طالبان امیر ہبت اللہ پر تنقید کرنے والے سراج الدین حقانی کو مغرب کے لیے ’تبدیلی کا چہرہ‘ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟

ذرائع کا کہنا ہے کہ اکثر طالبان اپنے امیر کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران براہ راست اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کر پاتے کیونکہ انھیں ہبت اللہ اخونزادہ کے طاقتور ’مذہبی دلائل‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ماہرین کے مطابق سراج الدین حقانی ہر چند ہفتے بعد امیر پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔
حقانی
EPA

گذشتہ اتوار کو کابل کے مغرب میں مذہبی طلبا کی گریجویشن کی ایک تقریب میں طالبان حکومت کی کابینہ کے دو اہم وزرا آمنے سامنے آ گئے۔

یہ واقعہ ان چہ مگوئیوں کو مزید تقویت بخش رہا ہے کہ طالبان قیادت کے درمیان لڑکیوں کی تعلیم سمیت کئی معاملات کو لے کر شدید اختلافِ رائے پایا جاتا ہے اور اب یہ اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔

اتوار کو پیش آنے والے واقعے میں جو دو طالبان رہنما آمنے سامنے آئے اُن میں موجودہ طالبان حکومت کے وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے رہنما سراج الدین حقانی اور وزیرِ تعلیم ندا محمد ندیم شامل ہیں۔

ندا محمد کا شمار طالبان رہنما ہبت اللہ اخونزادہ کے قریبی سمجھے جانے والے افراد میں ہوتا ہے جبکہ سراج الدین حقانی کچھ ہی روز پہلے قندھار میں طالبان رہنما کے ساتھ ایک ’ناکام ملاقات‘ کے بعد واپس لوٹے ہیں۔

قندھار میں پیدا ہونے والے ندا محمد ندیم کو کابل میں ہبت اللہ اخونزادہ کے نمائندوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے حالانکہ ان کا شمار طالبان کی بااثر شخصیات میں نہیں ہوتا اور ماضی میں بھی انھوں نے جنگ کے دوران بھی کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا۔

ندا محمد ندیم خواتین کی تعلیم پر پابندی سمیت طالبان رہنماؤں کے کئی متنازع احکامات پر عملدرآمد کروانے والوں میں شامل ہیں۔

اتوار کو آخر ہوا کیا؟

اطلاعات کے مطابق اپنی تقریر کے دوران ندا محمد ندیم نے طالبان کے ناقدین کو آڑے ہاتھوں لیا اور اسی دوران چند غیر مناسب الفاظ استعمال کیے اور ایسے لوگوں کو ’خدا اور اسلامی نظام کا دشمن، کافروں کا حامی اور غلام، مرتد اور حتیٰ کے کافر‘ تک قرار دے دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’صرف علما ہی ایسے افراد کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘

وزیر تعلیم کی تقریر کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سراج الدین حقانی نے کہا کہ ’یہ مناسب نہیں کہ ہم لوگوں کے سامنے سخت الفاظ استعمال کریں اور انھیں بدعنوان اور بدکردار کہہ کر اُنھیں مسترد کریں۔‘

سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ ’اس کے برعکس اسلامی نظام کے تحت ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان لوگوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں لیکن اگر خدا نہ کرے، لوگ بدعنوانی اور کُفر کے طرف راغب ہوتے ہیں تو اس کی بڑی وجہ ہماری تنگ نظری اور کمزوری ہو گی۔‘

اپنی تقریر کے دوران سراج الدین حقانی نے خبردار کیا کہ ’صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں اب طالبان حکومت کے پاس لوگوں کے سوالوں کا جواب نہیں۔‘ انھوں نے اپنے کچھ ساتھیوں پر مذہب پر ’اجارہ داری‘ جمانے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ وہ اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں منفی سوچ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اگر ہم حکمران ہیں تو عوام کو ہماری ہر بات ماننی ہو گی ورنہ آسمان گر پڑے گا۔‘

سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں خود کو مذہب کا ٹھِکیدار نہیں سمجھنا چاہیے۔ افغانستان کے عوام نے دین اسلام کی حفاظت کے لیے کئی دہائیوں تک قربانیاں دی ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘

افغانستان لڑکیوں کی تعلیم
Getty Images

اختلاف کی بنیاد کیا ہے؟

حال ہی میں افغانستان میں طالبان حکومت نے میڈیکل کی تعلیم دینے والے اداروں میں خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی۔

