’پورن فینٹسی‘: اجنبیوں سے اپنی بیوی کا ریپ کروانے کا مقدمہ ہمیں مردوں کی بےلگام جنسی خواہشات سے متعلق کیا بتاتا ہے؟

اب جب کہ انصاف مل چکا ہے تو ایک بڑا سوال بھی ہمارے سامنے ہے۔۔۔ اور وہ یہ کہ ایک چھوٹے سے قصبے میں رہنے والے اتنے سارے مرد جنسی طور پرایک ہی عورت پر غلبہ پانے کی خواہش کیوں رکھتے تھے اور ان کی یہ مشترکہ خواہش ہمیں مردوں کی جنسی ہوس کے متعلق کیا بتاتی ہے؟
Treated image showing a man and a woman looking to the side
Getty Images

انتباہ: اس مضمون میں ریپ کے متعلق کچھ ایسی تفصیلات موجود ہیں جو قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں

میں جتنی خواتین کو جانتی ہوں تقریباً وہ سبھی فرانس میں متعدد اجنبیوں سے اپنی اہلیہ کا ریپ کروانے والے مقدمے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

اس مقدمے کی عدالتی سماعت کے دوران بھیانک تفصیلات سامنے آئیں جس کے بعد ہم نے مل کر یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ہوا کیا ہے۔

تقریباً ایک دہائی تک جزیل پیلیکوٹ نامی خاتون کے شوہر ڈومینیک نے انٹرنیٹ کی مدد سے اجنبیوں کی خدمات حاصل کیں اور انھیں گھر بلوا کر اپنی ادویات کے زیر اثر مدہوش بیوی سے اُن کا ریپ کروایا اور خود اس دوران اُن کی ویڈیوز بناتے رہے۔

پولیس کے مطابق ریپ کرنے والے مجموعی طور پر 72 افراد تھے جن کی عمریں 22 سے 70 سال کے درمیان تھیں۔ ان 72 افراد پر ڈومینیک کی اہلیہ کو 92 مرتبہ ریپ کرنے کا الزام تھا تاہم اُن میں سے 50 کی شناخت ممکن ہو پائی اور اُن کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔

جزیل نامی خاتون کا ریپ کرنے والے ملزمان میں فائر مین، نرس، صحافی، اور جیل وارڈن سے لے کر سپاہی تک شامل تھے جو مجرم شوہر کی ہدایات پر من و عن عمل کرتے تھے۔

اُن کی جنسی ہوس اور ریپ کرنے کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ ایک ایسی حالت جس میں متاثرہ عورت مزاحمت کرنے یا روکنے کے قابل نہ ہو، انھوں نے انتہائی بے دردی سے اُن کا ریپ کیا۔۔۔ اس بے رحمانہ عمل کے دوران خاتون کا بے جان جسم چیتھڑوں سے بنائی گڑیا جیسا تھا۔

عدالت میں جو 50 مرد ملزمان موجود تھے وہ سب جنوبی فرانس کے اس چھوٹے سے قصبے مازان کے اردگرد رہتے تھے جہاں پیلیکوٹ (شوہر) اور ان کی اہلیہ بھی رہائش پذیر تھے۔

بظاہر یہ سارے مجرم مرد کسی بھی دوسرے آدمی جیسے تھے۔

تقریباً 30 سال کی ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ ’جب میں نے پہلی بار اس کیس کے متعلق پڑھا تو اس نے مجھے اتنا خوفزدہ کر دیا تھا کہ میں کم از کم ایک ہفتے تک اپنے آس پاس مرد نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔ حتیٰ کہ اپنے منگیتر کو بھی نہیں۔‘

60 کے پیٹے میں ایک اور خاتون، جو تقریباً متاثرہ خاتون جزیل کی ہم عمر ہیں، کے مطابق وہ بار بار اس بارے میں سوچتی ہیں کہ مردوں کے دماغ میں آخر کیا پکتا رہتا ہے۔۔۔ اور خدا جانے اس آتش فشاں کے نیچے اور کیا لاوہ پک رہا ہو گا جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے۔‘

