ڈیجیٹل میڈیا پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق ایک اچھا یوٹیوبر ماہانہ چالیس لاکھ روپے تک کما لیتا ہے۔ تاہم اس کمائی کا انحصار آپ کے یوٹیوب چینل پر چلنے والے اشتہارات اور ویووز کے ذریعے یوٹیوب کی طرف سے ملنے والے پیسوں پر ہوتا ہے۔
حال ہی میں پاکستان میں ایک معروف یوٹیوبر رجب بٹ کی شادی کی ویڈیوز جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو لوگ ان میں نظر آنے والے شاہانہ انداز کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور یہ پوچھتے ہوئے نظر آئے کہ آخر ایک یوٹیوبر کی ماہانہ آمدنی کتنی ہوتی ہے؟
ڈیجیٹل میڈیا پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق ایک اچھا یوٹیوبر ماہانہ چالیس لاکھ روپے تک کما لیتا ہے۔ تاہم اس کمائی کا انحصار آپ کے یوٹیوب چینل پر چلنے والے اشتہارات اور ویووز کے ذریعے یوٹیوب کی طرف سے ملنے والے پیسوں پر ہوتا ہے۔
دوسری جانب یوٹیوب نے ایک ایسی فہرست جاری کی ہے جس میں ایسے دس پاکستانی یوٹیوبرز کے نام ہیں جن کی ویڈیوز میں اس برس ناظرین نے سب سے زیادہ دلچسپی لی ہے۔
یوٹیوب کی طرف سے سامنے آنے والی اس فہرست میں زیادہ تر وہ چینلز ہیں جن پر خاندان کے تمام افراد کے لیے مواد بنایا اور دکھایا جا رہا ہے۔
اس فہرست میں ایک، دو یوٹیوب چینل ایسے بھی ہیں جن پر صحت یا انٹرٹینمنٹ سے متعلق مواد بھی نشر کیا جاتا ہے۔
اس فہرست میں شامل ایک ایسا ہی چینل ڈاکٹر امتیاز احمد کا بھی ہے جو صحت کے حوالے سے معلومات فراہم کرتے ہیں۔
’مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا نام بہترین یوٹیوب چینل کی فہرست میں آیا ہے‘
بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پیشے کے اعتبار سے ریڈیالوجی اور اینڈوسکولر سرجن ڈاکٹر امتیاز احمد نے بتایا کہ انھوں نے سنہ 2017 میں یوٹیوب چینل اپنے بیٹے کی مدد سے شروع کیا تھا۔
ڈاکٹر امتیاز کے مطابق وہ گذشتہ 20 برس سے شعبہ صحت سے منسلک ہیں اور اس وقت ان کے یوٹیوب چینل پر 13 لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا ’اکثر ہمیں میڈیکل کانفرنسز اور بچوں کو پڑھانے کے غرض سے تحریروں کو ویڈیو کی شکل دینی پڑتی تھی۔ ایک دن میں نے اپنے بیٹے علی جو اس وقت ساتویں جماعت میں تھا، اس سے پوچھا کہ یہ وائس اوور کیسے ہوتا ہے؟ اس دن پہلی بار اس نے مجھے وہ کرنا سکھایا۔ اس کے بعد اس نے ویڈیو کے پیچھے میوزک ڈال کر وہ ویڈیو (یوٹیوب پر) اپ لوڈ کر دی۔'
ان کا کہنا تھا کہ یوٹیوب پر ان کے سفر کا آغاز اس ہی روز ہوا جس کا مقصد خواتین کو ان کی صحت سے متعلق آگاہی دینا تھا۔
'میں نے سب سے پہلے خواتین کو یہ بتانا شروع کیا کہ انھیں اپنی بچہ دانی نکلوانے کے بجائے اس کا علاج کروانا چاہیے کیونکہ یہ ان کے جسم کا اہم حصہ ہے۔'
وہ مزید کہتے ہیں کہ ان کے پاس اکثر 18، 20 برس کی لڑکیاں آتی تھیں اور بتاتی تھیں کہ ڈاکٹر نے انھیں بچہ دانی نکلوانے کا مشورہ دیا ہے۔
'پھر ایسی بچیاں بھی آتی ہیں جو بے اولاد ہیں اور ہمارے معاشرے میں بے اولادی کا قصوروار عورت کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ کے شوہر کے ٹیسٹ کرنے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ ان کے شوہر میں ہے۔ اس طرح کے مواد پر میں کام کرتا ہوں جن کے بارے میں ڈاکٹر آپ کو کم بتاتے ہیں یا ان کے بارے میں بات کرنا برا سمجھا جاتا ہے۔'
ڈاکٹر امتیاز کہتے ہیں کہ انھیں یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ان کا یوٹیوب چینل خواتین میں آگاہی پھیلانے کا باعث بن رہا ہے اور ان کے پاس سیاچن، مستونگ، اندرونِ سندھ، پنجاب اور دور دراز علاقوں سے بھی خواتین علاج کے لیے آ رہی ہیں۔
’بواسیر کی ویڈیو پر کون اشتہار لگائے گا‘
ہم نے ڈاکٹر امتیاز سے استفسار کیا کہ وہ یوٹیوب چینل کے ذریعے کتنے پیسے کما لیتے ہیں؟
انھوں نے اس سوال کا جواب دینے کے لیے ایک قصّے کا سہارا لیا۔
’کچھ دن پہلے ہی میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ آپ کے یوٹیوب پر 15 لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں، مجھے یہ حساب دیں کہ وہاں سے آنے والے پیسے کہاں جاتے ہیں؟‘
’میں نے اسے اپنے بینک اکاؤنٹ کا ڈیٹا دکھایا تو کسی مہینے سو ڈالر تو کسی مہینے دو سو ڈالر آئے ہوئے تھے۔ میں نے انھیں کہا کہ مائی ڈیئر وائف، مجھے یہ بتائیں کہ بواسیر کی ویڈیو پر کون اشتہار لگائے گا؟‘
ڈاکٹر امیتاز کہتے ہیں کہ اس سبب انھوں نے یوٹیوب کو کبھی بطور پیشے کے استعمال نہیں کیا۔
پاکستان میں یوٹیوب پر کس قسم کا مواد نشر کرنے والے چینلز کو پسند کیا جاتا ہے؟
ڈیجیٹل میڈیا ایکسپرٹ مہتاب اسلم نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس وقت پاکستان میں زیادہ تر وہ یوٹیوب چینل چل رہے ہیں جن پر لوگ اپنی روزمرہ کی زندگی اور فیملی لائف کو دکھا رہے ہیں۔
’میرے خیال میں ایسے چینل پر زیادہ ویووز آنے کی بنیادی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے ساتھ اپنی زندگی کی چیزوں کو جوڑ پاتے ہیں، یہ مواد ایک ڈرامے کی قسطوں کی طرح چلتا ہے۔‘
مہتاب اسلم کہتے ہیں کہ ’فیملی وی لاگرز‘ کی مقبولیت میں حالیہ برسوں میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ لوگ انھیں دیکھ کر ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور لوگ ان سے بھی پوچھتے ہیں کہ ’اگر ہم یوٹیوب چینل چلائیں تو وہ کیسا ہونا چاہیے؟‘
انھوں نے کہا کہ ’اس سوال پر میں ایک ہی جواب دیتا ہوں کہ اس وقت یوٹیوب ویڈیوز کی کوالٹی اور معیار سے زیادہ ویڈیوز کی مقدار پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔
’اگر آپ روزانہ ویڈیوز اپ لوڈ کر رہے ہیں اور اپنے ملک کے حساب سے صحیح وقت پر کر رہے ہیں یعنی وہ وقت جب زیادہ تر لوگ سوشل میڈیا پر ہوتے ہیں تو آپ کسی بھی قسم کا چینل کھول لیں وہ چل جائے گا۔‘
آپ ایک کامیاب یوٹیوبر کیسے بن سکتے ہیں؟
مہتاب اسلم نے یوٹیوب انڈسٹری کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات بھی درست ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگ فیک ویووز لینے کے لیے مختلف کمپینوں کی خدمات لیتے ہیں۔ جیسے کہ وہ 200، 300 موبائل فونز پر آپ کی ویڈیو اپ لوڈ ہونے کے فوراً بعد کھول لیتے ہیں تاکہ شروع میں ہی آپ کی ویڈیو پر ویوز آ جائیں۔
’اگر ایسا ہوتا ہے تو انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا ایپس آپ کی ویڈیو کو خود با خود ہی پروموٹ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ جس سے آپ کی ویڈیوز کو زیادہ لوگ دیکھتے ہیں اور اس طرح آپ کے چینل کی ریچ بڑھتی ہے۔‘
اگر آپ کسی کمپنی کی خدمات نہ لینا چاہیں تو کیا پھر بھی آپ کی ویڈیوز وائرل ہو سکتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں مہتاب اسلم کا کہنا تھا کہ ’آج کل ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ یوٹیوب کے لیے لمبی ویڈیوز بنائیں اور پھر اس ویڈیو کا سب سے دلچسپ حصہ کاٹ کر اسے انسٹاگرام اور فیس بک پر ڈال دیں اور ساتھ ہی اپنے یوٹیوب چینل کا لنک دے دیں۔
’اس حصے کو دیکھ کر لوگ آپ کی لمبی ویڈیوز دیکھنے آئیں گے اور اس طرح آپ فالوئرز بڑھا سکتے ہیں اور پیسے کما سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس یا یوٹیوب چینل کو اچھی طرح سے مینیج کرنا بھی ضروری ہے۔
’جب بھی کوئی مواد آپ اپنے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کریں تو وائرل ہیش ٹیگ اور اچھی ٹیگ لائنز، تھمب نیلز کا استعمال کریں تاکہ لوگ آپ کی ویڈیو کی طرف مائل ہو سکیں۔‘