بچپن سے ہم ٹی وی کی خبروں میں سنتے آئے ہیں کہ اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ کاروبار ہوا یا مندی رہی، یا فلاں کمپنی کے حصص کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوا۔
اسٹاک مارکیٹ ایسا مقام ہے جو ملک کی مختلف کمپنیوں کے اسٹاک یا شیئرز کے خریداروں اور ان کے فروخت کنندگان کو ایک دوسرے سے منسلک کرتی ہے۔
عام شہری اسٹاک ایکس چینج میں شیئر کی خرید و فروخت کیسے کرسکتے ہیں؟ اس حوالے سے نجی ٹی وی سابق ڈائریکٹر پاکستان اسٹاک ایکسچینج ظفر موتی نے ناظرین کو تفصیل سے آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ اسٹاک ایکس چینج ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں سرمایہ کار نئی انڈسٹریاں لگانا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ جس سے وہ اپنی کمپنی کو بہتر طریقے سے چلا سکیں جس کو کرنے کے دو طریقے ہیں کہ یا تو وہ کسی بینک سے قرضہ لیں یا چھوٹے چھوٹے شیئر ہولڈرز کا تعاون حاصل کرکے ان کو بھی اپنے منافع میں شامل کریں۔
اس لیے بڑے ادارے بینکوں سے قرضہ لینے کی بجائے اپنے حصص کا کچھ حصہ چھوٹے سرمایہ کاروں کو فروخت کر دیتے ہیں، ان حصص یعنی شیئرز خریدنے والوں کو شیئر ہولڈرز کہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسٹاک ایکسچینج میں جس کمپنی کے شیئرز زیادہ خریدے جائیں تو ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور جس کمپنی کے شیئرز زیادہ فروخت کیے جاتے ہیں تو ان کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔
اگر زیادہ کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت بڑھ جائے تو اس سے انڈیکس میں تیزی دیکھنے میں آتی ہے اور وہ بڑھ جاتا ہے، اگر خریداری کم ہو اور شیئرز کی فروخت یا کاروبار نہ ہو تو انڈیکس گر جاتا ہے، جسے مندی کہتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اسٹاک ایکسچینج میں 700 کمپنیاں لسٹڈ ہیں ان میں سو کمپنیاں ایسی ہوتی ہیں جو پورے اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار کے حالات کو ظاہر کرتی ہیں اور پورے دن کے کاروبار کا موازنہ کرتی ہیں جسے پی ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس کہا جاتا ہے۔