عدالت میں جو 50 مرد موجود تھے وہ سب جنوبی فرانس کے اس چھوٹے سے قصبے مازان کے اردگرد 50 کلومیٹر (30 میل) کے رقبے میں رہتے تھے جہاں پیلیکوٹ اور ان کی اہلیہ بھی رہائش پذیر تھے۔
Reuters
خاتون کو ریپ کرنے کے الزام میں عدالت میں 50 مردوں کو بطور ملزم پیش کیا گیا

جس دن عدالت نے اس کیس کا فیصلہ سُنایا اس دن ڈاکٹر سٹیلا ڈفی جو 61 سالہ مصنفہ اور معالج بھی ہیں، نے اپنے انسٹاگرام پر لکھا ’مجھے امید ہے اور میں خود کو اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کرتی ہوں کہ تمام مرد ایسے نہیں ہوتے۔۔۔۔ لیکن پھر میں سوچتی ہوں کہ اُس گاؤں میں، جہاں متاثرہ خاتون رہتی ہیں، رہنے والی تمام بیویاں، بیٹیاں اور گرل فرینڈز بھی یہی سوچتی ہوں گی۔ مگراب انھیں معلوم ہو چکا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔‘

’میں نے جتنی خواتین سے بات کی ان سب کا کہنا ہے کہ اس مقدمے نے ان کی مردوں کے متعلق سوچ کو تبدیل کیا ہے۔ مجھے امید ہے اس سے مردوں کی مردوں کے متعلق سوچ بھی تبدیل ہو سکے گی۔‘

اب جب کہ انصاف مل چکا ہے تو ہم اس بھیانک مقدمے کی تفصیلات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس پر غور کر سکتے ہیں کہ مردوں میں ایسے بے حس اور پرتشدد رویے کہاں سے آتے ہیں؟ کیا انھیں معلوم نہیں ہے کہ رضامندی کے بغیر سیکس ریپ ہوتا ہے؟

لیکن ایک بڑا سوال بھی ہمارے سامنے ہے۔ اور وہ یہ کہ ایک چھوٹے سے قصبے میں رہنے والے اتنے سارے مرد جنسی طور پرایک ہی عورت پر غلبہ پانے کی خواہش کیوں رکھتے تھے اور ان کی یہ مشترکہ خواہش ہمیں مردوں کی جنسی ہوس کے متعلق کیا بتاتی ہے؟

انٹرنیٹ نے خیالات کو کیسے تبدیل کیا

جزیل پیلیوٹ جتنی مرتبہ ریپ ہوئیں، جنسی تشدد سے گزری اور ان مردوں کی ہوس کا نشانہ بنتی رہی، انٹرنیٹ کے بغیر اس سب کا تصور بہت مشکل ہے۔

وہ پلیٹ فارم جس پر ڈومینیک پیلیکو نے مردوں کو اپنی بیوی کا ریپ کرنے کی دعوت دینے کے اشتہار دیے، یہ ایک ایسی فرانسیسی ویب سائٹ تھی جو بغیر کسی ماڈریٹر کے چل رہی تھی اور اس نے ایک جیسی جنسی خواہشات رکھنے والوں کا ملنا آسان بنا دیا تھا۔ اس ویب سائٹ کو اب بند کر دیا گیا ہے۔ لیکن انٹرنیٹ سے پہلے کے دور میں ایسا ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔

جزیل پیلیکوٹ کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل نے اس ویب سائٹ کو ’مرڈر ویپن یا آلہ قتل‘ قرار دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ’یہ ویب سائٹ نہ ہوتی تو شاید یہ مقدمہ اتنا بڑا نہ ہوتا۔‘

انٹرنیٹ نے سیکس کے حوالے سے رضامندی اور ہراسانی کے بغیر قائم ہونے والے جنسی تعلقات جیسے رویوں کو عام کرنے میں آہستہ آہستہ ہی سہی مگر کردار ادا کیا ہے۔

