اکثر ہمارے بے تکے اقدامات ان لوگوں کو تکلیف دے دیتے ہیں جن سے ہم بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ بری نیت یا نقصان پہچانے کی غرض سے ارادتاً نہیں اٹھائے جاتے تاہم اس طرح کی لاپرواہی کے بہت خطرناک نتائج ہوتے ہیں۔
آپ جس طرح کے دوست کے متمنی ہیں اپنے آپ کو ایسا ہی مثالی دوست بنانے کے لیے آپ کچھ ایسے طریقے اختیار کر سکتے ہیں جس سے دوسروں کا آپ پر اعتماد بڑھے گا۔
انسان کی یہ ایک بری شہرت ہے کہ وہ اپنی خامیوں کو جاننے کی اہلیت سے عاری رہتا ہے۔ ہم اپنے اندر موجود بہت سی خامیوں کو دیکھے بغیر جو کہ دوسرے شاید ہمارے اندر دیکھ سکیں ہم دوسروں کے تکبر، نظر انداز کرنے والے رویے یا بے وقوفی کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔
یہ غیر واضح پہلو ہماری دوستی میں بھی جھلکتے ہیں۔
اکثر ہمارے بے تکے اقدامات ان لوگوں کو تکلیف دے دیتے ہیں جن سے ہم بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ بری نیت یا نقصان پہچانے کی غرض سے ارادتاً نہیں اٹھائے جاتے یعنی میں جان بوجھکر کی جانے والی بے رحمی کے بجائے یونہی عام انداز سے کیے جانے والے ظلم کی بات کر رہا ہوں۔ تاہم اس طرح کی لاپرواہی کے بہت خطرناک نتائج ہوتے ہیں۔
سماجی تعلقات کی سائنس پر اپنی حالیہ کتاب لکھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ’جذباتیت، تضادات پر مبنی یا مبہم تعلقات‘ صحت کے لیے زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں بہ نسبت ان نفرت انگیز شخصیات کے جن کے بارے میں پہلے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ان سے تعلقات سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔
خوش قسمتی سے تحقیق سے آنے والے نتائجہماری مدد کرتے ہیں کہ ہم اپنی بدترین عادات کا پتا لگائیں اور ان کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے سادہ لیکن مضبوط حکمت عملی تیار کریں۔
کسی کے حادثاتی دشمن بننے سے بچنے کے لیے میرے پانچ پسندیدہ رہنما اصول یہ ہیں۔
1۔ مستقل مزاج رہیے
کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہ ایک گومگو کی کیفیت میں رہے، یہ ایک حقیقت ہے اور اسے ہم لوگوں کی جانب سے جسمانی طور پر کسی تکلیف پہنچنے کے بعد ان کے ردعمل میں دیکھ سکتے ہیں۔
برطانیہ کے یو سی ایل انسٹی ٹیوٹ آف نیورولوجی میں آرچی برکر اور ان کے ساتھیوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ ایک ایسی کمپیوٹر گیم کھیلیں جس میں انھیں اس وقت ہلکا سا بجلی کا جھٹکا لگتا تھا جب انھیں کسی ورچوئل چٹان کے نیچے چھپا ہوا سانپ نظر آتا تھا۔
تناؤکے ردعمل پر غیر یقینی صورتحال کے اثرات کو جانچنے کے لیے محققین نے اس بات کا اندازہ لگایا کہ اس بات کا کتنا امکان ہے کہ تجربے کے دوران ایک چٹان سانپ کو چھپا رہی ہو، اور انھوں نے اس دوران شرکا میں پیدا ہونے والے اضطراب کی جسمانی علامات کی پیمائش کی۔ جیسا کہ پسینہ آنا اور آنکھوں کی پتلیوں کا پھیلاؤ۔
