اجتماعی قتل کے حوالے سے چین 2024 میں کافی پریشان کُن رہا۔ سنہ 2019 سے لے کر 2023 تک ہر سال اجتماعی قتل کے ایسے تین سے پانچ واقعات رپورٹ ہوتے تھے جہاں حملہ آور اکثر راہ گیروں اور اجنبیوں کو نشانہ بناتے تھے لیکن اس برس چین میں ایسے 19 واقعات رونما ہوئے۔
رواں برس چین میں اجتماعی قتل کے ایک واقعے کے بعد ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’چینی شہری بہت ناخوش ہیں۔‘
اسی سوشل میڈیا صارف نے مزید لکھا کہ ’اسی طرز کے یہاں اور حملے بھی ہوں گے۔‘ ایک اور صارف نے لکھا کہ ’یہ سانحہ معاشرے میں موجود اندھیرے کی عکاسی کرتا ہے۔‘
چین میں رواں برس اجتماعی قتل کے واقعات کے بعد لوگ ایسے ہی تاثرات کا اظہار کر رہے ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہ لوگ ’معاشرے سے انتقام‘ لینے کے لیے اجنبیوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں؟
آسٹریلیا کی گرفتھ یونیورسٹی سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈیوڈ شیک کہتے ہیں کہ ایسے حملے بڑی آبادی والے چین میں ابھی بھی غیرمعمولی ہیں لیکن یہ اب کسی لہر کی شکل میں ہو رہے ہیں کیونکہ اکثر لوگ ان کی نقل بھی کرتے ہیں جنھیں ہم ’کاپی کیٹ حملے‘ کہتے ہیں۔
اجتماعی قتل کے حوالے سے چین میں 2024 کافی پریشان کُن رہا۔ سنہ 2019 سے لے کر 2023 تک ہر سال اجتماعی قتل کے ایسے تین سے پانچ واقعات رپورٹ ہوتے تھے جہاں حملہ آور اکثر راہگیروں اور اجنبیوں کو نشانہ بناتے تھے لیکن اس برس چین میں ایسے 19 واقعات رونما ہوئے ہیں۔
ژوہوئی شہر میں ایک 62 سالہ شخص نے ایک سٹیڈیم کے باہر گاڑی تلے روند کر 35 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ شخص اپنی طلاق پر ناخوش تھا۔
اس 62 سالہ شخص کو رواں ہفتے سزائے موت سُنا دی گئی ہے۔
اس حملے کے کچھ ہی دن بعد ایک پرائمری سکول کے باہر ایک شخص نے بچوں اور ان کے والدین کو گاڑی سے ٹکر ماری تھی اور اس کے نتیجے میں 30 افراد زخمی ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق ڈرائیور مالی نقصانات اور خاندانی مسائل کے سبب غصے میں تھا۔
اسی ہفتے ووشی شہر میں امتحانوں میں ناکامی کے سبب ایک 21 سالہ لڑکے نے اپنے ہی کیمپس میں چاقو کے وار سے آٹھ افراد کو ہلاک اور 17 کو زخمی کر دیا تھا۔
اس برس ستمبر میں شنگھائی کے شاپنگ سینٹر میں ایک 37 برس کے شخص نے متعدد لوگوں کو چاقوں کے وار سے زخمی کر دیا تھا۔ جون میں ایک پارک میں چار امریکی شہریوں کو ایک چاقو بردار شخص نے زخمی کر دیا تھا۔
ایسے ہی دو مختلف واقعات میں جاپانی شہریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا اور ان حملوں میں ایک سکول کے باہر ایک 10 سالہ بچہ بھی ہلاک ہوا تھا۔
پروفیسر شیک کہتے ہیں کہ حملہ آوروں نے ان حملوں میں انجان لوگوں کو اپنا ہدف بنایا تھا کیونکہ وہ ’معاشرے پر اعدم اطمینان‘ کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔
ایک ایسا ملک جس کے پاس شہریوں کی نگرانی کی بے پناہ صلاحیتیں ہوں اور جہاں رات کو خواتین چہل قدمی سے بھی ڈرتی ہوں وہاں ایسے واقعات لوگوں کے لیے مزید پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔
ان تمام واقعات نے لوگوں کو یہ سوال پوچھنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آخر چین میں اجتماعی قتل کے واقعات میں اضافے کا سبب کیا ہے؟
سست رفتار معیشت