اور اس کے باعث اب ایسی رویے بھی عام سمجھے جاتے ہیں جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

پرانے وقت کے فحش میگزینوں اور بلیوپرنٹ فلموں کے بجائے جدید دور کی پورن ہب جیسی ویب سائٹس نے فحاشی کی حدود کو بہت وسیع کر دیا ہے۔ صرف جنوری 2024 میں اس ویب سائٹ پر 11.4 ارب لوگ پورن دیکھنے آئے۔

جنوری 2024 میں برطانیہ میں آن لائن صارفین کا ایک سروے کیا گیا جس میں 25 سے 49 سال کے ہر دس میں سے ایک شخص نے اعتراف کیا کہ وہ دن میں زیادہ تر پورن دیکھتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مرد تھے۔

یونیورسٹی کی طالبہ 24 سالہ ڈیزی نے مجھے بتایا کہمیرے سمیت میرا جاننے والا ہر شخص پورن دیکھتا ہے۔

وہ حقوق نسواں سے جڑی ویب سائٹس کے ذریعے پورن دیکھنا پسند کرتی ہے جن کے فلٹرز میں ’پُرجوش‘ اور ’جنسی لذت‘ کے ساتھ ساتھ ’رف‘ جیسے الفاظ بھی شامل ہوں۔

لیکن ڈیزی کے کچھ مرد دوستوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے پورن دیکھنی چھوڑ دیا ہے کیونکہ انھوں نے بچپن میں اتنی پورن دیکھی ہے کہ اس کی وجہ سے اب وہ دورانِ سیکس زیادہ لذت حاصل نہیں کر پاتے۔

برطانیہ میں 2023 میں انگلینڈ کی چلڈرن کمشنر ڈیم ریچل ڈی سوزا کے لیے کی گئی ایک تحقیق میں پتا چلا کہ 16 سے 21 سال کی عمر کے بچوں نے پہلی بار پورن پرائمری سکول کے دوران انٹرنیٹ پر دیکھی تھی۔

اس وقت ڈیسوزا نے کہا تھا ’بالغوں کے لیے بنایا گیا ایسا مواد جس تک والدین نے اپنی جوانی میں رسائی حاصل کی ہو گی، اسے آج کی آن لائن پورنوگرافی کی دنیا کے مقابلے میں ’عجیب‘ یا پرانے زمانے کا سمجھا جا سکتا ہے۔‘

کیا پورن مواد سے واقعی رویے تبدیل ہوتے ہیں؟

ایسے بچے جو بلوغت کو پہنچنے سے قبل باقاعدگی سے موبائل فون پر پورن دیکھتے ہیں وہ 20ویں صدی کے پلے بوائے کو دیکھ کر بڑے ہونے والوں کے مقابلے یقیناً مختلف جنسی توقعات کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں۔

پورن دیکھنے کی لت اور خواتین کے لیے جنسی تشدد والے رویوں کے درمیان تعلق کے کافی ثبوت موجود ہیں تاہم ان رویوں میں براِہِ راست کوئی تعلق نہیں مل سکا ہے۔

کورونا کی وبا سے پہلے کی گئی سرکاری تحقیق کے مطابق ’اس بات کے قوی شواہد موجود ہیں کہ پورن دیکھنے کی لت کا پورن میں دیکھے گئے جنسی فعل اور ویسے ہی جنسی عمل حقیقی زندگی میں کرنے کی خواہش میں بہت گہرا تعلق موجود ہے۔ پورن دیکھنے والے مردوں میں سے یہ یقین بھی بڑھ جاتا ہے کہ خواتین بھی پورن فلموں میں دکھائے گئے ایکٹس یعنی جنسی افعال کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔‘

جزیل
Getty Images
فیصلہ آنے کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جزیل پیلیکوٹ نے کہا کہ انھیں اس مقدمے کو عوامی سطح پر لانے پر ’کبھی بھی کوئی پچھتاوا‘ نہیں ہوا