یہ کافی حیران کن تھا کہ شرکا نے اس وقت زیادہ واضح طور پر ردعمل میں تناؤ ظاہر کیا جب انھیں 50 فیصد امکان تھا کہ انھیں جھٹکا لگایا جائے گا بہ نسبت اس صورتحال کے جن میں وہ جانتے تھے کہ انھیں تکلیف پہنچنے والی ہے۔
صرف فائدے اور اچھے وقت کے لیے دوستی رکھنے والا رویہ بھی ہمارے قریبی لوگوں کو اس طرح کی کیفیت سے دوچار کر سکتا ہے۔
’ناقابلِ پیشگوئی‘ دوستیوں کے حوالے سے تحقیق کرنے والے سائنس دان شرکا سے کہتے ہیں کہ وہ یہ تصور کریں کہ وہ کسی دوست سے مشورہ لینے، کچھ سمجھنے یا پھر کوئی اور مدد لینے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے کچھ اس طرح کے سوالات پر ان کا ردعمل جاننے کی کوشش کی۔ ان سوالات کے جواب کے لیے پہلا آپشن ’بالکل نہیں‘ سے شروع ہو کر چھٹا آپشن ’انتہائی‘ تک جاتا ہے۔
یہ دو سوالات بہت سادہ سے ہیں کہ:
آپ کا تعلق کتنا مضبوط ہے؟
آپ کا تعلق کتنا تکلیف دہ ہے؟
جو بھی دو یا دو سے زیادہ آپشن کا انتخاب کرتا تھا تو اسے مبہم تعلق میں شامل کیا جاتا۔ واضح جواب نہ دے پانے کا خوف جو ان کے دل میں بیٹھا ہے یہی ان کے لیے ذہنی تناؤ کی وجہ بھی ہو سکتا ہے۔
ایک اور تحقیق میں شریک لوگوں کا فشار خون بڑھانے کے لیے یہی کافی تھا کہ دوسرے کمرے میں ان کے وہ دوست بیٹھے ہیں جو انھیں تکلیف دیتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے دوستوں کو وہ تعاون فراہم کرنے کے قابل نہ ہوں جس کی انھیں ضرورت ہے، لیکن ہم اپنے ردعمل میں کچھ زیادہ قابل اعتماد بننے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
ہم اپنے بُرے موڈ کو بہتر کرنے کے طریقے سیکھ سکتے ہیں۔ تاکہ اگر ہمارے دوست غلط وقت پر ہم سے رابطہ کریں تو ہم ان سے ناراض نہ ہوں یا ان پر غصے نہ ہو جائیں۔
2۔ شفافیت کے فریب سے بچیں
ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی سوچ میں کھویا ہوتا ہے، لیکن ہم اس بات کا ادراک نہیں کر پاتے کہ دوسرے کتنے بہتر طور پر ہماری صورتحال پر غور کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جسے شفافیت کے وہم سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہ صورتحال شاید جب آپ کہیں نوکری کے لیے انٹرویو دینے جاتے ہیں تو آپ کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہماری اندر کی کیفیت چہرے پر لکھی دکھائی دے رہی ہے لیکن ہماری پریشانی کے احساسات کو سمجھنا ہماری سوچ سے کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
یہ عام شعوری غلطی پھر شاید ہمیں لوگوں کی تعریف سے بھی باز رکھتی ہے اور ہوتا یہ ہے کہ اس سے دوسروں کو یہ تاثر ملتا ہے کہ ہم انھیں نظر انداز کر رہے ہیں یا ان کی قدر نہیں کرتے۔
امت کمار نے آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس جبکہ نکولس ایپلے نے یونیورسٹی آف شکاگو میں موجود شرکا کے گروپ سے کہا کہ وہ اپنی زندگی میں موجود اہم لوگوں کو شکریے کا خط لکھیں۔
اس سروے جسے خط لکھنے والے کی توقعات اور اسے وصول کرنے والے کے حقیقتی ردعمل کو دیکھتے ہوئے محقیقین کو پتا چلا کہ لوگ مستقل طور پر اس بات کو اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ان کے ’ہمدردی کے الفاظ‘ پڑھنے والے کو کتنا حیران کریں گے اور انھیں اس سے کتنا اچھا تاثر ملے گا۔ وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ دوسرا بندہ جانتا ہے کہ وہ اس کے کس قدر شکرگزار ہیں۔
