عضو تناسل کھونے کا خوف اور ’ہوا سے موت‘: وہ پراسرار بیماریاں جن کی وضاحت سائنس بھی نہیں کر پائی

حیران کن طور پر چند ایسی بیماریاں اب غائب ہو چکی ہیں لیکن چند ایسی بھی ہیں جو دنیا کے نئے خطوں میں نظر آ رہی ہیں۔ لیکن یہ بیماریاں کہاں سے آئیں؟ اس سوال کا جواب دہائیوں تک نہیں مل سکا

'کورو سے خوفزدہ نہ ہوں۔' یہ سات نومبر 1967 کو سنگاپور کے ایک اخبار کی شہ سرخی تھی۔

چند دن قبل ملک میں ایک عجیب و غریب پیش رفت ہوئی جب ہزاروں مردوں کو یہ یقین ہو گیا کہ ان کا عضو تناسل ایک بیماری کی وجہ سے چھوٹا ہو رہا ہے اور آخرکار ان کی موت واقع ہو جائے گی۔

ملک میں جیسے ہیجان برپا ہو گیا۔ اس مبینہ بیماری سے خوف زدہ مرد عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگے۔ لوگوں کو ڈر تھا کہ ان کا عضو تناسل ٹوٹ کر الگ بھی ہو سکتا ہے اور اسی لیے کسی نے کپڑے سے تو کسی نے ربڑ بینڈ کی مدد سے اسے باندھ لیا۔ ایسے میں ڈاکٹروں کی چاندی ہو گئی اور روایتی ادویات کے ساتھ ساتھ قدرتی علاج کے مشورے دینے والوں نے خوب کمائی کی۔

ایسی افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ اچانک سے عضو تناسل میں کمی کی وجہ کوئی ایسی خوراک تھی جو متاثرہ افراد نے کھائی تھی۔ ایک شک سور کے گوشت پر تھا۔ انھی دنوں حکومت نے ایک ویکسین پروگرام کا آغاز بھی کیا تھا۔ ایسے میں سور کے گوشت کی فروخت متاثر ہوئی۔

ادارہ صحت نے اس ہیجان کو ختم کرنے کے لیے وضاحت دی کہ یہ معاملہ نفسیاتی خوف سے زیادہ کچھ نہیں لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا اور تقریبا 500 افراد علاج کے لیے ہسپتالوں تک جا پہنچے۔

واضح رہے کہ عضو تناسل کھو جانے کا خوف آپ کی سوچ سے زیادہ عام ہے اور دنیا بھر کی ثقافتوں میں تسلسل کے ساتھ نظر آتا ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا اور چین میں اب اس کے لیے 'کورو' کا نام موجود ہے جو کچھوے کا حوالہ ہے کیوں کہ وہ اپنا سر خول کے اندر چھپا سکتا ہے۔

کورو کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے لیکن سب سے تازہ واقعہ 2015 میں مشرقی انڈیا میں پیش آیا جب 57 افراد، جن میں آٹھ خواتین بھی شامل تھیں، اسی خوف کا شکار ہوئے۔ خواتین کو خوف تھا کہ ان کی چھاتیوں کے نپل جسم کے اندر دبے چلے جا رہے ہیں۔

کورو ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جو مخصوص معاشروں میں ہی پائی جاتی ہے۔ ہیٹی کے ایک علاقے میں لوگوں کو باقاعدگی سے بہت زیادہ سوچنے کی بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔

بیماریاں
Getty Images

جنوبی کوریا میں بھی ایک ایسی ہی بیماری پائی جاتی ہے جس میں لوگ اپنے احساسات کو اپنے ساتھ غیر منصفانہ سلوک ہونے پر دباتے ہیں جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جسمانی طور پر خطرناک علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں جیسا کہ جسم جلنے کا احساس۔

جنوبی کوریا میں ہر سال کم از کم 10 ہزار لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں اکثریت بڑی عمر کی شادی شدہ خواتین کی ہے۔