کچھ ایسی ہی خواہشات میں پُرتشدد رویے اور اپنے پارٹنر پر غلبہ پانے والے کام بھی شامل ہیں جیسے سیکس کے دوران تھپڑ مارنا، گلا دبا کر دم گھوٹنا یا دوسرے پر تھوکنا۔

ڈیزی نے مجھے بتایا ’گلا دبانا یا دم گھوٹنا تو معمول کی بات ہے اور یہ گردن پر بوسہ لینے کی طرح ہے اور اکثر خواتین اس کی خواہش رکھتی ہیں۔ آخری مرتبہ میں نے جس لڑکے کے ساتھ سیکس کیا، میں نے اس سے کہا کہ مجھے گلا دبانے کا عمل پسند نہیں ہے، اور وہ مان گیا۔‘

تاہم اُن کا خیال ہے کہ شاید تمام خواتین اس بارے میں بات کرنا پسند نہیں کریں گی۔ ’میرے تجربے میں زیادہ تر مرد نہیں چاہتے کہ عورتیں دورانِ سیکس مردوں پر غلبہ حاصل کریں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مرد عورتوں پر غلبہ چاہتے ہیں۔‘

ڈیزی سے عمر میں 40 سال بڑی سوزان نوبل نے اپنے جنسی تجربات کے بارے میں لکھا ہے اور اب وہ ایک ویب سائٹ اور پوڈ کاسٹ چلاتی ہیں جس کا نام ’سیکس ایڈوائس فار سینیئرز‘ ہے۔

اُن کا ماننا ہے کہ خواتین پر تشدد کا تعلق ایسے پورن مواد سے ہے جس سے مردوں کو ریپ کی ترغیب ملتی ہے اور انھیں یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ ایک ایسا فعل ہے کہ جس کی عورتیں خواہش رکھتی ہیں اور سیکس کے دوران اس کے لیے بے چین رہتی ہیں۔

انٹرنیٹ پر چھوٹے چھوٹے کلپ دیکھنے سے حقیقی زندگی میں عمل کرنے تک

جس طرح انٹرنیٹ پورن مواد کو ہمارے بیڈ رومز تک لے آیا ہے، اِسی طرح اس نے حقیقی زندگی میں ان فحش فلموں میں دکھائے گئے افعام کی نقل کرنا بھی آسان بنا دیا ہے۔

پہلے لوگ ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرنے کے لیے ڈاک خانے کا استعمال کرتے تھے، یعنی خط لکھتے تھے۔ سیکس کے لیے یہ بہت سست عمل تھا۔ اب ایسے گروپوں میں آن لائن شامل ہونا اور پھر ان کے ذریعے ذاتی طور پر ملنا آسان ہو گیا ہے۔

برطانیہ میں جیسے ڈیٹنگ ایپس کے ذریعے محبت اور رشتے تلاش کرنا عام سی بات ہے ویسے ہی ایسے لوگوں سے رابطہ قائم کرنا بھی آسان ہے جو کسی کے ساتھ مختلف قسم کے جنسی عمل آزمانا چاہتے ہیں اور اس کام میں ان کی مدد کی لیے ’فیلڈ‘ جیسی مخلتف سوشل میڈیا ایپس بھی موجود ہیں۔

اس ایپ پر خواہشات کی فہرست میں 31 جنسی افعال شامل ہیں جن میں ایک سے زائد افراد کے ساتھ سیکس کے علاوہ پارٹنر کے ساتھ ایسی حالت میں سیکس کرنا شامل ہے جس میں اسے بیڑیوں سے باندھ دیا جائے تاکہ وہ مزاحمت کرنے کے قابل نہ رہے۔