ایسا ہو سکتا ہے کہ ہمارے طور طریقہ ہمارے گرمجوشی کا ثبوت ہوتا ہے مگر یہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ ہمارے احساسات کو الفاظ میں بہتر طور پر ڈھالا جا سکتا ہے۔
3۔ دوسروں کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھیں (لیکن انھیں نئی راہ بھی دکھائیں‘
دوسروں کے جذبات کی قدر کریں لیکن انھیں نئے نقطہ نظر کو بھی دیکھنے پر ابھاریں۔
جب کوئی مشکل وقت سے گزر رہا ہوتا ہے تو وہ قدرتی طور پر چاہتا ہے کہ دوسرے اس کی صورتحال کو سمجھیں۔ ہمدردی پر مشتمل رویہ ان کے احساسات کو ممیز بخشتا ہے اور یوں اس سے ان کی کچھ پریشانی کم ہوتی ہے۔
ایک زہریلا دوست آپ کے احساسات کو شاید بالکل بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھے گا اور بنا کچھ سوچے سمجھے آپ کے بارے میں رائے قائم کر لے گا۔ ایسی صورتحال میں رد کیے جانے کا احساس ہوتا ہے جو کہ انسان پر مزید جذباتی دباؤ بڑھاتا ہے۔
محض اس لیے کہ ہم کسی کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے ہم اس کی رائے سے بھی مکمل طور پر متفق ہیں۔ بلکہ کسی کو جذباتی سہارا دینے کی سب سے موثر صورت میں حوصلہ افزائی کے ساتھ کوئی تجویز شامل ہو گی جس کی مدد سے دوسرے کو اپنے مسائل کو حل کرنے میں ایک اور نقطہ نظر سمجھنے سے مدد ملے گی۔
بلاشبہ نفسیاتی تحقیق کے نتائج کے مطابق محض کسی کے تناؤ کو دور کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کافی نہیں بلکہ جس وجہ سے وہ ایسی کیفیت میں ہیں اس کے تدارک کے لیے بھی ان کی رہنمائی ضروری ہے تا کہ وہ آگے پھر کسی اایسی مشکل میں نہ پھنسے۔
محض دوسروں کے جذبات کی قدر ہی کافی نہیں بلکہ اس صورتحال سے انھیں نکالنے کی تدابیر بھی ضروری ہیں اگر ہم ایسا نہیں کر رہے ہیں تو پھر یہ بھی زہریلے تعلقات کی ہی ایک مثال ہے۔
ایک تعمیری بات چیت کے لیے بہت زیادہ حساسیت اور تدابیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر مشی گن یونیورسٹی میں ایتھن کروس اور ان کے ساتھیوں نے کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کی مدد سے شاید کسی کو اپنے مسائل کو بڑے پیمانے پر دیکھنے میں مدد ملے۔
کیا آپ نے اس تجربے سے کچھ سیکھا ہے اور ایسا ہے تو کیا آپ اسے میرے ساتھ شیئرکریں گے۔
بڑی منصوبہ بندی میں اگر چیزوں کو اجمالی طور پر دیکھیں تو کیا وہ آپ کو اس تجربے کو سمجھنے میں مدد دے گا؟ کیوں یا کیوں نہیں۔
ان مختلف آرا کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس مطالعے میں شامل شرکا نے تکلیف دہ واقعات پر ان لوگوں سے زیادہ درد محسوس کیا جنھوں نے اپنی کسی صورتحال کی تفصیلات بتائیں اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے احساسات کو بیان کیا۔
4۔ ایک دوسرے کی کامیابیوں کا جشن منائیں (اور دوسروں کی خوشی پر خوش رہیں)
مثبت جذبات کو شیئر کرنے کے لیے ہمدردی بھی اتنی ہی اہم ہے۔
