اسرائیلی انٹیلیجنس کے دو سابق ایجنٹوں نے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح لبنانی عسکریت پسند شیعہ گروپ حزب اللہ کے ارکان اس سال ستمبر میں ہونے والے حملوں سے 10 سال قبل تک اسرائیلی کے تیار کردہ بارودی مواد سے بھرے واکی ٹاکیز کو استعمال کر رہے تھے۔
اسرائیلی انٹیلیجنس کے دو سابق ایجنٹوں نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ کس طرح لبنانی عسکریت پسند شیعہ گروہ حزب اللہ کے ارکان اس سال ستمبر میں ہونے والے حملوں سے 10 سال قبل تک اسرائیلی کے تیار کردہ بارودی مواد سے بھرے واکی ٹاکیز کو استعمال کر رہے تھے۔
موساد کے دو سابق ایجنٹوں نے امریکہ کے یو ایس سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ کس طرح انھوں نے حزب اللہ کو دھوکہ دہی سے یہ واکی ٹاکیز اور پیجرز خریدنے پر مجبور کیا اور انھیں بھنک بھی نہیں پڑنے دی کہ انھیں اسرائیل میں تیار کیا گیا تھا۔
ان حملوں میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ لبنانی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل دعویٰ کرتا ہےکہ یہ صرف حزب اللہ کے ارکان کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیے گئے تھے لیکن اس کے متاثرین میں عام شہری بھی شامل تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے اس حملے کو جنگی جرم قرار دیا تھا۔
واکی ٹاکیز اور پیجر حملے کے وقت اسرائیل اور حزب اللہ حالتِ جنگ میں تھے۔
دونوں کے مابین اس کشیدگی کا آغاز گذشتہ برس سات اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے ایک دن بعد اس وقت ہوا جب حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی ٹھکانوں پر فائرنگ کی گئی تھی۔
رواں برس 17 ستمبر 2024 کو پورے لبنان (خاص طور پر حزب اللہ کی مضبوط موجودگی والے علاقوں سمیت) میں ہزاروں پیجرز بیک وقت پھٹ پڑے تھے۔
ان دھماکوں کے نتیجے میں ان کے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد سمیت ان کے آس پاس موجود لوگ بھی ہلاک اورزخمی ہوئے جس سے پورے ملک میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔
اگلے دن بالکل اسی طرح ملک بھر میں واکی ٹاکیز پھٹ گئیں جس سے سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
دو ماہ بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نےاعتراف کیا کہ ان حملوں کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا۔
بی بی سی کے امریکہ میں شراکت دار ادارہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دونوں سابق ایجنٹوں نے اس آپریشن کی تفصیلات بتائی ہیں۔
ایجنٹوں میں سے ایک کا نام مائیکل ہے۔ انھوں نے بتایا کہ موساد نے واکی ٹاکیز کو چلانے والی بیٹریوں کے اندر ایک دھماکہ خیز ڈیوائس چھپا رکھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں معلوم تھا کہ یہ واکی ٹاکیز رکھنے والے صارفین عام طور پر اس ڈیوائس کو اپنی قمیض یا جیکٹ کی جیب میں دل کے قریب رکھیں گے۔
انھوں نے کہا کہ حزب اللہ نے 10 سال قبل ایک کمپنی سے ’اچھی قیمت‘ پر 16 ہزار سے زیادہ واکی ٹاکیز خریدی تھیں مگر انھیں معلوم نہیں تھا کہ یہ کمپنی جعلی تھی۔
مائیکل نے بتایاکہ ہمارے لیے ایسی غیر ملکی کمپنیاں بنانا بہت آسان ہے جن کا تعلق اسرائیل سے نہ جوڑا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم شیل کمپنیوں (جعلی یا نام نہاد کمپنیاں)کے اوپر مزید شیل کمپنیاں بنا کر سپلائی چین کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
