کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے کا معمہ: برقعہ پوش ’ڈاکو‘ اور بچوں کو ٹیوشن دینے والی ’سہولت کار‘

یہ دو دسمبر 2024 کی بات ہے جب کراچی کے رہائشی مبارک شاہ کو اپنے ایک بیٹے کی کال موصول ہوئی۔ گھبرائی ہوئی آواز میں اُن کے بیٹے نے بتایا کہ برقعے میں ملبوس دو افراد مبینہ طور پر ڈکیتی کی غرض سے اُن کے گھر میں گھس آئے ہیں اور گھر میں موجود خواتین پر تشدد کر رہے ہیں۔

یہ دو دسمبر 2024 کی بات ہے جب کراچی کے رہائشی مبارک شاہ کو اپنے ایک بیٹے کی کال موصول ہوئی۔ گھبرائی ہوئی آواز میں اُن کے بیٹے نے بتایا کہ برقعے میں ملبوس دو افراد مبینہ طور پر ڈکیتی کی غرض سے اُن کے گھر میں گھس آئے ہیں اور گھر میں موجود خواتین پر تشدد کر رہے ہیں۔

مبارک شاہ خود اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ بیٹے کی کال کے دوران فون پر شور شرابہ سُن سکتے تھے جبکہ بیٹے کا کہنا تھا کہ ڈاکوؤں نے اس کمرے کو اندر سے بند کیا ہوا ہے جہاں انھوں نے اہل خانہ کو یرغمال بنا رکھا ہے۔

اس موقع پر مبارک نے اپنے بیٹے کو ہدایت کی کہ وہ ان کے فرار کا راستہ روکنے کے لیے گھر کے اس کمرے کو باہر سے کنڈی لگا دیں۔

مبارک کے بقول ان کے گھر کے گیٹ کے سامنے موجود دکان کے مالک نے بھی گھر کے اندر سے آنے والے شور شرابے کے بعد گھر کے مرکزی دروازے کو باہر سے بند کر دیا۔

مبارک شاہ کا خاندان کراچی کی ایک رہائشی عمارت میں رہتا ہے جس کے اوپر اور نیچے بھی ان کے رشتہ دار رہتے ہیں۔

اس واقعے کا مقدمہ اُسی روز دن ساڑھے پانچ بجے مبارک شاہ کی مدعیت میں تھانہ پیر آباد میں درج کروایا گیا۔ ایف آئی آر کے مطابق مبارک نے پولیس کو بتایا کہ مبینہ ڈاکوؤں نے ایک کمرے میں اہلخانہ کو یرغمال بنایا اور لاکھوں روپے کیش اور سونے کے زیوارت لے کر فرار ہونے لگے۔

مگر اسی دوران اُن کے بیٹے نے ’کنڈی لگا دی جس پر دونوں ڈاکو چھت کے ذریعے دوسرے گھر میں داخل ہو گئے۔‘

مبارک کے مطابق بیٹے کی کال بند ہوتے ہی انھوں نے 15 پر پولیس کو اس معاملے کی اطلاع دی۔ ایف آئی آر کے مطابق اطلاع موصول ہوتے ہی پولیس کی ایک ٹیم جائے وقوعہ پر پہنچی، ’دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہوئی کہ اسی دوران جان سے مارنے کی غرض سے گھر میں موجود ملزمان نے پولیس پر فائرنگ کر دی جس سے ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا۔‘

ایف آئی آر کے مطابق اس موقع پر پولیس اہلکاروں نے جوابی کارروائی کی جس سے ’دونوں ملزمان شدید زخمی ہو کر گِر پڑے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔‘

پولیس نے اس موقع پر ملزمان کے قبضے سے برآمد ہونے والے اسلحے اور لوٹے گئے کیش اور زیورات کی تفصیلات کو بھی ایف آئی آر کا حصہ بنایا ہے۔

’یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا‘

مبارک شاہ کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے بیٹے کو کہہ کر اپنے گھر کا دروازہ بند کروایا تو ساتھ والے پیڑوسی نے بھی باہر کا دروزہ بند کر دیا جس کے باعث ’یہ ڈکیت لڑکے پھنس گئے اور جب انھیں اس موقع پر اور کچھ سمجھ نہیں آئی انھوں نے میری ایک بھتیجی کو یرغمال بنا لیا۔‘

مبارک کا دعویٰ ہے کہ جب وہ واردات کی اطلاع ملنے کے بعد گھر پہنچے تو پولیس وہاں موجود تھی اور اُن سے اپیل کر رہی تھی کہ یرغمالی کو چھوڑا جائے۔