اس فیصلے کے بعد قندھار میں ہبت اللہ اخونزادہ کی موجودگی میں طالبان حکومت کی کابینہ کا ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا اور اس پابندی سمیت کئی متنازعہ امور پر بات ہوئی۔

بی بی سی کو اس حوالے سے موصول ہونے والی اطلاعات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ سراج الدین حقانی دو روز کے لیے قندھار میں موجود تھے۔ جہاں انھوں نے ہبت اللہ اخونزادہ سے ان معاملات پر بات چیت کی لیکن ’فریق ایک دوسرے کو مطمئن‘ کرنے میں ناکام رہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ’کابل میں طالبان رہنماؤں‘ کے نام سے منسوب اکثر طالبان رہنما کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے دوران براہ راست اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کر پاتے کیونکہ انھیں ہبت اللہ اخونزادہ کے طاقتور ’مذہبی دلائل‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کابل واپس آنے کے بعد وہ زیادہ تر عوامی تقاریر میں عدم اطمینان اور اختلافِ رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

کچھ ذرائع کہتے ہیں کہ کابل میں بھی سراج الدین حقانی کے قریب سمجھے جانے والے افراد اور طالبان رہنما کے مقرر کردہ لوگوں کے درمیان ’اعتماد کا فقدان‘ واضح ہے۔

کہا جاتا ہے کہ طالبان قیادت کے درمیان بڑھتے اختلافات کی ایک اور وجہ امیر کی جانب سے کئی شعبوں میں اختیارات اپنے تک محدود رکھنا بڑے مسائل میں سے ایک ہے جس میں پورے ملک میں اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں اور سکیورٹی فورسز پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات شامل ہیں۔

ایک ماہ قبل طالبان کے امیر کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری ہوا جس کے مطابق وزیر داخلہ، وزیرِ دفاع اور طالبان کی خفیہ ایجنسی کے وزیر سے فوجی ساز و سامان کی تقسیم اور استعمال کے اختیارات واپس لے لیے گئے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کئی طالبان ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے علاوہ دیگر امور جن پر طالبان کی کابل میں قیادت اور طالبان امیر کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں ان میں خواتین کی تعلیم، ٹی وی پر جانداروں کی تصاویر کی اشاعت پر پابندی اور ہبت اللہ اخونزادہ کی طاقت کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ شامل ہے۔

سراج الدین حقانی کے علاوہ وزیر دفاع محمد یعقوب مجاہد، وزیر خارجہ امیر خان متقی، نائب وزیر اعظم عبدالغنی برادر اور طالبان حکومت کے نائب وزیر خارجہ عباس ستانکزئی بھی اس بات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں کہطالبان امیر کا ’انتہائی بنیاد پرست‘ رویہ افغانستان میں ’طالبان حکومت کی کمزوری حتیٰ کے خاتمے‘ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

مبصرین کے مطابق یہ رہنما تنہا نہیں کہ جنھیں ان سب پر تشویش ہو بلکہ بڑی تعداد میں رہنماؤں کو اس سے اختلاف ہے تاہم ان میں سے ہر کوئی ہبت اللہ اخونزادہ پر براہِ راست تنقید کرنے سے اجتناب کرتا ہے کیونکہ کوئی ’امیر کی نافرمانی کا الزام‘ اپنے سر نہیں لینا چاہتا۔

ایسے کسی بھی الزام کے نتائج کافی ’خطرناک‘ ہو سکتے ہیں۔ ان میں انھیں باقیوں سے الگ تھلگ کر دیا جانا، ان کی برطرفی اور غداری تک کے الزامات شامل ہو سکتے ہیں۔

سراج الدین حقانی
Getty Images
سراج الدین حقانی

امیر پر تنقید کرنے والے واحد طالبان رہنما

طالبان امور کے ماہر انتھونی جیسٹوزی کہتے ہیں کہ ’سراج الدین حقانی کی جانب سے طالبان امیر پر تنقید کوئی نئی بات نہیں۔‘ ان کے مطابق نئی بات یہ ہے کہ امیر کے دیگر ناقدین میں سے اکثر اب ان پر کھلے عام تنقید کرنے سے گریز کرنے لگے ہیں۔

ان کے مطابق ’سنہ 2023 کے اوائل میں طالبان کے سینیئر ارکان کی جانب سے ہبت اللہ اخونزادہ پر تنقید عروج پر تھی جب ناراض طالبان رہنماؤں نے متحد ہو کر انھیں عہدے سے ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے۔‘

