائب ہو سکتا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جانے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں ہے۔
انھوں نے مُجھے بتایا کہ ’جیسے جیسے میں اپنی زندگی کے اختتام کے قریب پہنچ رہا ہوں، میں خود کو بے بس محسوس کرتا ہوں۔ بچے بہت پریشان ہیں، وہ پوچھتے ہیں کہ ہم کہاں رہیں گے ہم کہاں جائیں گے؟‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ اگر سیلاب آتا ہے، تو یہ سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا اور ہم بس بے بسی سے کھڑے اسے دیکھ رہے ہوں گے اور کُچھ کر نہیں سکیں گے۔ میں کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔ ہماری قسمت میں شاید یہی لکھا ہے۔‘
ہم ان کے پوتے پوتیوں کو اپنے آبائی گھر کے باغ میں کھیلتے دیکھتے ہیں۔ خیال یہی آتا ہے کہ ان کے علاقے میں موسم، برف، اور تیزی سے رنگ بدلتا ماحول ناجانے کیسا وقت لائے گا؟
جب وہ بوڑھے ہو جائیں گے تو یہ زمین کیسی نظر آئے گی؟ کوئی کُچھ نہیں کہ سکتا۔
کومل کو بھی اس بات کا یقین نہیں ہے کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ ہم یہاں ہمیشہ رہیں گے۔ بہت سی چیزیں واضح دکھائی دے رہی ہیں۔ لیکن ہمارے پاس جانے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں ہے۔
’ہم بس یہ جانتے ہیں اور اسی لیے اب بھی یہیں ہیں۔‘