’ہم دکھاوے کی ایک مصنوعی دنیا تیار کرتے ہیں۔ ہم عالمی سطح کی پروڈکشن کمپنی ہیں، ہم ہی کہانی لکھتے ہیں، ہم ہی اس کے سکرین پلے تیار کرتے ہیں، اس کے پروڈیوسر اور کردار بھی ہم ہی تخلیق کرتے ہیں، یہ پوری دنیا ہمارا سٹیج ہے جس پر ہم اپنی پرفارمنس دکھاتے ہیں۔‘
سی بی ایس کے مطابق دو سال قبل اس آپریشن کو توسیع دی گئی اور اس میں پیجرز شامل کیے گئے۔
موساد کو پتا چلا کہ اس وقت حزب اللہ تائیوان کی گولڈ اپولو نامی کمپنی سے پیجر خرید رہی تھی۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے ایک جعلی کمپنی قائم کی جس نے گولڈ اپولو کا نام استعمال کرتے ہوئے دھماکہ خیز مواد سے بھرے پیجرز تیار کیے۔
اس سارے عمل کے دوران تایئوان کی اصلی کمپنی کو بھنک تک نہیں پڑنے دی گئی کہ ان کا نام استعمال کرتے ہوئے دھماکہ خیز مواد والے جعلی پیجر تیار کیے جا رہے ہیں۔
سی بی ایس کے مطابق موساد نے دھماکہ خیز مواد کی مقدار اتنی رکھی کہ اس سے صرف صارف کو نقصان پہنچے۔
تاہم جیسا کہ ہم جانتے ہیں ان حملوں کے نتیجے میں لبنان بھر میں صارفین سمیت ان کے آس پاس کے افراد بھی ہلاک اور زخمی ہوئے۔
دوسرے سابق ایجنٹ جنھیں گیبرئیل کا نام دیا گیا ہے کا دعویٰ ہے کہ ’ہم ہر چیز کو کئی بار جانچ کے عمل سے گزارتے ہیں تاکہ کم سے کم نقصان یقینی بنایا جا سکے۔‘
سابق ایجنٹ کا کہنا تھا کہ موساد کی جانب سے ایک ایسی رنگ ٹون کا انتخاب کیا گیا جس کے بجنے پر ایسا محسوس ہو کہ کوئی خاص پیغام آیا ہے اور میسج وصول کرنے والا اسے فوراً چیک کرنے پر مجبور ہو جائے۔
گیبریئل کہتے ہیں کہ حزب اللہ کو یہ پیجرز خریدنے پر راغب کرنے کے لیے موساد نے پیجرز کے فلمی اشتہارات اور پمفلٹ بنائے اور ان کی انٹرنیٹ پر تشہیر کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب حزب اللہ ہم سے خریداری کر رہی ہوتی تھی تو انھیں اندازہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ دراصل موساد سے خرید رہے ہیں۔
’یہ بالکل ٹرومین شو فلم جیسا تھا جہاں پسِ پردہ سب کچھ ہم کنٹرول کر رہے تھے۔‘
سی بی ایس کے مطابق ستمبر 2024 تک حزب اللہ پانچ ہزار ایسے پیجرز خرید چکی تھی جن میں بارودی مواد بھرا ہوا تھا۔
سی بی ایس کا کہنا ہے کہ جب موساد کو لگا کہ حزب اللہ کو ان پیجرز کے بارے میں شک ہونے لگا ہے تو انھیں دھماکے سے اڑا دیا گیا۔
پیجر دھماکوں سے پورے لبنان میں ہلچل مچ گئی تھی۔ یہ دھماکے ہر اس جگہ ہوئے جہاں یہ پیجرز موجود تھے۔
ہسپتال مریضوں سے بھر گئے اور متاثرین میں سے کئی افراد ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے۔
گیبریئل کا کہنا ایسی بھی قوی اطلاعات ہیں کہ اس وقت کے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کے سامنے بھی کچھ لوگ ان دھماکوں کے شکار ہوئے تھے۔
اس حادثے کے چند ہی روز بعد اسرائیل نے حزب اللہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کر دیے تھے۔ بعد ازاں اسرائیلی کی زمینی فوج بھی لبنان میں داخل ہو گئی۔
بالآخر 26 نومبر کو اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔
لبنان کی جانب سے پیجر اور واکی ٹاکی حملوں کی شدید مذمت کی گئی۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک کا کہنا تھا کہ ان حملوں نے انھیں حیرت زدہ کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حملوں کا یہ طریقہ کار بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