سائنسدانوں کو جمعرات کو رات 12 بجے سے تھوڑا پہلے پارکر سولر پروب سے ایک سگنل موصول ہوا۔ یہ خلائی جہاز سورج سے خارج ہونے والے انتہائی شدید درجہ حرارت اور بے تحاشہ تابکاری کو برداشت کرتے ہوئے سورج کی بیرونی فضا میں پرواز کر رہا تھا اور اس دوران اس کا زمین سے رابطہ منقطع تھا۔
ناسا کے ایک خلائی جہاز نے سورج کے انتہائی قریب پرواز کر کے تاریخ رقم کر دی ہے۔
سائنسدانوں کو جمعرات کو رات 12 بجے سے تھوڑا پہلے پارکر سولر پروب سے ایک سگنل موصول ہوا۔ یہ خلائی جہاز سورج سے خارج ہونے والے انتہائی شدید درجہ حرارت اور بے تحاشہ تابکاری کو برداشت کرتے ہوئے سورج کی بیرونی فضا میں پرواز کر رہا تھا اور اس دوران اس کا زمین سے رابطہ منقطع تھا۔
ناسا کا کہنا ہے کہ اس کا پروب ’محفوظ‘ ہے اور معمول کے مطابق کام کر رہا ہے۔ یہ سورج کی سطح سے 38 لاکھ میل کے فاصلے پر پرواز کر رہا تھا۔
اس مشن کے ذریعے سائنسدانوں کو یہ جاننے میں بھی مدد ملے گی کہ سورج درحقیقت کیسے کام کرتا ہے۔
ناسا میں ہیڈ آف سائنس ڈاکٹر نکولا فوکس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگ صدیوں سے سورج کے بارے میں پڑھتے آ رہے ہیں لیکن آپ کو کسی ماحول کا اصل تجربہ اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک آپ وہاں خود نہ جائیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم سورج کے ماحول کا اُس وقت تک تجربہ نہیں کر سکتے جب تک ہم اس کے انتہائی قریب سے نہ گزریں۔‘
’پارکر سولر پروب‘ کو سنہ 2018 میں لانچ کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے یہ ہمارے نظام شمسی کے مرکز کی جانب بڑھ رہا ہے۔
یہ پہلے ہی سورج کے پاس سے 21 مرتبہ گزر چکا ہے اور ہر چکر میں یہ اس کے مزید قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم اب اس نے سورج کے انتہائی پہنچنے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
یہ مشن سورج کی سطح سے 3.8 ملین میل (6.2 ملین کلومیٹر) کے فاصلے پر موجود ہے۔
یہ فاصلہ شاید آپ کو سورج کے اتنا قریب محسوس نہ ہو، لیکن نکولا فوکس اس بارے میں وضاحت کرتی ہیں کہ ’ہم سورج سے 93 ملین میل کی دوری پر ہیں تو اگر ہم سورج اور زمین کو ایک میٹر کی دوری پر رکھیں تو اس وقت ’پارکر سولر پروب‘ سورج سے صرف چار سینٹی میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یعنی انتہائی قریب۔‘
’پارکر سولر پروب‘ کو 1400 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور شدید تابکاری کو برداشت کرنا پڑے گا جو اس خلائی جہاز میں موجود الیکٹرانکس کو بھی جلا کر راکھ کر سکتا ہے۔
11.5 سینٹی میٹر (4.5 انچ) موٹی کاربن کی بنی شیلڈ سے اس خلائی جہاز کو محفوظ بنایا گیا ہے اور یہ تیزی سے اندر داخل ہونے اور باہر نکلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ خلائی جہاز انسانوں کی جانب سے بنائی گئی کسی بھی چیز سے زیادہ تیزی سے حرکت کرتا ہے اور اس کی رفتار 430,000 میل فی گھنٹہ ہے یعنی یہ لندن سے نیویارک تک 30 سیکنڈ سے بھی کم وقت میں پرواز کرنے کے برابر ہے۔
تو سورج کو ’چُھونے‘ کے لیے یہ تمام کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں؟
سائنسدانوں کو امید ہے کہ یہ خلائی مشن جب سورج کی بیرونی فضا، جسے کورونا کہتے ہیں، سے گزرے گا تو اس سے ایک طویل معمہ حل ہو پائے گا۔
’ففتھ لیب سٹارز‘ سے منسلک ماہر فلکیات ڈاکٹر جینیفر میلارڈ کہتی ہیں کہ ’کورونا (سورج کی بیرونی فضا) بہت زیادہ گرم ہے، مگر یہ اتنی گرم کیوں ہے ہمیں اس کی وجہ معلوم نہیں۔‘
’سورج کی سطح پر درجہ حرارت 6000 ڈگری سیٹی گریڈ ہے لیکن اس کی بیرونی فضا جسے آپ سورج گرہن کے دوران دیکھتے ہیں، اس کا درجہ حرارت لاکھوں ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ سورج کی فضا اتنی گرم کیسے ہو رہی ہے۔‘
اس مشن کی مدد سے سائنسدانوں کو شمسی ہوا کو بہتر طور پر سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ یہ ہوا چارج شدہ ذرات کے کورونا سے نکلنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
جب یہ ذرات زمین کے مقناطیسی میدان کے ساتھ ملتے ہیں تو آسمان چمک اٹھتا ہے۔
لیکن اس نام نہاد خلائی موسم سے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں، جیسے کہ پاور گرڈ، الیکٹرانکس اور مواصلاتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے۔
ڈاکٹر جینیفر میلارڈ کہتی ہیں کہ ’سورج کے بارے میں سمجھنا، اس پر ہونے والی سرگرمی، موسم، شمسی ہوا یہ سب زمین پر ہماری روزمرہ زندگی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔‘