آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹی ٹونٹی میں پاکستانی بیٹنگ نے اندھا دھند بلے گھمانے کی راہ اپنا کر جو خجالت کمائی، دوسرے میچ میں اس کا ازالہ شدید احتیاط سے کرنے کی کوشش کی گئی اور اننگز کے پہلے نصف تک کوئی باؤنڈری نہ لگا کر ایک نیا ریکارڈ اپنے نام کیا گیا۔ ہوبارٹ کے اس تیسرے میچ میں پاکستان کی بیٹنگ اپروچ کیا تھی؟
ایک ہی کہانی میں سبھی کردار ہیرو نہیں ہو سکتے۔ ہر کردار کو محض اپنے اپنے حصے کا بوجھ اٹھانا ہوتا ہے۔ اگر ہر کردار دوسرے کرداروں کے خواص اور تاثرات بھی نبھانے لگے تو کہانی کی اساس ہی مٹ جاتی ہے۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ اپنی خاصیت میں مختصر ہونے کے باوجود اپنے ارتقا میں تیز تر رہی ہے۔ اس فارمیٹ میں جہاں ڈیڑھ دہائی پہلے 160 ایک مسابقتی مجموعہ ہوا کرتا تھا، وہیں اب کم از کم 200 رنز کوئی مقابلہ بنانے کو درکار ہوتے ہیں۔
گو، مثالی مسابقتی مجموعے میں کنڈیشنز اور وینیوز کے حوالے سے بدلاؤ آتا رہتا ہے مگر حالات جس قدر بھی بولنگ کو سازگار ہوں، دنیا میں کہیں بھی 150 سے کم رنز کا مجموعہ جیت کے لیے کافی نہیں ہو سکتا۔
اگرچہ پچھلے تین ٹی ٹوئنٹی ورلڈ ٹائٹلز کی دوڑ میں دو بار پاکستان اس کے قریب ترین آیا مگر پچھلے تین ہی برس سے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اس کی بیٹنگ اپروچ بھی بے بہا مباحث کا موضوع رہی ہے۔
پچھلے ایک سال میں پاکستان نے اردگرد کی دنیا پہ نظر ڈالنا اور اپنے رویے پہ نظرِ ثانی کا آغاز کیا ہے مگر پی سی بی کے انتظامی معاملات میں استحکام کا فقدان یوں حاوی رہا ہے کہ ہر بار ایک قدم آگے بڑھانے کے بعد دو قدم واپس پیچھے رکھے گئے ہیں۔
آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی میں پاکستانی بیٹنگ نے اندھا دھند بلے گھمانے کی راہ اپنا کر جو خجالت کمائی، دوسرے میچ میں اس کا ازالہ شدید احتیاط سے کرنے کی کوشش کی گئی اور اننگز کے پہلے نصف تک کوئی باؤنڈری نہ لگا کر ایک نیا ریکارڈ اپنے نام کیا گیا۔
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر: سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
ہوبارٹ کے اس تیسرے میچ میں پاکستان کی بیٹنگ اپروچ کیا تھی؟
مگر اس پہ بات کرنے سے پہلے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ دوسرے اور تیسرے میچ کے بیچ خالی ایک روزہ وقفے کو غنیمت جان کر، کرکٹ بورڈ کے مطلق العنان نگہبان نے جیسن گلیسپی کی بطور ہیڈ کوچ مکمل رخصتی اور عاقب جاوید کی بطور ہیڈ کوچ تقرری کا فیصلہ کیا اور پھر چند ہی گھنٹے بعد وضاحت جاری ہوئی کہ جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لیے کوچ گلیسپی برقرار رہیں گے۔
یہی جیسن گلیسپی تھے جن سے طویل مدت منصوبہ سازی کی مہلت طے ہوئی تھی اور اپنی دوسری ہی سیریز میں ان کے سارے اختیارات صلب کر لیے گئے، پھر گیری کرسٹن کی رخصتی کے بعد انہی سے مستقل وائٹ بال کوچنگ کی بات چھیڑی گئی اور پھر انہی کی مستقل رخصتی کی خبر ’ذرائع‘ کو دے دی گئی۔
جہاں معاملات اس طرح سے چلائے جا رہے ہوں کہ قومی ٹیم سے جڑے کسی بھی فرد کو ایک سیریز سے آگے اپنے مستقبل کی کوئی خبر نہ ہو، وہاں طویل مدتی منصوبہ سازی اور تزویراتی بدلاؤ کا تذکرہ ہی کسی مذاق سے کم نہیں۔