چین میں شہریوں پر دباؤ کی سب سے بڑی وجہ ملک کی سست رفتار معیشت ہے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ چینی نوجوانوں میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور رہائش اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی بھی اسی پر خرچ ہوجاتی ہے۔
بڑے شہروں کے مضافات میں زیرِ تعمیر رہائشی منصوبوں پر کام بھی رُک چکا ہے کیونکہ رئیل سٹیٹ ڈویلپرز کے پاس ان منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے پیسے نہیں۔
سنہ 2022 میں بی بی سی نے ان عمارتوں کے باہر جھونپڑیوں میں مقیم افراد کے انٹرویو کیے تھے جو وہاں بغیر پانی اور بجلی کے رہ رہے تھے۔ یہ وہ افراد تھے جنھوں نے ان عمارتوں میں اپارٹمنٹس بُک کروائے تھے۔
آکسفرڈ یونیورسٹی کے چین سینٹر سے منسلک محقق جارج میگنس کہتے ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے (چین میں لوگوں) کہ امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔‘
’میرے خیال میں چین ایک دباؤ کے سائیکل میں پھنس چکا ہے۔ یہ معاشی دباؤ بھی ہے اور معاشرتی دباؤ بھی۔ ایسا لگتا ہے جیسے ملک کا اقتصادی ماڈل کانپ رہا ہے۔‘
حالیہ عرصے میں کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چین میں لوگوں کے رویوں میں تبدیلی آ رہی ہے اور شہریوں میں اپنے مستقبل کو لے کر ناامیدی بڑھ رہی ہے۔
چین اور امریکہ میں کیے گئے ایک مشترکہ تجزیے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ معاشرے میں غیرمساوات اکثر کوششوں اور قابلیت میں کمی کا باعث بنتی ہے۔
حالیہ سرویز میں بھی لوگ اپنی زندگیوں میں کمی کا ذمہ دار ’غیرمساوی اقتصادی نظام‘ کو قرار دیتے ہیں۔
جارج میگنس کہتے ہیں کہ ’سوال یہ ہے کہ لوگ اس سب کا ذمہ دار کسے گردانتے ہیں؟ پھر یہی ہوتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں ہمارا نظام ٹھیک نہیں، ہم اس میں کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ ہم اپنی حالت نہیں بدل سکتے۔‘
’مخالفت کے دروازے بند‘
جن ممالک میں میڈیا آزاد ہوتا ہے وہاں اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو نوکری سے غلط برخاست کیا گیا یا آپ کے گھر کو مقامی انتظامیہ کی مدد سے کرپٹ افراد نے مسمار کیا تو آپ اپنی کہانی سُنانے کے لیے صحافیوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔
لیکن چین میں لوگوں کے پاس یہ سہولت موجود نہیں کیونکہ میڈیا کمیونسٹ پارٹی کے کنٹرول میں ہے اور لوگ ایسی خبریں شائع نہیں کرتے جن کے سبب حکومت بُری نظر آئے۔
چین میں عدالتیں بھی کمیونسٹ پارٹی کے زیرِ اثر اور سست ہیں۔ ژوہوئی میں حملہ آور کے مقصد پر بھی سوشل میڈیا پر کافی قیاس آرائیاں ہو رہی تھی: ان کے ساتھ عدالت میں طلاق کی سیٹلمنٹ کے دوران شفاف رویہ نہیں اپنایا گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں شہریوں کے پاس اپنی مایوسی اور غصہ نکالنے کے لیے پلیٹ فارمز یا تو محدود ہو چکے ہیں یا پھر مکمل طور پر ختم۔
یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے منسلک سیاسیات کی پروفیسر لینیٹ اونگ کہتی ہیں کہ ’چینی شہری انٹرنیٹ پر جا کر حکومت پر غصے کا اظہار کرتے تھے یا پھر کوئی چھوٹا موٹا احتجاج کرتے تھے اور اس کی اجازت اکثر پولیس بھی دے دیتی تھی لیکن گذشتہ چند سال میں ایسی چھوٹی موٹی مخالفت کے دروازے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔‘
ایسی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں: انٹرنیٹ پر سینسرشپ یعنی کہ ایسے بیانات پر پابندی جن میں تنقید شامل ہو یا ایسی پارٹیوں پر پابندی جن میں حکومتی عہدیداران کا مذاق اڑایا جاتا ہو۔ایسی پارٹیوں میں اکثر سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد پہنچ جاتے تھے اور لوگوں کو تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں موجود کاؤنسلنگ سروس بھی غیرمعیاری ہے۔
ہانگ کانگ یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر سلویا کوک کہتی ہیں کہ ’کاؤنسلنگ کے ذریعے لوگوں میں جذباتی مزاحمت بڑھائی جا سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ چین میں ذہنی صحت کی خدمات کو بڑھانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو ذہنی امراض یا دباؤ کا شکار ہیں۔
’لوگ اپنی جذباتی کیفیت کو سنبھالنے کے لیے مختلف طریقوں کا سہارا لیتے ہیں اور اس کے سبب وہ اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے پُرتشدد طریقوں کا سہارا کم لیتے ہیں۔‘
ان تمام باتوں کو سُن کر ایسا لگتا ہے جیسے چینی معاشرہ شدید دباؤ کے سبب ایک ’پریشر کُکر‘ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
جارج میگنس کہتے ہیں کہ ’یہاں زیادہ لوگ اجتماعی قتل نہیں کرتے پھر رہے لیکن یہاں تناؤ ضرور بڑھ رہا ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ مستقبل قریب میں اس میں کسی طریقے سے کوئی کمی آئے گی۔‘
چین کی کمیونسٹ پارٹی کو عام عوام کے جذبات سے پریشان ضرور ہونا چاہیے۔
مثال کے طور پر یہ بیان پڑھیں کہ ’اگر حکومت انصاف اور شفافیت سے کام کرے تو چینی معاشرے میں اتنا غصہ اور بے چینی نہیں ہو گی۔ حکومت کی تمام تر کوششیں ایک مصنوعی اتحاد دکھانے پر صرف ہو رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ مظلوموں کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن درحقیقت وہ بے انصافی کا سبب بن رہے ہیں۔‘
پروفیسر اونگ کہتی ہیں کہ ملک میں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن چینی حکام ایسے واقعات پر قابو پانے کا تجربہ نہیں رکھتے۔
’میرے خیال میں حکام اس لیے زیادہ پریشان ہیں کیونکہ انھوں نے ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی اور وہ اس پر قابو پانے کے لیے بھی کریک ڈاؤن کا سہارا لے رہے ہیں۔‘
جب چینی صدر شی جن پنگ نے ژوہوئی حملے پر بات کی تھی تو انھوں نے یہ تسلیم کیا تھا کہ ملک میں تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انھوں نے حکام سے درخواست کی تھی کہ وہ ’ایسے واقعات سے سبق سیکھیں، ان کی جڑیں تلاش کریں، تنازعات اور مسائل کو حل کریں اور جرائم کو روکنے کے لیے پیشگی اقدامات لیں۔‘
لیکن ان تمام واقعات سے حاصل کیا گیا سبق فی الحال یہی نظر آتا ہے کہ پولیس نے لوگوں کی نگرانی میں اضافہ کر دیا۔
پروفیسر اونگ کہتی ہیں کہ ’چین اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے اور یہ ایسا مرحلہ ہے جو 1970 کی دہائی کے بعد نہیں دیکھا گیا۔‘ ان کا مطلب یہ ہے کہ چین اپنے دروازے دنیا کے لیے ایک بار کھول رہا ہے اور یہ بڑی تبدیلی ہے۔
’ہمیں غیرمتوقع واقعات کے لیے تیار رہنا چاہیے جیسے کہ ایسے ہی حملے یا چھوٹے موٹے احتجاج اور معاشی عدم استحکام۔‘