کیا ٹیپو سلطان اپنے مخالفین پر انتہائی تشدد کروانے کے قائل تھے؟

ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی نے انھیںریاستمیسور کی ذمہ داری سونپی اور وفات سے پہلے لکھے خط میں کہا کہ ’تم میری شان کے وارث ہو، ہمیشہ یاد رکھو، تخت بہادری سے جیتا جا سکتا ہے، لیکن اسے صرف بہادری سے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا۔‘
ٹیپو سلطان
Getty Images

چھ اور سات دسمبر 1782 کی درمیانی شب ریاست میسور کے سلطان حیدر علی کی وفات ہوئی تھی، اُن کی کمر پر ایک بڑا پھوڑا نکل آیا تھا اور ڈاکٹر اس کا علاج نہیں کر پائے تھے۔

حیدر علی کی وفات کے فوری بعد اُن کے بیٹے ٹیپو سلطان کو اُن کی جگہ میسور کا سلطان بنا دیا گیا۔

ڈینس فورسٹ نے اپنی کتاب ’ٹائیگر آف میسور، دی لائف اینڈ ڈیتھ آف ٹیپو سلطان‘ میں ایک برطانوی مبصر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ٹیپو کی عمر اُس وقت 33 سال تھی اور اُن کا قد 5 فٹ 7 انچ تھا۔‘

’وہ ایک خوبصورت آدمی تھا، لیکن اس کی گردن چھوٹی تھی۔ اس کے بازو بڑے اور مضبوط تھے جن سے طاقت کا تاثر ملتا تھا، لیکن دوسری جانب اس کے ہاتھ بہت نازک تھے۔ اس کے چہرے کی خاصیت اس کی کالی آنکھیں تھیں جو گفتگو کرتی تھیں۔‘

بستر مرگ پر پڑے حیدر علی نے وفات سے قبل اپنے بیٹے کو اچھے طرز حکمرانی سے متعلق مشورے دیے تھے۔

ٹیپو کو لکھے گئے ایک خط میں اُن کے والد نے خبردار کیا تھا کہ ’(ایسٹ انڈیا) کمپنی بار بار تمھاری کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ تمھاری راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انگریزوں کا حسد ہو گا۔ آج ہندوستان میں سب سے زیادہ طاقتور لوگ انگریز ہیں۔ آج سب سے بڑی ضرورت اُن کو لڑا کر کمزور کرنے کی ہے، اُن کو آپس میں تقسیم کر کے ہی کمزور کیا جا سکتا ہے۔۔۔‘

اس طویل خط میں حیدر علی نے وضاحت کی کہ ’فرانسیسیوں کی مدد سے آپ (ٹیپو) برطانوی فوج پر فتح حاصل کر سکتے ہیں۔ جنگی حکمت عملی میں یورپی ہم سے بہتر ہیں۔۔۔‘

’تم میری شان کے وارث ہو، ہمیشہ یاد رکھو، تخت بہادری سے جیتا تو جا سکتا ہے، لیکن اسے صرف بہادری کے بل بوتے پر محفوظ نہیں رکھا جا سکتا۔‘

کامیاب فوجی کمانڈر

ٹیپو سلطان کا شمار ہندوستان کے قابل اور بہادر فوجی کمانڈروں میں ہوتا تھا۔

میدان جنگ میں اپنی صلاحیت کا ثبوت دیتے ہوئے انھوں نے نہ صرف پولیلور کی جنگ میں انگریزوں کو شکست دی، بلکہ 1782 میں انھوں نے تھانجاور کے باہر کرنل جان بریتھ ویئر کی قیادت میں کمپنی کی ایک فوج کو بھی شکست دی۔

اقتدار سنبھالنے سے ایک سال قبل، انھوں نے دریائے کولرون کے کنارے پر حملہ کر کے کمپنی کے فوجیوں کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

ولیم ڈیلریمپل اپنی کتاب ’دی انارکی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ٹیپو نے فرانسیسی انجینیئروں کی مدد سے ہندوستان میں صنعتی ٹیکنالوجی درآمد کی اور پانی کی طاقت سے چلنے والی مشینوں کا استعمال شروع کیا۔‘