انھوں نے مزید کہا کہ پولیس نے کوشش کی کہ اس موقع پر ملزمان کے ساتھ بات چیت کر لی جائے مگر انھوں نے پولیس اہلکار پر فائرنگ کر دی تھی۔

بعد ازاں دونوں ملزمان کی شناخت بلاول اور نقاش کے ناموں سے ہوئی۔

تاہم مقدمے میں درج تفصیلات کے برعکس اس مبینہ ڈکیتی کے دوران ہلاک ہونے والے ایک نوجوان بلاول کے اہلخانہ کا الزام ہے کہ اُن کے بچوں کو کسی واردات کے دوران نہیں بلکہ پولیس کسٹڈی میں ہلاک کیا گیا ہے۔

اہلخانہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کے بچے بے گناہ تھے جبکہ حکام کو بھی خدشہ ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا جتنا کہ ایف آئی ایف میں درج ہے۔

ہلاک ہونے والے مبینہ ڈاکوؤں کے اہلخانہ کی جانب سے احتجاج اور بیان کیے گئے واقعات میں تضادات کے بعد اس معاملے کی انکوائری ایس ایس پی ڈسٹرکٹ ساؤتھ ساجد سدوزئی نے کی۔

انھوں نے 11 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں نہ صرف ایف آئی آر کے متن، اس کے لکھنے کے طریقے اور اس میں دی گئی ٹائم لائن (یعنی کب کیا ہوا) میں تضادات کی نشان دہی کی بلکہ اس واقعے کے حوالے سے ایک وائرل فوٹیج، اور سب سے بڑھ کر کرائم سین (گھر کا وہ مقام جہاں پولیس کے مطابق مبینہ ڈاکو فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے) کے ابتدائی معائنے کے نتیجے میں سامنے آنے والی معلومات اور پولیس کے بیانات میں تضادات کو واضح کیا ہے۔

تاہم ایس ایس پی ساؤتھ نے اپنی رپورٹ میں تحریر کیا کہ ’اس انکوائری کے دوران اکٹھے کیے گئے حقائق اور حالاتی شواہد کی بنیاد پر اس مرحلے پر کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہے۔ اس کیس سے متعلقہ کلیدی فرانزک اور کیمیائی جانچ کی رپورٹیں زیر التوا ہیں جبکہ کچھ اہم ڈیجیٹل اور فرانزک شواہد کو ابھی مزید تجزیے کی ضرورت ہے۔‘

’حتمی فیصلے تک پہنچنے کے لیے تمام شواہد کی مکمل جانچ ضروری ہے۔ تاہم، ذاتی سماعتوں، ریکارڈ شدہ بیانات، دستاویزی ثبوت اور انکوائری کے دوران کیے گئے مشاہدات کی بنیاد پر چند نتائج سامنے آئے ہیں۔‘

ایس ایس پی ساؤتھ کی ابتدائی انکوائری رپورٹ میں جن تضادات کا ذکر ہے ان کی تفصیل میں جانے سے قبل اس واقعے سے منسلک چند کرداروں کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔

’مرکزی ملزم کی خاتون دوست سے دو برقعے دینے کی درخواست‘

پولیس کی تفتیش اور انکوائری رپورٹ میں دو مبینہ ڈاکوؤں کے علاوہ اس معاملے میں دو مبینہ خواتین سہولت کاروں کا بھی تذکرہ ہے جن میں سے ایک بلاول (ہلاک ہونے والا مبینہ مرکزی ملزم) کی دوست لبنی (فرضی نام) ہیں۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق سی ڈی آر کے تجزیے سے یہ معلوم ہوا کہ ’بلاول اور لبنی گذشتہ تین سال سے قریبی رابطے میں تھے۔‘

انکوائری رپورٹ کے مطابق دوران تفتیش لبنی نے پولیس حکام کو بتایا کہ بلاول نے اُن سے اپنے آپ کو درپیش معاشی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس مشکلات کو ختم کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

لبنی نے پولیس حکام کو یہ بھی بتایا کہ بلاول نے انھیں کچھ دن پہلے دو برقعے لانے کی درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ انھیں یہ برقعے ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے لیے درکار ہیں تاہم پولیس کے مطابق بعد ازاں یہی برقعے واردات کے دوران استعمال ہوئے۔