البرٹینا فشر ایک آن لائن نفسیاتی معالج ہیں جو صارفین سے اُن کی جنسی خواہشات کے بارے میں بات چیت کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’جنسی خواہشات رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ جنسی خواہشات دوسرے کی رضامندی کے بغیر آپ کے برتاؤ کا حصہ نہیں بننی چاہییں۔‘

A woman holds a sign saying Not All Men but Always a Man
Reuters
عدالت کے باہر احتجاج

وہ کہتی ہیں کہ ’مردوں اور عورتوں کی جنسی خواہشات مختلف ہوتی ہیں لیکن بہت کم ہی اُن میں پارٹنر پر غلبہ پا کر جنسی عمل کرنا یا دوسرے کو غلبہ پانے کا اختیار دینا شامل ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’بلاشبہ اس سب کا پیلیکوٹ کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس معاملے میں جو ہوا وہ جنسی تشدد ہے اور یہ انتہائی تکلیف دہ اس لیے بھی ہے کہ جو کچھ ہوا وہ میاں، بیوی کے تعلق میں ہوا جو کہ ایک محبت بھرا رشتہ ہوتا ہے۔‘

’پارٹنر کی رضامندی کے بغیر اپنی جنسی خواہشات پورا کرنے کے لیے اس حد تک جانا خود پسندی کی انتہا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جب آپ پارٹنر کو بے ہوش کر دیتے ہیں تو وہ آپ کو نہیں بتا سکتا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی ایک ایسی عورت کے ساتھ جنسی عمل کرنے کی خواہش ہے جسے خوش کرنے کی آپ کو کوئی فکر نہیں ہے۔‘

خواہشات اور ان کے گرد گھومتے سوالات

فرائیڈین کے بعد کے دور میں یہ چیز ایک حقیقت بن گئی کہ خواہشات کو دبایا نہیں جانا چاہیے اور 1960 کی دہائی کے نظریہ آزادی نے بھی خود کی حقیقت پہچاننے کے لیے اپنی جنسی خواہش کا ادراک کرنے پر زور دیا۔

لیکن مردانہ خواہشات ایک ایسا تصور بن کر ابھرا جس سے طاقت اور پارٹنر پر غلبہ پانے جیسے سوالات جڑے تھے۔

پیلیکوٹ مقدمے کی سماعت کے دوران سامنے آیا کہ چند مجرمان نے یہ سمجھا (ازخود فرض کیا) کہ جزیل پیلیکوٹ نے خود اس کی رضامندی دی تھی۔

تاہم ان میں سے بہت سے مجرمان محض اپنی اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔

A defendant in a mask walks through a crowd of journalists
Getty Images
ڈی ٹریچیٹو کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایسے مردوں سے ملاقات کی ہے جو فیمنسٹ تحریک (حقوق نسواں) کے فروغ سے اپنے آپ کو کمتر محسوس کرتے ہیں

مخالف جنس کے ساتھ سیکس کرنے کی خواہش ایک ایسے عمل میں تبدیل ہو سکتی ہے جس میں آپ اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ اپنے پارنٹر کی رضامندی کی پرواہ کرنا چھوڑ دیں، یعنی مردوں کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ عورت کیا محسوس کرتی ہے یا اس پر کیا گزرتی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں جب ’اونلی فینز‘ نامی پورن سائیٹ کی اداکارہ للی فلپس نے ایک دن میں 100 مردوں کے ساتھ سیکس کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اُن کے ساتھ سیکس کی خواہش رکھنے والوں سینکڑوں مردوں کی لائنیں لگ گئیں۔

کبھی کبھار خواتین کو ایک چیز (آبجیکٹ) کی طرح دیکھنے کا رویہ مردوں میں یہ یقین پیدا کر سکتا ہے کہ خواتین کو اپنی خواہشات یا اپنی زندگی پر کنٹرول نہیں ہونا چاہیے۔