’اس نے اپنے قاصدوں کو جنوبی چین میں بھیجا اور ریشم کے کیڑوں کے انڈے حاصل کیے اور میسور میں ریشم کی صنعت قائم کی۔ اس نے ڈیم بنا کر آبپاشی کا انتظام شروع کیا۔ یہاں تک کہ اس کے برطانوی دشمنوں کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ اس کے دور اقتدار میں زراعت اور تجارت بہت ترقی یافتہ حالت میں تھی۔‘

عرفان حبیب نے اپنی کتاب ’حیدر علی اور ٹیپو سلطان: مزاحمت اور جدیدیت‘ میں یہ لکھا ہے کہ ٹیپو کی خواہش اتنی تھی کہ وہ ہندوستان سے باہر بھی دیکھنے کے قابل ہو۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’ٹیپو نے استنبول میں اپنے ایلچی سے کہا کہ وہ عراق میں بصرہ میں ان کے لیے ’اجارہ‘ کا انتظام کرے تاکہ وہ بھی یورپی اقوام کی طرح ترکی میں جہازوں کا اڈہ بنا سکیں۔‘

اجارہ بولی لگا کر کرائے پر زمین حاصل کرنے کا ایک نظام تھا جو ان دنوں میں کافی رائج تھا۔

ٹیپو کی مذہبی پالیسی پر مؤرخین کی رائے

ٹیپو سلطان کی مذہبی پالیسی کے بارے میں مؤرخین کی مختلف آرا ہیں۔

عرفان حبیب اپنی کتاب میں سبرایا چیٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’1784 میں ٹیپو نے وینکٹاچلا شاستری اور برہمنوں کے ایک گروپ کو زمین عطیہ کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ ان کی لمبی عمر اور خوشحالی کے لیے دعا کریں۔‘

’ایک سال بعد انھوں نے مالاکوٹ کے مندر کو 12 ہاتھی عطیہ کر دیے۔ سرینگر کے مندر کو بھی ٹیپو کی طرف سے ایک بڑی رقم عطیہ کی گئی۔‘

’انھوں نے مراٹھا حملے کے دوران مندر کو پہنچنے والے نقصان پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ اسلام کے سچے پیروکار ہونے کے باوجود، ٹیپو نے اپنے وقت کی ملی جلی ثقافت کو اپنایا۔‘

عرفان حبیب لکھتے ہیں کہ ’اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ٹیپو نے اپنے برہمن مشیروں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنے تمام سپاہیوں خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان، کو مقدس دریاؤں میں نہانے کا حکم دیا تاکہ اُن کا خوف دور ہو جائے اور وہ مرہٹوں کے مقابلے میں ایک بہتر جنگجو ثابت ہوں۔‘

یہاں ٹیپو کی انگوٹھی کا ذکر کرنا ضروری ہے، جسے لندن کے نیلام گھر ’کرسٹیز‘ نے تقریباً 10 سال قبل ایک گمنام بولی لگانے والے کو 150 کروڑ روپے میں فروخت کیا تھا۔

اس انگوٹھی کی خاص بات یہ ہے کہ اس 42 گرام خالص سونے کی انگوٹھی پر دیوناگری رسم الخط میں ’رام‘ لکھا ہوا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک انگریز افسر نے ٹیپو کی موت کے بعد ان کی انگلی سے یہ انگوٹھی اُتار لی تھی۔

’عدم برداشت اور ظالم؟‘

بہت سے مؤرخین ایسے ہیں جو ٹیپو سلطان کو ایک سخت اور ظالم بادشاہ ثابت کرتے ہیں۔

وکرم سمپت حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’ٹیپو سلطان، دی ساگا آف میسور انٹرریگنم‘ میں لکھتے ہیں کہ ٹیپو کے خطوط اور لائبریری میں کتابوں کے ذخیرے سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیپو کو غیر مسلموں سے بہت نفرت تھی۔‘

’ٹیپو کا خیال تھا کہ اُن کے خلاف جہاد کرنا اُن کا مذہبی فریضہ ہے۔ ان کی تلوار کے نوک پر لکھا ہوا تھا، ’میری فاتح تلوار کافروں کے لیے بجلی ثابت ہو گی۔‘