محمد رضوان کا آرام کرنے کا فیصلہ جس قدر معنی خیز تھا، اس سے کہیں زیادہ ان کا ’آرام‘ توڑ کر بطور متبادل فیلڈر میدان میں اتر آنا تھا۔
پاور پلے میں جو بیٹنگ اپروچ پاکستان نے دکھلائی، وہ شاندار حد تک امید افزا تھی۔ مگر نجانے یہ تھنک ٹینک اور ٹیم کے بیچ ابلاغ کی کمی تھی کہ اس الیون کی اپنی کھیل آگہی کی کم مائیگی، جو سبھی بلے باز راتوں رات کسی انقلاب سے گزر کر ایک ہی فارمولے کی صداقت پہ یقین لائے، بے سبب قدم بڑھاتے نظر آئے۔
صاحبزادہ فرحان نے تو جو کیا، وہی ان کا تفویض کردہ کردار تھا جسے پھر حسیب اللہ نے بھی اپنے طور سے نبھایا۔ مگر عثمان خان نے جو کیا، وہ نہ تو ان کے مزاج کا خاصہ تھا اور نہ ہی ان کا تفویض کردہ کردار ہونا چاہیے تھا کہ ابتدائی نقصانات کے بعد ٹیم اننگز کو انجام تک پہنچانا انہی کی ذمہ داری تھی۔
بابر اعظم نے بہت خوب بلے بازی کی اور اپنے گئے دنوں کی یادیں روشن کر دیں مگر زیمپا کے خلاف ایک بار پھر ان کے کھیل کا وہی تکنیکی جھول ابھر کر سامنے آیا جو کئی برس سے جوں کا توں ہے۔
اس سارے گھڑمس کے بعد جو اکلوتی امید پاکستان کے ہاتھ بچی تھی، وہ عرفان نیازی کا آخر تک کریز پہ رہنا تھا کہ انہی کے بلے سے کچھ ایسے شاٹ نکل سکتے تھے جو پاکستانی مجموعے کو کچھ آبرو دے جاتے۔ مگر یہ امید بھی ابلاغ کی کمی کی نذر ہو گئی۔
اگرچہ اس بلے بازی پہ بھی تنقید کے دفتر بھرے جا سکتے ہیں مگر سوال پھر وہیں رہ جاتا ہے کہ ان سبھی باصلاحیت ناموں کے کھیل میں اس قدر الجھن اور بگاڑ کے ذمہ دار فیصلہ ساز یہ کب سمجھ پائیں گے کہ کسی بھی سٹائل یا رجحان کی کامیابی کے لیے تسلسل اور طویل مدت منصوبہ سازی کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ ہر فرد کی تقدیر کو تاحکمِ ثانی لٹکا ڈالنے سے نتائج کی توقعات جوڑ لینا۔
’وائٹ واش ہو گیا عاقب بھائی‘
آسٹریلیا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستان کی تیسری شکست اور وائٹ واش کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین پاکستانی کھلاڑیوں پر تنقید کر رہے ہیں۔
ایک صارف نے پاکستان کی بیٹنگ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان 60 رنز پر ایک وکٹ کے نقصان سے 117 رنز پر آل آوٹ،ہابرٹ میں جہاں سائیّڈ باؤڈریز صرف 64 میٹرز اور 57 میٹرز تھی صرف ایک پاکستانی بلے باز صرف ایک چھکا لگانے میں کامیاب ہوا، پاکستان کو کچھ سکس ہٹرز کی ضرورت ہے۔‘
https://twitter.com/RichKettle07/status/1858443411159990767
سپورٹس جرنلسٹ ارفع فیروز نے لکھا کہ پاکستان صرف تیسرا ٹی 20 میچ نہیں ہارا بلکہ یہ آسٹریلیا کے ہاتھوں پاکستان کی تذلیل ہوئی ہے۔
بہت سے صارفین یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ آخر پاکستان نے تیسرے ٹی 20 میچ میں اپنے کپتان کو کیوں ڈراپ کر دیا ہے اور یہ میچ محمد رضوان کیوں نہیں کھیلے؟
صارف فرید خان نے سوال اٹھایا کہ آخر پاکستان کی آسٹریلیا کے ہاتھوں تینوں ٹی 20 میچز میں اس شکست کا ذمہ دار کون ہے؟
ابھی پاکستان کے وائٹ بال کوچ عاقب جاوید نے ذمہ داریاں بھی نہیں سنبھالیں کہ سوشل میڈیا پر ایک صارف نے انھیں یہ آواز دی کہ ’وائٹ واش ہو گیا عاقب بھائی۔‘