اس انکوائری رپورٹ میں لبنی کی سگی بہن منیرہ (فرضی نام) کا بھی تذکرہ ہے جو مبارک شاہ کے گھر (جہاں مبینہ ڈکیتی کی واردات ہوئی) میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھیں اور اورنگی ٹاؤن میں ان کا اپنا بیوٹی پارلر بھی ہے۔

انکوائری رپورٹ کے مطابق منیرہ نے پولیس حکام کو بتایا کہ وادارت کے دن مبینہ مرکزی ملزم بلاول نے انھیں کئی کالز کیں جبکہ سی ڈی آر کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ واردات سے کچھ دیر قبل بلاول منیرہ کے بیوٹی پارلر والے ایریا میں موجود تھے اور ان کی لوکیشن ایک ہی تھی۔

مبارک شاہ کی جس بھتیجی کو ڈاکوؤں کی جانب سے مبینہ طور پر یرغمال بنایا گیا تھا، وہ انکوائری رپورٹ کے بقول منیرہ کی طالبہ تھیں۔

انکوائری رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تفتیش کی ابتدا میں دونوں بہنوں، لبنی اور منیرہ، نے اس پورے معاملے سے متعلق معلومات کو چھپایا اور اپنے موبائل فون بھی چھپا دیے۔

کال ریکارڈ کے تجزیے سے بعدازاں معلوم ہوا کہ انھوں نے مبینہ مرکزی ملزم بلاول کے ساتھ فون پر ہونے والی اپنی گفت و شنید کا ریکارڈ بھی ڈیلیٹ کیا۔

مبارک شاہ کا دعویٰ ہے کہ اُن کے گھر کے بارے میں ڈاکوؤں کو اطلاعات منیرہ نے فراہم کی تھیں کیونکہ وہ بہت عرصے سے اُن کے گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھانے آ رہی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ منیرہ چونکہ کئی برسوں سے اُن کے گھر آ رہی تھیں اس لیے انھیں اندازہ تھا کہ گھر میں پیسے اور زیور ہو سکتے ہیں اور انھیں گھر کے داخلی اور خارجی راستوں سے بھی آگاہی تھی۔

مرکزی ملزم بلاول کے چچا کا دعویٰ ہے کہ ان کا بھتیجا کسی خاتون نہیں بلکہ ایک نامعلوم کال ملنے کے بعد اپنے دوست نقاش کو لے کر اس مقام پر گیا تھا جہاں اس کا ماورائے عدالت قتل ہوا۔

انھوں نے دعویٰ کیا اُن کے پاس بلاول اور نقاش کی ایسی آڈیوز موجود ہیں جس میں وہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو میسج بھیج کر یہ بتا رہے ہیں کہ اُن کو ٹریپ کرکے ایک جگہ پر پہنچا دیا گیا اور یہاں پر اُن کو قتل کر دیا جائے گا۔ چچا کے مطابق بلاول اور نقاش نے مارے جانے سے قبل دوستوں اور رشتہ داروں کو کال کر کے ان سے مدد کی اپیل کی تھی۔

کراچی پولیس
Getty Images
انکوائری رپورٹ کے مطابق پولیس نے ملزمان پر 16 راؤنڈ فائر کرنے کا دعویٰ کیا تاہم جائے وقوعہ پر گولیوں کے نشانات نہ ہونا بڑے تضاد کی نشاندہی کرتا ہے

ابتدائی انکوائری رپورٹ میں کن تضادات کا تذکرہ ہے؟

وائرل فوٹیج

ایس ایس پی ساؤتھ کی ابتدائی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی فوٹیجز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عبداللہ بلڈنگ کی چھت (وہ عمارت جہاں مبینہ ڈکیتی کی واردات ہوئی) پر موجود افراد سڑک پر موجود لوگوں کو ڈاکوؤں کی جانب سے مبینہ طور پر ایک لڑکی کو یرغمال بنانے کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے ہیں۔

’اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ راہگیر ڈاکوؤں اور جائے وقوعہ کے بہت قریب ہیں مگر اُن (راہگیروں) میں ظاہری طور کوئی ڈر، خوف اور پریشانی نہیں تھی۔ راہگیروں میں تشویش کا یہ فقدان رپورٹ شدہ واقعات کی صداقت کے حوالے سے اہم شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے، خاص طور پر یہ دعویٰ کہ ایک لڑکی کو یرغمال بنایا گیا ہے جیسا کہ ایف آئی آر میں درج ہے۔‘