یہ نفسیاتی بیماریاں سنجیدہ ہیں اور بڑی تعداد میں لوگوں کی ذہنی صحت متاثر کرتی ہیں۔ ثقافتی وجوہات سے منسلک سنڈروم تباہ کن بھی ہو سکتے ہیں۔ کورو کا حملہ اتنا شدید بھی ہو سکتا ہے کہ متاثرہ مرد اپنے عضو تناسل کھو دینے کے خوف سے اسے نقصان تک پہنچا سکتے ہیں۔

حیران کن طور پر چند ایسی بیماریاں اب غائب ہو چکی ہیں لیکن چند ایسی بھی ہیں جو دنیا کے نئے خطوں میں نظر آ رہی ہیں۔ لیکن یہ بیماریاں کہاں سے آئیں؟ اس سوال کا جواب دہائیوں تک نہیں مل سکا لیکن اب نئی دریافت نفسیاتی بیماریوں کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ بڑھ رہی ہے۔

مغرب کی پیداوار

سب سے حیران کن ثقافتی بیماری کی تاریخ چین میں پائی جانے والی ’نیوراستھینیا‘ سے منسلک ہے جو حقیقت میں 19ویں صدی کی نوآبادیاتی بیماری ہے۔ اس بیماری کو امریکی نیورولوجسٹ جارج ملر نے مشہور کیا تھا جن کا ماننا تھا کہ یہ اعصابی نظام کی تھکاوٹ ہے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب انڈسٹریل انقلاب نے روزمرہ زندگی کو مکمل طور پر بدل دیا تھا اور جارج ملر کا ماننا تھا کہ اس کی وجہ سے ہی ایک ایسا سنڈروم لاحق ہوتا ہے جس کی علامات میں سردرد، تھکاوٹ اور ذہنی پریشانی شامل ہیں۔

کیون آہو امریکہ کی فلوریڈا گلف کوسٹ یونیورسٹی سے منسلک ہیں جنھوں نے اس بیماری کی تاریخ پر کافی کام کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب مشہور ناول نگار مارسل پروسٹ میں اس بیماری کا انکشاف ہوا تو یہ کافی مشہور ہوئی۔

آہستہ آہستہ نیوراستھینیا دنیا بھر کی یورپی نوآبادیاتی کالونیوں میں پھیلتی گئی جہاں پہلے یورپی افسروں اور ان کی بیویوں نے اپنے ملک سے دوری کو اس کی وجہ بیان کیا۔ 1913 کے ایک سروے کے مطابق یہ بیماری انڈیا، سری لنکا، چین اور جاپان کے سفید فام باشندوں میں بہت عام تھی۔

لیکن پھر رفتہ رفتہ مغربی دنیا میں اس بیماری کو زیادہ سنجیدہ نفسیاتی مسائل سے جوڑا گیا اور اس کی شہرت کم ہوتی چلی گئی حتی کہ اسے یکسر بھلا دیا گیا۔ لیکن دیگر مقامات پر الٹ ہوا۔

ایشیا کے چند حصوں میں لوگ آج بھی ڈپریشن کے بجائے یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھیں نیوراستھینیا ہے۔ چین میں ہونے والے 2018 کے ایک سروے کے مطابق 15 فیصد سے زیادہ لوگوں نے کہا کہ انھیں نیوراستھینیا لاحق ہے جبکہ صرف پانچ فیصد نے ڈپریشن کا لفظ استعمال کیا۔

ثقافتی وجوہات

ایک خیال یہ ہے کہ انسانیت ایک جیسے ذہنی مسائل کا سامنا کرتی ہے جیسا کہ پریشانی، ڈپریشن لیکن ان کے بارے میں بات چیت خطوں اور زبان کے حساب سے مختلف ہو سکتی ہے۔