انڈرویو ٹیٹ جیسے افراد کے لیے کشش

ساؤتھ کینسنگٹن لندن میں مقیم ایک تھراپسٹ آندرے ڈی ٹریچیٹو نے مردوں کی خود اعتمادی کے حوالے سے مشہور اور اثر و رسوخ رکھنے والے اینڈریو ٹیٹ جیسے افراد کا ذکر کیا جو خود کو ’خواتین سے نفرت کرنے والا‘ کہتے ہیں اور ایکس پر ان کے 10.4 ملین فالوورز ہیں۔

ڈی ٹریچیٹو کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایسے مردوں سے ملاقات کی ہے جو فیمنسٹ تحریک (حقوق نسواں) کے پھیلنے کی وجہ سے اپنے آپ کو کمتر محسوس کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کچھ مرد یہ تک نہیں جانتے کہ انھیں کیا بننا ہے کیونکہ انھیں طاقتور ہونے کا سبق پڑھایا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے جذبات کو سمجھیں اور جہاں ضرورت ہو اپنی کمزوری ظاہر کریں۔

ڈی ٹریچیٹو کے 60 فیصد کلائنٹ مرد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مردوں کو اکثر یہ سکھایا جاتا ہے کہ طاقت اور غلبہ ان کی شناخت کا ایک اہم حصہ ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں ’میں پیلیکوٹ کیس جیسے کسی عمل کو جواز فراہم نہیں کر رہا لیکن میں یہ سمجھ سکتا ہوں کہ اس سلوک کے پیچھے وجوہات میں بے بسی اور کم تر محسوس کرنا وغیرہ شامل ہو سکتا ہے۔‘

’یہ مقدمہ پریشان کن ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ کس حد تک جا سکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ آن لائن گروپس (جیسے وہ گروپ جس کا استعمال پیلیکوٹ نے کیا) بہت طاقتور ہو سکتے ہیں۔

’ایک گروپ میں جب آپ کو انٹری دی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کے خیالات کی تصدیق کی گئی ہے۔ اگر ایک شخص کہے کہ یہ عمل ٹھیک ہے تو پھر باقی سب بھی اس کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔‘

Photograph of Andrew Tate smiling and wearing a purple blazer
EPA
اینڈریو ٹیٹ خود کو ’خواتین سے نفرت کرنے والا‘ کہتے ہیں اور ایکس پر ان کے 10.4 ملین فالوورز ہیں

پیلیکوٹ مقدمے کی سماعت کے دوران اور اس کے بعد سے ہونے والی بحث اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ رضا مندی اور غیر رضا مندی والے سیکس کے درمیان فرق کیسے کیا جائے اور کیا اسے قانون میں بہتر طریقے سے واضح کیا جانا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ رضا مندی کا مطلب کیا ہوتا ہے یہ اپنے آپ میں ایک پیچیدہ سوال ہے۔

24 سالہ ڈیزی کے مطابق اُن کی عمر کی کچھ خواتین اپنے جذبات سے قطع نظر مردوں کی جنسی ترجیحات کے ساتھ چلتی ہیں (یعنی سیکس کے دوران مرد جو کرنا چاہتے ہیں وہ انھیں کرنے دیتی ہیں)۔

اگر مردوں کی سیکس خواہشات میں پورن کا عمل دخل ہے تو یہ چیز مردوں کی خواہشات کے بدلتے ہوئے انداز کے بارے میں مزید سوالات اٹھاتی ہے۔ اور اگر نوجوان خواتین یہ محسوس کرتی ہیں کہ قربت حاصل کرنے کے لیے انھیں ان خواہشات کو چاہے وہ کتنی بھی شدت والی ہوں، قبول کرنا پڑتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رضا مندی اتنا بھی مشکل معاملہ نہیں۔

کچھ لوگوں نے سکون کا سانس لیا ہے کہ بلاخر پیلیکوٹ کیس ختم ہو چکا ہے اور انصاف ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اور بھی سوالات نے جنم لیا ہے اور ایک مضبوط فرانسیسی عورت کے حوصلے سے متاثر ہو کر اُن پر کُھل کر بحث کرنی چاہیے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.