ہمدردی، جو کہ لاطینیزبان میں ’مشترکہ درد‘ سے ماخوذ ہے۔ اسے دوستی کی بنیاد کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ لیکن لاطینی زبان سے ماخوذ لفظ ’کانفلیسیٹی‘ یعنی کسی کی کامیابی پر خوش ہونے کے بارے میں بہت کم جانا جاتا ہے۔
یہ کوتاہی سائنسی تحقیق میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ جب شیلے گیبل نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سانتا باربرا اور ہیری رائس نے یونیورسٹی آف روچیسٹر نیویارک میں سنہ 2010 میں سائیکالوجی کے لیکچرز کا سروے کیا تو انھوں نے یہ دیکھا کہ شائع شدہ ’آرٹیکلز‘ میں زندگی کے مثبت کے بجائے منفی واقعات پر توجہ کہیں زیادہ تھی۔ یہ تناسب سات ایک کی تھی یعنی سات آرٹیکل کے بعد کسی آرٹیکل میں مثبت پہلوؤں پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔
اب اس رجحان میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ بہت سی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک اچھی خبر یا خوشخبری کے بارے میں ہماری بات چیت اتنی ہی اہم ہو سکتی ہے جتنی صحت مند تعلقات کے لیے خواہش۔
ایک مددگار دوست کو پھرتی سے ایککارآمد جواب دینا چاہیے اور مزیدمعلومات پوچھنی چاہیے، اس کے مضمرات یا نتائج پر بات چیت کرنی چاہیے اور اپنی خوشی اور فخر کا اظہار کرنا چاہیے۔
لیکن بہت سے لوگوں کا جواب بہت سست رو ہوتا ہے۔ وہ جلدی سے بات کا موضوع بدل دیتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ خرابی پیدا کرنے کے لیے متحرک ہو جاتے ہیں۔ وہ اس قسم کے تبصرے کرتے ہیں جو کسی بھی واقعے کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
روزمرہ زندگی کی پریشانیوں میں ہم شاید انھیں وہ توجہ نہ دے پائیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ لیکن اگر ہم اچھے دوست بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے دوستوں کی کامیابیوں کو منانے کے لیے چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی کوشش کرنی ہو گی اور وقت نکالنا ہوگا۔
انابیل روبرٹس نے آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس، ایمالیوائن نے یونیورسٹی آف شکاگو اور اویول سیزر نے کارنل یونیورسٹی میں تجربات کیے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں شاید اس بارے میں بھی زیادہ احتیاط سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی خوشی کو کیسے شئیر کرتے ہیں۔
ہم اس بارے میں پریشان ہوتے ہیں کہ شاید ہم نخریلے یا مغرور دکھائی دیں گے اس لیے ہم اپنی کامیابیوں کو چھپا لینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مگر یہ حکمت عملی بُری طرح سے ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہے۔
تجربات کے دوران انھوں نے دیکھا کہ غام طور پر لوگ اس وقت ہم سے بہت زیادہ ناراض ہو جاتے ہیں جب وہ ان سے کوئی معلومات چھپاتے ہیں جیسا کہ اردگرد کے لوگوں سے اپنی نوکری میں ملنے والی ترقی اور مراعات کو چھپانا۔
وہ لوگ اسےپدرانہ رویے کے طور پر لیتے ہیں اور تعلق میں گرمجوشی کے بجائے ایک سرد پن پیدا ہو جاتا ہے۔
5۔ معافی مانگنے میں پہل کریں
انسان خطا کا پتلا ہے مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بلا جھجک معافی مانگ لیتے ہیں۔ اس سے سماجی تعلقات میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔ مگر کسی بھی غلطی کو طوالت دینے سے سماجی تعلقات میں دراڑ بڑھ جاتی ہے۔
نفسیاتی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ پر اثر انداز میں معافی مانگنے میں چار اہم رکاوٹیں ہیں۔
ہم نے جو نقصان کیا ہم اس کو اہمیت نہیں دیتے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ معافی مانگنے کا عمل بذات خود ہی بہت شدید تکلیف دہ اور شرمندگی کا باعث ہے۔
ہم یہ سمجتھے ہیں کہ تعلقات پھر سے جوڑنے میں یا اس میں پڑی دراڑ کو ختم کرنے میں ہم جو معافی مانگیں گے اس کا بہت کم کردار ہو گا۔ اور آخری نکتہ یہ کہ ہم شاید سمجھ ہی ناں سکیں کہ ایک اچھی یا بہتر معافی کیا ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہم وہ الفاظ ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں جو کسی کے زخم بھرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
نفسیاتی تحقیق بتاتی ہے کہ مؤثر طریقے سے معافی مانگنے میں چار اہم رکاوٹیں ہیں: ہم اس نقصان کی قدر نہیں کرتے جو ہم نے پہنچایا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معافی مانگنے کا عمل بہت تکلیف دہ اور شرمناک ہوگا۔ ہمیں یقین ہے کہ معذرت تعلقات کو ٹھیک کرنے میں بہت کم کام کرے گی۔ اور آخر میں، ہو سکتا ہے کہ ہم سمجھ نہ سکیں کہ ایک اچھی معافی کیا ہے – اس لیے ہم وہ الفاظ کہنے میں ناکام رہتے ہیں جو شفا کے لیے ضروری ہوں گے۔
پہلے نکتے کا دارومدار واضح طور پر اختلافات کی تفصیلات ہر ہوتا ہے۔
لیکن یہاں آگے دو تحفظات جیسا کہ تعلقات کے بارے میں ہمارے بہت سے مفروضے ایسے ہوتے ہیں جن کا بہت حد تک وجود ہی نہیں ہوتا اور اسی لیے ان کی وجہ سے سماجی روابط میں غیر ضروری رکاوٹیں پیش کرتے ہیں۔ عام طور پر اپنی غلطیوں کی اصلاح کر کے سکون کا سانس لیتے ہیں اور شاید ہم توقع سے زیادہ بہتر انداز میں ٹوٹے ہوئے تعلقات کو توقع دوبارہ جوڑ سکتے ہیں لیکن یہاں شرط یہ ہوتی ہے کہ ہمیں درست طور پر معافی بھی ملے۔
یہ یقین کروانے کے لیے کہ آپ کی معافی موثر ہے آپ کو دوسرے بندے کو اس کو پہنچی تکلیف کے اظہار کے لیے بہت سا وقت دینا چاہیے۔ آپ کو اپنی غلطی کی ذمہ داری لینی چاہیے اور آپ کو حقیقی طور پر اپنی غلطی پر پچھتاوے اور افسوس کا اطہار کرنا چاہیے۔
آپ کو اس غلطی کا ازالہ کرنے کی پیشکش کرنی چاہیے اور یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ دوبارہ آپ اس قسم کی غلطی کرنے سے کیسے باز رہیں گے۔
ہر رشتے میں اتار چڑھاو ہوں گے، جو کہ انسانی رویے کی فطرت ہے اور ہماری سماجی زندگیوں کی پیچیدگی بھی یہی ہے۔
مضبوط تر تعلقات کے لیے ان پانچ طریقوں پر عمل پیرا ہو کر آپ بہرحال آسانی سے ہوجانے والی غلطیوں سے بچ سکتے ہیں، اسے یقینی بناتے ہوئے کہ آپ خود بھی اس قسم کے دوست ہیں جیسا آپ اپنے لیے دوست دیکھنا چاہتے ہیں۔