یعقوب منصوری جمعے اور سنيچر کی درمیانی شب کو انڈیا کے شہر جھانسی میں میڈیکل کالج کے چلڈرن وارڈ کے باہر فُٹ پاتھ پر سو رہے تھے کیونکہ ان کی جڑواں بیٹیاں اس ہسپتال کے نوزائیدہ بچوں والے شعبے کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں تھیں۔
نوجوان یعقوب منصوری جمعے اور سنيچر کی درمیانی شب کو انڈیا کے شہر جھانسی میں میڈیکل کالج کے چلڈرن وارڈ کے باہر فُٹ پاتھ پر سو رہے تھے کیونکہ ان کی جڑواں بیٹیاں اس ہسپتال کے نوزائیدہ بچوں والے شعبے کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں تھیں۔
جب اس یونٹ میں آگ لگی تو وہ بیدار ہوئے اور فوراً کھڑکی توڑ کر کچھ نوزائیدہ بچوں کو بچانے میں کامیاب رہے لیکن وہ اپنی کسی بیٹی کو نہ بچا سکے۔
خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق حکام نے انھیں شناخت کے لیے کچھ بچوں کی جلی ہوئی لاشیں دکھائیں لیکن سب بے سود کیونکہ غمزدہ باپ یعقوب منصوری نے کہا کہ ’میں انھیں پہچان نہیں سکا‘۔
ریاست اترپردیش کے جھانسی میں مہارانی لکشمی بائی میڈیکل کالج ہسپتال کے نیونیٹل انٹنسو کیئر یونٹ (این آئی سی یو) میں 15 نومبر جمعے کی رات آگ لگ گئی جس میں 10 نوزائيدہ بچوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ متعدد زخمی ہیں۔
ان کا علاج دوسرے طبی مراکز اور پرائیوٹ ہسپتالوں میں ہو رہا ہے۔ مرنے والے بچوں میں سے اب تک تین کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔
آگ لگنے پر ایسی افراتفری مچی کہ نوجوان ماؤں نے بھی اپنے بچوں کی تلاش شروع کر دی۔ بچوں کی جان بچانے میں شامل کئی والدین کو اپنے ہی بچے نہیں مل رہے تھے۔ ان میں سے یعقوب منصوری بھی ایک ہیں۔
اگرچہ ریاستی حکومت اور وزیر اعظم مودی دونوں نے مرنے والوں اور زخمیوں کے لیے معاوضے کا اعلان کیا ہے تاہم بی جے پی کی مرکز میں مودی حکومت اور ریاست میں یوگی حکومت کو تنقید کا سامنا ہے۔
عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟
بی بی سی کے سید معزز امام نے جھانسی کے میڈیکل کالج کا دورہ کیا جہاں ان کی ملاقات جھانسی ضلع کے گروٹھا کے کرپا رام سے ہوئی۔ کرپارام کا کہنا ہے کہ ان کے بچے کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ اس کی تلاش میں وہ اپنی بہن شیل کماری کے ساتھ ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں۔
میڈیکل کالج کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کے باہر بیٹھے بہن بھائی بچے کے بارے میں کسی اچھی خبر کے منتظر ہیں۔
شیل کماری بتاتی ہیں کہ دس دن پہلے لڑکے کی پیدائش ہوئی تھی لیکن انھیں بچے کی بابت کوئی معلومات نہیں مل پا رہی ہے۔
جمعہ کی رات جب میڈیکل کالج کے این آئی سی یو میں آگ لگی تو کلدیپ بھی وہیں موجود تھے اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے چار نوزائیدہ بچوں کی جان بچائی۔
کلدیپ کا کہنا ہے کہ اس حادثے میں ان کا ہاتھ بھی جل گیا، پھر بھی وہ وہاں سے نہیں ہٹے۔ جب ان کا بچہ نہیں ملا تو کلدیپ اور ان کے اہل خانہ ہسپتال کے گیٹ پر ہڑتال پر بیٹھ گئے۔ انھوں نے انتظامیہ سے بات کی۔
اسی طرح ایک غمزدہ ماں سنتوشی نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ انھوں نے صرف 11 دن پہلے ایک بچے کو جنم دیا تھا۔ انھوں نے کہا: 'میں نے شور سنا تو دوڑتی ہوئی آئی۔ لیکن میں اپنے بچے کو کیسے بچا سکتی تھی؟ ہمیں یہ بتانے والا کوئی نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔'