وکرم سمپت لکھتے ہیں کہ ٹیپو نے اپنی ریاست کا نام ’سرکار خداداد‘ رکھا اور اپنے دربار میں فارسی زبان کا استعمال شروع کیا۔ یہی نہیں بلکہ ٹیپو نے کئی شہروں کے پرانے نام بدل کر ان کے اسلامی نام بھی رکھ دیے۔

لیوس رائس ’میسور اے گزٹیئر کمپائلڈ فار دی گورنمنٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ٹیپو نے جان بوجھ کر میسور کے پرانے ہندو بادشاہوں کی یاد کو مٹانے کی کوشش کی۔ ان کے لیے ٹیپو نے صدیوں پرانے آبپاشی کے نظام کو تباہ کر کے اپنے نام سے نیا آبپاشی کا نظام شروع کیا۔‘

لیکن تاریخ دان سریندر ناتھ سین کا خیال ہے کہ ’ٹیپو ایک جنونی نہیں تھا۔ چاہے اس نے کچھ لوگوں کا مذہب زبردستیتبدیل کیا، لیکن اُس کا مقصد مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھا۔‘

’مسلمانوں کو ہاؤس ٹیکس اور اناج اور ذاتی سامان پر ٹیکس ادا کرنے سے استثنیٰ دیا گیا تھا۔ عیسائیوں کی جائیداد ضبط کر لی گئی تھی اور انہیں دارالحکومت میں دوبارہ آباد کیا گیا تھا: ایم ایچ گوپال کی کتاب سے اقتباس
Getty Images

دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ ٹیپو کے رویے پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔

ایم ایچ گوپال نے اپنی کتاب ’ٹیپو سلطانز میسور: این اکنامک سٹڈی‘ میں لکھا ہے کہ ’ٹیپو غیر مسلموں کے شدید مخالفت تھے۔‘

’1792 کے بعد، انھوں نے اپنے وفادار مسلمان ساتھیوں کو اہم عہدوں پر تعینات کرنا شروع کیا۔ دیوان کے عہدے پر صرف ایک ہندو تھا جو محصولات کے نظام کی دیکھ بھال کرتا تھا۔‘

’مسلمانوں کو ہاؤس ٹیکس اور اناج اور ذاتی سامان پر ٹیکس ادا کرنے سے استثنیٰ دیا گیا تھا۔ عیسائیوں کی جائیداد ضبط کر لی گئی تھی، اسلام قبول کرنے والوں کو بھی ٹیکس سے استثنیٰ تھا۔‘

انتہائی تشدد پر یقین

ولیم ڈیلریمپل لکھتے ہیں کہ ’یسی بہت سی مثالیں ہیں کہ کس طرح انھوں نے باغیوں کو پھانسی دینے سے پہلے ان کے ہاتھ، پاؤں، ناک اور کان کاٹ ڈالے۔‘
Getty Images

بعض مؤرخین کے نزدیک ٹیپو سلطان اس وقت اپنے مخالفین اور جن کو انھوں نے شکست دی ان کے خلاف حد سے زیادہ تشدد استعمال کرنے کے لیے مشہور تھے۔

ولیم ڈیلریمپل لکھتے ہیں کہ ’ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ کس طرح انھوں نے باغیوں کو پھانسی دینے سے پہلے ان کے ہاتھ، پاؤں، ناک اور کان کاٹ ڈالے۔‘

’بعض اوقاتشکست خوردہ لوگوں کے مندروں اور گرجا گھروں کو بھی تباہ کیا۔ ان سے شکست کے بعد بہت سے لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ انھوں نے برہنہ عیسائیوں اور ہندوؤں کو ہاتھیوں کے پاؤں سے باندھ دیا اور ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے تک ان کے گرد گھومنے پھرنے پر مجبور کیا۔‘

اس ظلم کے ساتھ ساتھ ٹیپو میں سفارتی مہارت کی بھی کمی تھی۔ جب کارن والیس ستمبر 1786 میں کلکتہ پہنچے تو ٹیپو مراٹھا پیشوا اور نظام حیدرآباد کے ساتھ جنگ ​​میں تھے۔