مثال کے طور پر وکٹورین دور میں شوہر کی وفات پر غمزدہ کوئی عورت یہ کہتی کہ اسے کمزوری محسوس ہو رہی ہے لیکن جدید دور میں ایسی ہی عورت کہے گی کہ وہ ڈپریشن محسوس کر رہی ہے۔ چین میں ایسی عورت کہہ سکتی ہے کہ اسے پیٹ میں تکلیف ہو رہی ہے۔

ایک اور مثال اسلامی دنیا کی ہے جہاں یہ تصور عام ہے کہ جن موجود ہوتے ہیں اور یہ اچھے، برے ہو سکتے ہیں اور لوگوں کے رویوں کی وجہ بھی انھیں قرار دیا جاتا ہے۔

برطانیہ کے شمالی مانچسٹر جنرل ہسپتال کے ماہر نفسیات شہزادہ نواز کہتے ہیں کہ 'میرے بہت سے مریضوں میں یہ تصور بہت مضبوط ہے۔' وہ بتاتے ہیں کہ روحوں کو بلانے کی طاقت کا تصور اسلامی ثقافت میں موجود رہا ہے۔

مشرقی لندن میں 30 بنگلہ دیشی مریضوں پر ہونے والی تحقیق سے پتہ چلا کہ اگرچہ ان افراد کو شزوفرینیا اور بائی پولر ڈس آرڈر جیسے امراض تھے تاہم ان کے اہلخانہ کا ماننا تھا کہ ان پر جن حاوی ہیں۔

جسمانی اور نفسیاتی تکلیف

عالمی سطح پر پریشانی بھی مختلف انداز میں محسوس کی جاتی ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں 'ڈسٹریس' یعنی پریشانی ذہن تک محدود ہوتی ہے جس کی علامات دکھ، غصے اور ہیجان کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ تاہم دنیا کے بہت سے خطوں میں، جیسا کہ چین، ایتھیوپیا اور چلی، میں یہ جسمانی طور پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔

کئی سال سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ہمارے خیالات کا ہمارے احساسات پر طاقتور اثر ہوتا ہے حتی کہ ہمارے جسم پر بھی۔ اس کی ایک مثال 'ووڈو موت' ہے جس میں خوف کی وجہ سے اچانک موت ہو سکتی ہے۔

ایسا ایک مشہور معاملہ نیوزی لینڈ میں پیش آیا جہاں ایک مقامی خاتون نے غلطی سے ایک ایسی جگہ سے پھل کھا لیا جسے ممنوعہ قرار دیا گیا تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ اس غلطی کی سزا اس کی موت کی شکل میں ملے گی اور اگلے ہی دن اس عورت کی موت واقع ہو گئی۔

لیکن کیا اس طرح سے کسی خودساختہ خوف کی وجہ سے موت واقع ہو سکتی ہے؟ یہ واضح نہیں ہے۔ تاہم اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ہماری سوچ اور احساسات کا جسمانی اثر ہوتا ہے۔

ہوا کی پراسرار بیماری

امریکہ میں کمبوڈیا کے پناہ گزین
Getty Images
کمبوڈیا میں یہ مانا جاتا ہے کہ جسم میں ایسے چینل یا راستے موجود ہوتے ہیں جن میں ہوا جیسی کوئی چیز چلتی ہے اور اگر یہ بند ہو جائیں تو اس ہوا کی مقدار جسم میں بڑھ جانے سے کوئی شخص اپنا جسمانی عضو کھو سکتا ہے یا مر بھی سکتا ہے

بونی کیسر کیلیفورنیا یونیورسٹی میں نفسیاتی اینتھروپولوجسٹ ہیں جن کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں جن میں تجربے کا جو معنی اخذ کیا گیا، اس کی وجہ سے جسمانی اثرات مرتب ہوئے۔

وہ ’کیول گویو‘ کی مثال دیتی ہیں جو امریکہ میں کمبوڈیا کے پناہ گزینوں میں عام ہے۔ یہ ایک پراسرار معاملہ ہے۔

