430,000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ناسا کے خلائی جہاز کی سورج کے انتہائی قریب پہنچنے کی کوشش اور سائنسدانوں کی بےچینی

ناسا کا ایک خلائی جہاز سورج کے انتہائی قریب پہنچ کر تاریخ رقم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ’پارکر سولر پروب‘ نامی یہ خلائی جہاز سورج سے خارج ہونے والے انتہائی شدید درجہ حرارت اور بےتحاشہ تابکاری کو برداشت کرتے ہوئے سورج کی بیرونی فضا کی جانب مسلسل بڑھ رہا ہے۔
پارکر سولر پروب
NASA
’پارکر سولر پروب‘ انتہائی زیادہ درجہ حرارت اور شدید تابکاری کو برداشت کرتے ہوئے سورج کی بیرونی فضا کی جانب بڑھ رہا ہے

ناسا کا ایک خلائی جہاز سورج کے انتہائی قریب پہنچ کر تاریخ رقم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

’پارکر سولر پروب‘ نامی یہ خلائی جہاز سورج سے خارج ہونے والے انتہائی شدید درجہ حرارت اور بےتحاشہ تابکاری کو برداشت کرتے ہوئے سورج کی بیرونی فضا کی جانب مسلسل بڑھ رہا ہے۔

سورج کے انتہائی نزدیک شدید موسمی حالات اور درجہ حرارت کے باعث یہ خلائی جہاز گذشتہ کئی دن سے زمین سے رابطہ بھی نہیں کر سکا اور فی الحال سائنسدان اس مشن کی جانب سے ملنے والے سگنل کے منتظر ہیں۔ سائنسدانوں کو توقع ہے کہ یہ سگنل 27 دسمبر کو مل سکتا ہے۔

اس سگنل سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ آیا یہ مشن سورج کے انتہائی قریب پہنچنے کے لیے درکار سخت ترین مراحل عبور کرنے میں کامیاب رہا ہے یا نہیں۔

اس مشن کے ذریعے سائنسدانوں کو یہ جاننے میں بھی مدد ملے گی کہ سورج درحقیقت کیسے کام کرتا ہے۔

ناسا میں ہیڈ آف سائنس ڈاکٹر نکولا فوکس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگوں صدیوں سے سورج کے بارے میں پڑھتے آ رہے ہیں لیکن آپ کسی ماحول کا اصل تجربہ اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک آپ وہاں خود نہ جائیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم سورج کے ماحول کا اُس وقت تک تجربہ نہیں کر سکتے جب تک ہم اس کے انتہائی قریب سے نہ گزریں۔‘

سورج
NASA
ناسا کا یہ خلائی مشن سورج کے انتہائی قریب پہنچ کر تاریخ رقم کرنے کی کوشش کر رہا ہے

’پارکر سولر پروب‘ کو سنہ 2018 میں لانچ کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے یہ ہمارے نظام شمسی کے مرکز کی جانب بڑھ رہا ہے۔

یہ پہلے ہی سورج کے پاس سے 21 مرتبہ گزر چکا ہے اور ہر چکر میں یہ اس کے مزید قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم سورج کے انتہائی پہنچنے کا یہ ریکارڈ 25 دسمبر کی شام ٹوٹ سکتا ہے۔

یہ مشن سورج کی سطح سے 3.8 ملین میل (6.2 ملین کلومیٹر) کے فاصلے پر موجود ہے۔

یہ فاصلہ شاید آپ کو سورج کے اتنا قریب محسوس نہ ہو، لیکن نکولا فوکس اس بارے میں وضاحت کرتی ہیں کہ ’ہم سورج سے 93 ملین میل کی دوری پر ہیں تو اگر ہم سورج اور زمین کو ایک میٹر کی دوری پر رکھیں تو اس وقت ’پارکر سولر پروب‘ سورج سے صرف چار سینٹی میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یعنی انتہائی قریب۔‘

’پارکر سولر پروب‘ کو 1400 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور شدید تابکاری کو برداشت کرنا پڑے گا جو اس خلائی جہاز میں موجود الیکٹرانکس کو بھی جلا کر راکھ کر سکتا ہے۔

11.5 سینٹی میٹر (4.5 انچ) موٹی کاربن کی بنی شیلڈ سے اس خلائی جہاز کو محفوظ بنایا گیا ہے اور یہ تیزی سے اندر داخل ہونے اور باہر نکلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ خلائی جہاز انسانوں کی جانب سے بنائی گئی کسی بھی چیز سے زیادہ تیزی سے حرکت کرتا ہے اور اس کی رفتار 430,000 میل فی گھنٹہ ہے یعنی یہ لندن سے نیویارک تک 30 سیکنڈ سے بھی کم وقت میں پرواز کرنے کے برابر ہے۔

تو سورج کو ’چُھونے‘ کے لیے یہ تمام کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں؟

سائنسدانوں کو امید ہے کہ یہ خلائی مشن جب سورج کی بیرونی فضا، جیسے کورونا کہتے ہیں، سے گزرے گا تو اس سے ایک طویل معمہ حل ہو پائے گا۔

’ففتھ لیب سٹارز‘ سے منسلک ماہر فلکیات ڈاکٹر جینیفر میلارڈ کہتی ہیں کہ ’کورونا (سورج کی بیرونی فضا) بہت زیادہ گرم ہے، مگر یہ اتنی گرم کیوں ہے ہمیں اس کی وجہ معلوم نہیں۔‘

’سورج کی سطح پر درجہ حرارت 6000 ڈگری سیٹی گریڈ ہے لیکن اس کی بیرونی فضا جسے آپ سورج گرہن کے دوران دیکھتے ہیں، اس کا درجہ حرارت لاکھوں ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ سورج کی فضا اتنی گرم کیسے ہو رہی ہے۔‘

اس مشن کی مدد سے سائنسدانوں کو شمسی ہوا کو بہتر طور پر سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ یہ ہوا چارج شدہ ذرات کے کورونا سے نکلنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

جب یہ ذرات زمین کے مقناطیسی میدان کے ساتھ ملتے ہیں تو آسمان چمک اٹھتا ہے۔

لیکن اس نام نہاد خلائی موسم سے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں، جیسے کہ پاور گرڈ، الیکٹرانکس اور مواصلاتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے۔

ڈاکٹر جینیفر میلارڈ کہتی ہیں کہ ’سورج کے بارے میں سمجھنا، اس پر ہونے والی سرگرمی، موسم، شمسی ہوا یہ سب زمین پر ہماری روزمرہ زندگی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔‘

سورج، ناسا
NASA
سائنسدانوں کو امید ہے کہ اس خلائی مشن سے ایک طویل معمہ حل ہو گا

ناسا کے سائنسدان بے چینی سے وقت کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ اس خلائی جہاز کا فی الحال زمین سے رابطہ نہیں ہے۔

نکولا فوکس کہتی ہیں کہ ’جیسے ہی سگنل ملے گا، اُن کی ٹیم ٹیکسٹ میسج میں انھیں ایک سبز رنگ کا دل بھیجے گی تاکہ انھیں بتایا جا سکے کہ یہ مشن ٹھیک کام کر رہا ہے۔‘

نکولا فوکس تسلیم کرتی ہے کہ وہ اس انتہائی بہادرانہ کوشش کے بارے میں گھبرائی ہوئی ہیں لیکن انھیں ہونے والی پیش رفت پر یقین ہے۔

’مجھے خلائی جہاز کے بارے میں پریشانی ہو گی لیکن ہم نے اسے تمام طرح کے سخت ترین حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا ہے۔ یہ چھوٹا سا خلائی جہاز بہت سخت جان ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.