یہ دونوں کبھی اُن کے والد کے دوست ہو کرتے تھے۔

ان کے والد حیدر علی نے ان دونوں کو انگریزوں کے خلاف متحد کیا تھا۔ لیکن، اپنے پڑوسیوں پر ٹیپو کے حملے نے اسے ٹیپو کے خلاف کارن والیس کی حمایت کرنے پر مجبور کیا۔

خطبہ

نہ صرف مرہٹوں، نظام اور تراونکور کے لوگ ان کے دشمن بن گئے بلکہ ان کی قدیم ترین دشمن ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی ان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔
Getty Images

ییی نہیں ٹیپو نے مغل بادشاہ شاہ عالم سے تمام تعلقات ختم کر دیے اور اُن کی حاکمیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

سر پینڈارڈ مون نے اپنی کتاب ’دی برٹش کانکیسٹ‘ میں لکھا ہے کہ ’ٹیپو نے حکم دیا کہ جمعے کی نماز کے بعد ان کے نام کا خطبہ پڑھا جائے نہ کہ کسی مغل بادشاہ کے نام کا۔ ٹیپو کی دلیل یہ تھی کہ بادشاہ خود 15 ہزار روپے ماہانہ کے عوض غلام بن گیا تھا۔‘

دسمبر 1789 میں، شمالی مالابار اور تنجور کو فتح کرنے کے بعد، ٹیپو نے ٹراوانکور کے خلاف بھی محاذ کھولا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف مرہٹوں، نظام اور تراونکور کے لوگ ان کے دشمن بن گئے بلکہ ان کی قدیم ترین دشمن ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی ان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔

26 جنوری 1792 کو تینوں فوجوں نے سری رنگا پٹنہ کی طرف کوچ کیا۔

اس وقت ٹیپو کی فوج میں 50 ہزار سپاہی تھے۔ حکمت عملی کے طور پر ٹیپو نے قلعے کے اندر رہ کر انگریزوں سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔

کارن والس نے پر امن تصفیے کے لیے ٹیپوکی تجویز قبول کر لی لیکن اس کے لیے سخت شرائط رکھیں۔پہلی شرط یہ تھی کہ ٹیپو اپنی آدھی سلطنت انگریزوں کو دے دے۔ دوسری شرط یہ تھی کہ وہ تین کروڑ روپے معاوضہ ادا کرے اور اپنے دونوں بیٹوں کو اس وقت تک انگریزوں کے پاس یرغمال بنائے جب تک یہ رقم پوری نہ ہو جائے۔
Getty Images

فروری تک تینوں فوجیں قلعے کے سامنے پہنچ گئیں۔ اندھیری رات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کارن والیس نے ٹیپو کو حملے کا موقع نہیں دیا اور قلعے پر حملہ کر دیا۔

ٹیپو کی فوج نے دو گھنٹے تک سخت مقابلہ کیا، لیکن پھر وہ دفاعی انداز میں قلعے کے اندر چلے گئے۔

کارن والس نے دوبارہ حملہ کیا اور صبح تک لال باغ اس کے قبضے میں آ گیا۔

ولیم ڈیلریمپل لکھتے ہیں کہ ’اگلے دن ٹیپو نے کئی جوابی حملے کیے، لیکن ان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کی فوجوں نے اسے چھوڑنا شروع کر دیا، اور اسے مجبور کیا کہ وہ کارنوالس کو امن اور تصفیے کے لیے پیغام بھیجے۔‘

’کارن والس نے یہ تجویز قبول کر لی، لیکن اس کے لیے سخت شرائط رکھیں۔‘

پہلی شرط یہ تھی کہ ٹیپو اپنی آدھی سلطنت انگریزوں کو دے گا۔

دوسری شرط یہ تھی کہ وہ تین کروڑ روپے معاوضہ ادا کرے اور اپنے دونوں بیٹوں کو اس وقت تک انگریزوں کے پاس یرغمال رکھوائے گا جب تک یہ رقم پوری نہ ہو جائے۔