جیسٹوزی کہتے ہیں کہ ’امیر کو جب ان کوششوں کا علم ہوا تو انھوں نے اس بارے میں کارروائی کی۔ انھوں نے ہلمند کے فوجی کمانڈر جیسے اہم کرداروں کو بھرتی کر کے اور سازش کرنے والوں کو طالبان کی قیادت کی کونسل میں اکثریت حاصل کرنے سے روکا۔ اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے ساتھیوں کو تنبیہ کی کہ وہ عوامی سطح پر امیر پر تنقید کرنے سے گریز کریں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ملا یعقوب کی طرح ان رہنماؤں میں سے اکثر نے اس انتباہ کو سنجیدگی سے لیا اور اس معاملے پر عوامی سطح پر گفتگو سے گُریز کیا۔‘

لیکن جیسٹوزی کے مطابق سراج الدین حقانی کو ایک طرح سے استثنیٰ حاصل ہے اور وہ ہر چند ہفتوں بعد امیر پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔

ان کے مطابق سراج الدین نظریاتی طور پر طالبان کے مقابلے اخوان المسلمون کے زیادہ قریب ہیں۔

حقانی کا ماننا ہے کہ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ماہرین کو حکومت کے معاملات چلانے کے لیے نظام میں شامل کیا جانا چاہیے۔

جیسٹوزی کہتے ہیں کہ ’اس کے علاوہ بھی کئی معاملات میں سراج الدین اور امیر کے درمیان اختلاف پائے جاتے ہیں لیکن وہ ان کی متنازع نوعیت کے باعث انھیں عوام کے سامنے نہیں لاتے۔ ان میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ خراسان کے خلاف مہم کی مخالفت، پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش اور القاعدہ سے منسلک مختلف جہادی گروہوں کے لیے نقل و حرکت اور کارروائی کی حمایت شامل ہے۔‘

سراج الدین حقانی
AFP
سراج الدین حقانی

کیا سراج الدین حقانی کا جھکاؤ مغربی ممالک کی طرف ہے؟

اگرچہ سراج الدین حقانی مغربی طاقتوں کے ساتھ قریبی تعلقات کی اپنی خواہش کا سرِعام اظہار نہیں کرتے لیکن مغربی حکام کے ساتھ متواتر ملاقاتیں اُن کے مغربی مُمالک کی جانب جھکاؤ کو ظاہر کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ انھیں خلیجِ فارس کے ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات میں بھی کافی حمایت حاصل ہے۔

جیسٹوزی کہتے ہیں کہ ’طالبان کے امیر کے قریب سمجھے جانے والے حلقوں کا خیال ہے کہ سراج الدین امریکی سفارت کاروں اور خفیہ ایجنٹوں سے بات چیت کرتے ہیں اور ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ’سراج الدین، امیر کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی خواہش کی بھی مخالفت کرتے ہیں تاہم چین کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے معاملے میں طالبان کی قیادت میں اتفاق پایا جاتا ہے۔‘

تاہم سراج الدین حقانی اب بھی ایف بی آئی کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں اور ان کی گرفتاری پر ایک کروڑ ڈالر کا انعام بھی برقرار ہے۔

حال ہی میں نیویارک ٹائمز نے سراج الدین حقانی کے بارے میں ایک مضمون شائع کیا، جس میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ آیا وہ طالبان رہنما جن کا تعاقب کیا جاتا رہا ہے وہ اب تبدیلی کی بہترین اُمید بن کر سامنے آ رہے ہیں؟

تین سال میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب سراج الدین حقانی نے کسی امریکی صحافی کو نہ صرف اپنے ساتھ وقت گزارنے کی اجازت دی بلکہ اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں کے علاوہ اپنی زندگی کی چار دہائیوں کے تجربات کے بارے میں بھی ایک تفصیلی انٹرویو دیا۔

ایک اور قابل غور بات یہ تھی کہ اس مضمون میں طالبان رہنما اور سراج الدین حقانی کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کے بارے میں بہت سی باتیں سامنے آئیں تاہم اس کے باوجود سراج الدین یا ان کے حامیوں کی جانب سے اس بارے میں کوئی تردید یا ردعمل سامنے نہیں آیا۔

جلال الدین حقانی
Getty Images
جلال الدین حقانی

حقانی کا اثر و رسوخ اور قانونی حیثیت سے جُڑے مسائل

سراج الدین حقانی کا اثرو رسوخ بنیادی طور پر افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے خوست، پکتیا، پکتیکا اور یہاں تک کہ کابل کے جنوب میں لوگر تک ہے۔ ان علاقوں میں پشتونوں کے تین بڑے قبائل میں سے دو غلزئی اور کرلانی پشتون آباد ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بعض مغربی تجزیہ کار انھیں افغانستان میں پشتونوں کے دو بڑی شاخوں غلزئی اور درانی قبائل کے درمیان پائی جانے والی تاریخی دشمنی یا رقابت میں امن کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