کمبوڈیا میں یہ مانا جاتا ہے کہ جسم میں ایسے چینل یا راستے موجود ہوتے ہیں جن میں ہوا جیسی کوئی چیز چلتی ہے اور اگر یہ بند ہو جائیں تو اس ہوا کی مقدار جسم میں بڑھ جانے سے کوئی شخص اپنا جسمانی عضو کھو سکتا ہے یا مر بھی سکتا ہے۔ ایک امریکی نفسیاتی کلینک میں تحقیق کے دوران 100 مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور 36 نے دعوی کیا کہ انھوں نے ایسا تجربہ کیا ہے۔

اس بیماری میں پہلے طبعیت خراب ہوتی ہے پھر ایک دن مریض کو احساس ہوتا ہے کہ انھیں غنودگی ہو رہی ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انھیں احساس ہوتا ہے کہ یہ بیماری لاحق ہو رہی ہے۔ پھر ایسی کیفیت ہوتی ہے جس میں وہ بول یا حرکت نہیں کر پاتے۔ ایسے میں ان کے عزیز ان کی مالش کرتے ہیں یا ان کے ٹخنوں پر دانتوں سے کاٹتے ہیں۔

بونی کیسر کا کہنا ہے کہ 'زیادہ تر لوگ جب غنودگی محسوس کرتے ہیں تو وہ اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی اسے کیول گویو کے آغاز کی علامت سمجھے گا تو سوچے گا کہ کچھ بہت برا ہونے والا ہے۔ پھر وہ پریشان ہو جاتے ہیں اور یوں سب کچھ بدل جاتا ہے۔'

وہ کہتی ہیں کہ 'حقیقت میں بہت سی نفسیاتی بیماریوں میں لوگوں کے جسمانی تجربے میں فرق ہوتا ہے اور ان کے ثقافتی تجربے ہی یہ طے کرتے ہیں کہ وہ اس سے کیسے نمٹیں گے۔'

مغربی بیماریوں کا ازسرنو جائزہ

ثقافتی بیماریوں کے بارے میں معلومات میں اضافے کے بعد ماہرین نفسیات اب سوال کر رہے ہیں کہ کیا چند مغربی دنیا میں پائی جانے والے ذہنی امراض بھی اسی کیٹگری میں شامل تو نہیں۔

چند امراض تو پوری دنیا میں ہی عام ہیں جیسا کہ شزوفرینیا۔ مشرقی ثقافت میں بولیمیا اتنا عام نہیں جبکہ پری مینسچورل سنڈروم چین، ہانگ کانگ اور انڈیا میں ناپید ہے۔ یہ بھی موقف اپنایا گیا، جو متنازع ہے، کہ ڈپریشن انگریزی زبان بولنے والی دنیا کی تخلیق ہے جس کا یہ ماننا ہے کہ ہر وقت خوش رہنا چاہیے۔

بیماری
Getty Images

دور جدید میں یہ سوچنا غلطی ہو گی کہ نفسیاتی یا ذہنی امراض کا ہماری روزمرہ زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ آہو کا کہنا ہے کہ ہم ذہنی امراض کو معاشرتی یا تاریخی اعتبار سے نہیں دیکھتے۔

ان کا کہنا ہے کہ 'ایک جیسا علاج بھی سب کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔ مخصوص ثقافتی خیالات کے حامل افراد، ان کے مطابق، سائیکوتھراپی سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔'

اپنی کتاب، 'کریزی لائیک اس'، میں ایتھن واٹرز نے لکھا ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں رفتہ رفتہ ذہنی امراض امریکی رنگ میں ڈھال دیے گئے اور لوگ جذباتی اور نفسیاتی تجربات کو محدود پیمانے پر دیکھنے لگے جیسا کہ ڈپریشن یا بے چینی۔

ان کے مطابق اس عمل سے نہ صرف امراض کی درست طریقے سے تشخیص اور ان کا علاج نہ ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے بلکہ یہ موقع بھی کھو دینے کا خوف ہے کہ ہم نفسیاتی بیماریوں کے پیدا ہونے کی اصل وجہ تلاش کر سکیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.