اس کے علاوہ تمام برطانوی جنگی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور مرہٹوں اور نظام سے چھینی گئی زمین انھیں واپس کی جائے گی۔

انگریزوں کا ایک اور حملہ

جیک ویلر اپنی کتاب 'ویلنگٹن اِن انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’انگریزوں کے پاس بھاری توپ خانہ تھا۔ انھوں نے قلعے کی دیواروں میں گھسنے کے لیے چالیس 18 پاؤنڈر توپیں نصب کی تھیں۔‘
Getty Images

دونوں جماعتوں کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے اور ٹیپو کے دو شہزادوں عبدالخالق اور پانچ سالہ معیز الدین کو 18 مارچ 1792 کو کارنوالس کے حوالے کر دیا گیا۔

ان شہزادوں کو ہاتھیوں پر مدراس لے جایا گیا۔ دو سال کے بعد جب ٹیپو نے تمام جرمانہ ادا کر دیا تو انھیں ٹیپو کے پاس واپس بھیج دیا گیا۔

ٹیپو اس صدمے سے کبھی سنبھل نہیں پائے۔ اس جنگ میں ان کے ہزاروں سپاہی مارے گئے۔ لیکن اس شکست کے باوجود ٹیپو نے سر نہیں جھکایا۔

19 فروری 1799 کو انگریزوں نے ایک بار پھر ٹیپو سلطان پر حملہ کیا۔

ٹیپو، جس نے 1792 میں اپنی آدھی سلطنت کھو دی تھی کے پاس پہلے کے مقابلے بہت کم وسائل تھے۔

اس کے باوجود ٹیپو کے سپاہیوں نے بہادری کا مظاہرہ کیا اور کچھ عرصے کے لیے ایسا لگ رہا تھا کہ انگریز فوج آگے بڑھنے کے قابل نہیں رہی۔

جیک ویلر اپنی کتاب 'ویلنگٹن اِن انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’انگریزوں کے پاس بھاری توپ خانہ تھا۔ انھوں نے قلعے کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کے لیے چالیس توپیں نصب کی تھیں۔‘

’اپریل کے آخر تک، ٹیپو کی زیادہ تر توپیں ناکام ہو چکی تھیں۔ 3 مئی کو حیدرآباد کی توپیں قلعے کے 350 میٹر کے فاصلے تک پہنچ چکی تھیں۔‘

’شام تک قلعے کی دیواروں میں ایک بڑا سوراخ تھا۔ جنرل حارث نے فیصلہ کیا کہ وہ اگلے دن اپنے سپاہیوں کو قلعے کے اندر بھیجے گا۔‘

صبح قلعے کو پہنچنے والے نقصان کا معائنہ کرنے کے بعد، ٹیپو نے اپنے نجومیوں سے مشورہ کیا۔

انھوں نے انھیں خبردار کیا کہ آج کا دن ان کے لیے اچھا نہیں ہے۔ جیسے ہی ٹیپو کے سپاہی ایک بجے کے قریب آرام کرنے گئے، چار ہزار انگریز فوجیوں نے قلعہ پر حملہ کر دیا۔

ٹیپو کی موت

ڈینس فورسٹ نے اپنی کتاب 'ٹائیگر آف میسور' میں لکھا ہے کہ ’قلعے کی بیرونی اور اندرونی دیواروں کے درمیان، ٹیپو نے اپنی آخری سانس تک بہادری کا مظاہرہ کیا۔‘
Getty Images

ٹیپو سلطان اس وقت کھانا کھا رہے تھے۔ جیسے ہی اس نے سنا کہ حملہ شروع ہو گیا ہے، کھانا چھوڑ کر اٹھے اور اپنے محافظ کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو کر اس جگہ پہنچے جہاں قلعے کی دیوار میں سوراخ تھا۔

لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی کمپنی کے سپاہی قلعے میں داخل ہو چکے تھے۔ ٹیپو کو دو سنگین وار اور بائیں کندھے پر ایک گولی لگی۔