انھیں تو سنیچر تک یہ بھی پتا نہیں تھا کہ ان کا بچہ زندہ بھی ہے کہ نہیں لیکن بعد میں پتا چلا کہ ان کا بچہ نہیں رہا۔ لیکن کلدیپ کے اہل خانہ کے لیے راحت کی خبر ہے کہ ان کا بچہ سلامت ہے۔
اس رات نیونیٹل آئی سی یو میں تقریبا 50 بچے بھرتی تھے جن میں سے زخمیوں کو دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گيا ہے۔
’زیادہ تر بچوں کو تشویشناک حالت میں لایا گیا تھا‘
جھانسی کے ضلع مجسٹریٹ اویناش کمار نے سنیچر کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا 'ہم نے ہسپتال سے بات کی تو ہمیں پتہ چلاکہ اس حادثے کے وقت وارڈ میں کل 49 نوزائیدہ بچے داخل تھے، ان میں سے 38 بچے محفوظ ہیں، ایک کی حالت تشویشناک ہے۔ یہ سب پرائیویٹ ہسپتالوں اور طبی مراکز میں ہیں۔'
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے مطابق ’سات نومولود بچوں کی لاشیں ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دی گئی ہیں جب کہ تین کی شناخت نہیں ہوسکی، ان کی شناخت کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں‘۔
انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر نوزائیدہ بچوں پر جلنے کے نشان نہیں تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ 'زیادہ تر نوزائیدہ بچے جھلسنے کی وجہ سے زخمی نہیں ہوئے ہیں۔ این آئی سی یو میں لائے گئے زیادہ تر بچوں کو تشویشناک حالت میں لایا گیا تھا جن کی حالت پہلے سے ہی نازک تھی۔ ان میں سے تین کی حالت اب بھی نازک ہے۔ باقی نارمل ہیں۔'
ہسپتال میں ایک فہرست بھی لگائی گئی ہے جس میں یہ معلومات درج ہیں کہ یہ کس کے بچے ہیں۔'
یعقوب نے انڈیا ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'آگ اتنی شدید تھی کہ کسی کی اس میں جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی لیکن کئی لوگوں نے گھسنے کی کوشش کی۔
انھوں نے بتایا کہ جس وارڈ میں میری بیٹیاں تھیں میں اس میں داخل نہ ہو سکا کیونکہ آگ بہت شدید تھی۔ دوسرے والدین نے بھی کوشش کی لیکن وہ بھی ناکام ہو گئے۔ پھر ہم دوسرے وارڈو میں موجود بچوں کو بچانے لگے۔ میں نے سات بچوں کو نکالا۔'
انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ ان کا سالا تھا جو ان کے ساتھ اندر گیا۔ ان کے ساتھ دو تین لوگ اور تھے جنھیں وہ بچے نکال نکال کر کھڑکی کے پاس کھڑے لوگوں کو دے رہے تھے۔ ان کے مطابق وہاں سارے بچوں کا کوئی نہ کوئی موجود تھا۔
انھوں نے بتایا کہ بعد میں ان کی بچیوں کی شناخت ہو گئی لیکن غمزدہ یعقوب مرنے والوں کے لیے انصاف چاہتے ہیں۔
لوگ اپنی مدد آپ اپنے نوزائیدہ بچوں کو بچانے کی کوشش کرتے رہے
آگ لگنے کے وقت وارڈ میں ڈیوٹی پر موجود سسٹر میگھا جیمز نے بتایا کہ آگ سب سے پہلے آکسیجن کنسنٹریٹر میں لگی۔ اس کے فوراً بعد وہ سب بچوں کو وہاں سے نکالنے لگے۔
اشک بار آنکھوں کے ساتھ وہ کہتی ہیں: 'آگ لگنے کے وقت ڈیوٹی پر چار لوگ موجود تھے۔ آگ اتنی تیزی سے لگی کہ ہمیں موقع ہی نہیں ملا۔'
ایک نوزائیدہ بچی کی رشتہ دار آشا نے بتایا کہ اس وقت تک باہر بیٹھے بہت سے لوگ سوئے نہیں تھے، اس لیے جب آگ لگی تو وہ اندر بھاگے۔
آشا کہتی ہیں: ’جس نے جس نومولود کو پایا وہ اس نے اسے بچایا اور باہر لایا۔'
للت پور سے آنے والی مُنّو لال کی بیٹی بھی تین ہفتوں سے ہسپتال میں داخل تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچی کو بچا لیا گیا ہے لیکن انھوں نے الزام لگایا کہ 'آگ بجھانے والے سلنڈر کو چلانے کا طریقہ بھی کسی کو معلوم نہیں تھا۔ سلنڈر بھی صحیح جگہ پر نہیں لگائے گئے تھے۔'