انھیں اپنے اس کردار کی وجہ سے افغانستان میں ’ایک مضبوط اور اہم شخصیت کا مالک‘ سمجھا جاتا ہے تاہم حقانی کا تعلق کرلانی شاخ کے زدران قبیلے سے ہے۔

طالبان رہنما ہبت اللہ اخونزادہ کا تعلق نورزئی قبیلے سے ہے جو پشتونوں کی درانی شاخ ہے جس کا مرکز افغانستان کے جنوبی اور مغربی صوبوں بشمول قندھار، ہلمند اور فراہ میں ہے۔

لیکن دوسرے لوگ ہبت اللہ اخونزادہ اور سراج الدین حقانی کے درمیان مسابقت کے اس قسم کے تجزیے کو ’غیر حقیقی اور تاریخی نوآبادیاتی سوچ پر مبنی‘ قرار دیتے ہیں۔

ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ حقانی کے پاس قیادت کا مذہبی جواز نہیں جو طالبان میں خاص طور پر پایا جاتا ہے جس کے برعکس جانا یا اس سے ٹکرانا حقانی کے لیے آسان نہیں ہو گا تاہم حقانی کے والد جلال الدین حقانی کو ان کے حامیوں میں ایک خاص مذہبی مقام اور حیثیت حاصل تھی۔

انتھونی جیسٹوزی کہتے ہیں کہ ’اگرچہ یہ واضح ہے کہ امیر (طالبان رہنما) کا جنوبی افغانستان میں اثر و رسوخ موجود ہے لیکن سراج الدین کی حمایت کی حد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔‘

’یہاں تک کہ جنوب مشرقی صوبوں میں جہاں انھیں بڑی تعداد میں حمایت حاصل ہے اور ان علاقوں پر اُن کا اثرو رسوخ قائم ہے۔ یہاں آباد لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے خیالات سے اتفاق تو کرتی ہے لیکن ذاتی طور پر ان پر اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ان کے ماضی کا وہ حصہ کہ جب انھوں نے کابل میں طالبان کے قتل کی مہم چلائی اور اسے منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا آج بھی اُن کے کردار پر داغ ہے۔ طالبان کی اکثریت خواتین کے بارے میں امیر کی پالیسیوں سے متفق نظر نہیں آتی تاہم اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ سراج الدین حقانی کی پیروی کرنے کے لیے تیار ہیں۔

’حقانی ایک مرتبہ پھر سے افغان قوم میں اپنی حمایت اور جگہ بنانے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ حال ہی میں جب افغان طالبان کے سامنے یہ معاملہ آیا کہ حقانی گلبدین حکمت یار کے حامی رہے ہیں تو انھیں افغانستان میں وزارتِ دفاع کی جانب سے دیے جانے والے گھر سے بے دخل کر دیا گیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ حکمت یار کی حزب اسلامی کے بہت سے ارکان مشرقی افغانستان اور کابل کے آس پاس طالبان کے حامی اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘

سراج الدین حقانی جنھیں گذشتہ دو دہائیوں میں خاص طور پر کابل میں ہونے والے خونریز حملوں کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا اب کچھ مغربی تجزیہ کاروں کی نظر میں افغانستان میں تعطل کو ختم کرنے کی ’امید‘ بن چکے ہیں۔

بہرحال سراج الدین حقانی تنقیدی مؤقف اختیار کرتے ہوئے اور زیادہ عملی نقطہ نظر پیش کر کے خود کو طالبان قیادت میں ایک مختلف شخصیت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انھیں اندرونی طور پر پائے جانے والے عدم اعتماد سمیت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جو طالبان میں ان کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

ان چیلنجز اور مسائل کے باوجود سراج الدین حقانی طالبان قیادت کے چند عوامی ناقدین میں سے ایک کے طور پر گروپ کے اندرونی مباحثوں میں ایک اہم کردار ادا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

تبدیلی لانے کی ان کی کوششوں کا اگرچہ کچھ ناراض رہنماؤں نے خیر مقدم کیا لیکن انھیں ہبت اللہ اخونزادہ اور ان کے حامیوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔

طالبان کا مستقبل اور افغانستان میں ترقی کا راستہ بڑی حد تک ان اختلافات کو حل کرنے اور معاشرتی اور بین الاقوامی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی ان کی صلاحیت پر منحصر ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.