اس کے ساتھیوں نے اسے ہتھیار ڈالنے کا مشورہ دیا لیکن ٹیپو نے چلا کر کہا کہ ’کیا تم پاگل ہو گئے ہو؟ چپ رہو۔‘

ڈینس فورسٹ نے اپنی کتاب 'ٹائیگر آف میسور' میں لکھا ہے کہ ’قلعے کی بیرونی اور اندرونی دیواروں کے درمیان، ٹیپو نے اپنی آخری سانس تک بہادری کا مظاہرہ کیا۔‘

’ایک انگریز سپاہی نے زخمی ٹیپو کی کمر پر سونے کا بکسووا دیکھ کر اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کی لیکن ٹیپو نے اسے اپنی تلوار سے شکست دی۔‘

’چند سیکنڈ کے بعد ایک سپاہی نے قریب سے ٹیپو کی پیشانی پر گولی چلائی۔ ٹیپو زمین پر گر گیا لیکن پھر بھی تلوار اس کے ہاتھ سے نہیں چھوٹی۔‘

ٹیپو کا جنازہ

انہیں اپنے والد حیدر علی کی قبر کے پاس سپرد خاک کر دیا گیا
BBC
ٹیپو کو اپنے والد حیدر علی کی قبر کے قریب سپرد خاک کر دیا گیا

ٹیپو سلطان کی تدفین کا عمل شام 4.30 بجے شروع ہوا۔ سڑک کے دونوں طرف کھڑے لوگ رو رہے تھے۔ بہت سے لوگوں نے زمین پر لیٹ کر ٹیپو کے تئیں اپنے احترام کا اظہار کیا۔

بعد ازاں انھیں اپنے والد حیدر علی کی قبر کے پاس سپرد خاک کر دیا گیا۔ ٹیپو کے بیٹوں کو ویلور فورٹ بھیج دیا گیا اور میسور کی زمین کمپنی اور نظام حیدرآباد کے درمیان تقسیم کر دی گئی۔

ٹیپو کی پگڑی اور تلوار بطور تحفہ کارنوالس کو بھیجی گئی۔ آج ٹیپو کی راجدھانی کا بیشتر حصہ مویشیوں کی چراگاہ بن چکا ہے۔

اب اس جگہ پر اس وقت کی شان و شوکت کی بہت کم باقیات رہ گئی ہیں۔

جب ٹیپو کی موت کی خبر لارڈ ویلزلے کو پہنچی تو اس نے اپنا گلاس اٹھایا اور کہا کہ ’یہ مشروب ہندوستان کے مردہ جسم کے لیے ہے۔‘

ٹیپو ہندوستان میں انگریزوں کا سب سے بڑا حریف تھا۔ ان کی موت کے بعد انگریزوں کو للکارنے والا کوئی نہیں بچا تھا۔

ٹیپو کا کھلونا

آج بھی اسے لندن کے وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم میں دیکھا جا سکتا ہے۔
Getty Images
آج بھی اس کھلونے کو لندن کے وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم میں دیکھا جا سکتا ہے۔

جب برطانوی فوجی ٹیپو سلطان کو قتل کرنے کے بعد سری رنگا پٹنہ کے قلعے میں داخل ہوئے تو انھیں حجرے میں ایک عجیب و غریب کھلونا ملا۔

یہ ایک گرجتے ہوئے شیر کا مجسمہ تھا، جسے ایک برطانوی فوجی پر حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

وکرم سمپت لکھتے ہیں کہ ’یہ لکڑی کا بنا ہوا کھلونا تھا، جس کے ہینڈل کو گھما کر یہ شیر جیسی آواز نکالتا تھا اور انگریز فوجی کی چیخیں سنائی دیتی تھیں۔‘

’صبح اٹھتے ہی ٹیپو اس کھلونے سے کھیلنے میں مصروف ہو جاتا تھا۔ اس کھلونے نے انگریزوں کے اندر ٹیپو کے خلاف نفرت کو مزید ہوا دی۔‘

جنگ ختم ہونے کے بعد یہ کھلونا برطانیہ بھیج دیا گیا۔ اسے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے میوزیم میں رکھا گیا تھا۔ آج بھی یہ لندن کے میوزیم میں دیکھا جا سکتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.