’راہگیروں کے اس رویے اور ویڈیو کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ صورتحال ایک حقیقی یرغمالی صورتحال کا منظرنامہ نہ ہو۔‘

کرائم سین پر ’گولیوں کے نشان نہیں‘

انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عبداللہ بلڈنگ میں چوتھی منزل پر جائے وقوعہ کا تفصیلی معائنہ کیا گیا۔ ایف آئی آر کے مطابق مبینہ پولیس مقابلہ عمارت میں سیڑھیوں کے قریب ایک تنگ راہدری پر ہوا تھا جہاں پر ملزمان نے مبینہ طور پر ایک لڑکی کو یرغمال بنا رکھا تھا۔

انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر کے مطابق پولیس کی جانب سے ملزمان پر 16 راؤنڈ فائر کیے گئے جبکہ ملزمان نے تین راؤنڈ فائر کیے۔ ’تاہمجائے وقوعہ کے معائنے سے، جو کہ ایک تنگ راہداری ہے، پتا چلتا ہے کہ دیواروں، چھت یا دروازوں پر گولیوں کے نشان موجود نہیں ہیں۔‘

’ماسوائے ایک نشان کے جو کہ واش روم کے دروازے پر ہے اور وہ بھی (بتائے گئے جائے وقوعہ کی) براہ راست فائرنگ رینج والے علاقے میں نہیں تھا۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جائے وقوعہ پر گولیوں کے نشانات نہ ہونا بڑے تضاد کی نشاندہی کرتا ہے اور اس ضمن میں مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج

انکوائری رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ (پولیس کے مطابق) ملزم جب گھر میں داخل ہوئے تو گھر کی چوتھی منزل پر ڈکیتی کی غرض سے جانے سے قبل انھوں نے گراؤنڈ فلور پر موجود سی سی ٹی وی سسٹم کو تباہ کر دیا۔ ’یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکو اس بات سے کیسے واقف تھے کہ ڈی وی آر کہاں انسٹال ہے۔ عام طور پر ایسے واقعات میں ڈاکو واردات سے قبل نہیں بلکہ واردات کے بعد سی سی ٹی وی فوٹیج/ ڈی وی آر کو تباہ کرتے ہیں۔‘

انکوائری رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈاکوؤں کی جانب سے فوٹیج کو واردات سے پہلے تباہ کرنا بھی شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے کیونکہ اُس فوٹیج کو ختم کر دیا جو اس بات کی تصدیق کر سکتی تھی کہ واقعات کس ترتیب میں اور کیسے پیش آئے۔

انکوائری رپورٹ میں کیا سفارشات کی گئیں؟

واقعے پر نظر رکھنے والے کراچی کے صحافی صولت جعفری کہتے ہیں کہ شروع میں تو یہ ایک سدھا سادہ واقعہ لگ رہا تھا مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے تو یہ اتنا سیدھا اور آسان نہیں رہا ہے۔ اس میں کئی سولات اٹھ رہے ہیں۔

انکوائری رپورٹ میں اس واقعہ کے متعلق متعدد سفارشات کرتے ہوئے کہا گیا کہ زیر التوا فارنزک اور کیمکل رپورٹس کو جلد مکمل کروایا جائے اور مبینہ واردات میں استعمال ہونے والےاسلحہ کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ گولیاں دور سے چلی تھیں یا نزدیک سے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہہلاک ہونے والے بلاول اور نقاش کے موبائل فونز کا تجزیہ کروایا جائے جبکہ جائے وقوعہ کا دوبارہ جائزہ لینا اور ثبوتو ں کو محفوظ کرنا لازمی ہے۔سفارشاتمیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ درج مقدمہ کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔

اس ضمن میں مزید تفتیش کے لیے ایک جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم تشکیل دینے کی سفارش کی ہے۔

بی بی سی کے رابطہ کرنے پر کراچی پولیس نے بتایا کہ ایس ایس پی ڈسٹرکٹ ساؤتھ ساجد سدوزئی کی ابتدائی انکوائری رپورٹ کی روشنی میں اب ایس پی انویسٹیگیشن ویسٹ-ٹو آصف سرفراز کی سربراہی میں ایک تین رُکنی ٹیم تشکیل دے گئی ہے جو اس معاملے کی چھان بین کرے گی۔

اس ٹیم کے دیگر دو اراکین میں ڈی ایس پی انویسٹیگیشن ڈسٹرکٹ سینٹرل محمد مقیم اور انسپکٹر اعجاز بلوچ شامل ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.