مُنّو لال کہتے ہیں کہ ان کی بیٹی ایک پالنے میں تھی جس میں اور بھی کئی نومولود تھے۔ اس واقعہ کے بعد مُنّو لال نے اپنی بچی کو پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کرایا ہے۔
کل 16 نوزائیدہ کا علاج دوسرے ہسپتالوں میں جاری ہے۔
حزب اختلاف کی تنقید
اس واقعے پر حزب اختلاف نے یوگی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ریاست میں سیاسی الزام تراشی کا کھیل شروع ہو گیا ہے جہاں 20 نومبر کو نو اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں نے ریاست میں بی جے پی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ بچوں کی اموات انتظامیہ پر بہت سے سنگین سوالات اٹھاتی ہیں۔
اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اور سماجوادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادو نے کہا کہ وزیر اعلی آدتیہ ناتھ کو انتخابی مہم چھوڑ کر ریاست کی صحت اور طبی سہولیات کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
انھوں نے مزید کہا کہ 'گورکھپور کو دہرایا نہیں جانا چاہیے۔' خیال رہے کہ اس سے قبل سنہ 2017 میں گورکھپور کے سرکاری ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے 50 سے زیادہ بچے اور ایک درجن سے زیادہ معمر افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
حزب اختلاف کے رہنام راہل گاندھی کے ساتھ ان کی کانگریس پارٹی نے یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش میں یکے بعد دیگرے اس طرح کے افسوسناک واقعات حکومت اور انتظامیہ کی لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
پارٹی کے صدر ملکارجن کھرگے نے حادثے کی تحقیقات اور لاپرواہی کے قصوروار پائے جانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اتر پردیش حکومت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امدادی کام میں تیزی لانے کے لیے آدتیہ ناتھ کی ہدایت پر سینیئر حکام نے جمعہ کی رات ہی صورتحال کا چارج سنبھال لیا ہے۔
سوشل میڈیا پر گذشتہ تین دنوں سے 'جھانسی' ٹرینڈ کر رہا ہے جس میں لوگ یعقوب منصوری کے ساتھ دیگر بچانے والوں کا ذکر کر ہے ہیں اور لکھ رہے ہیں اس طرح کے واقعات کے باوجود سیاست داں ہندو مسلم کی سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔
ایک صارف نے لکھا کہ اخلاقی طور پر یہ سماج مر چکا ہے۔ راہل نامی ایک صارف نے سوشل میڈیا پلیٹفارم ایکس پر لکھا: 'یعقوب منصوری کھڑکی توڑ کر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر یونٹ میں داخل ہوئے اور بہت سے بچوں کو بچایا لیکن اپنی جڑواں بچیاں کھو دیں۔ کہانی ختم۔‘
'وہ فوڈ وینڈر ہیں۔ کل جب سڑک پر آئیں گے تو کچھ زومبی صرف یعقوب منصوری نام کی وجہ سے ان سے کھانا خریدنے سے انکار کر دیں گے۔ فرقہ وارانہ انڈیا کی حقیقت۔'
کانگریس پارٹی کی ترجمان سوپریا شریناٹے نے ایکس پر لکھا: ’یعقوب منصوری کے علاوہ جھانسی کے ایک اور مسیحا سامنے آئے۔ پشپیندر نے بھی بچوں کی جان بچائی۔
’یہ نیک بندے ہیں۔ ان کے جیسے اور ہونے چاہیے۔ ان کے حوصولوں پر انسانیت زندہ ہے اور انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں۔ کاش بٹنے کٹنے کی بات کرنے والے یہ بات سمجھیں۔'
رکن پارلیمان اور مجلس اتحادالمسلین کے رہنما اسدالدین اویسی کا ایک ویڈیو لوگ شیئر کر رہے ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ یعقوب منصوری نے دس بچوں کی جان بچائی تو کیا اب ’یوگی آدتیہ ناتھ ان کے سامنے بول سکتے ہیں کہ 'بٹیں گے تو کٹیں گے‘؟