چرچل نے اپنے وزیر خارجہ انتھونی ایڈن کو ایک خط میں پوچھا کہ ایران کے لیے اب ’پرشیا‘ کا نام کیوں استعمال نہیں کیا جاتا؟
سنہ 1941 میں جب دوسری عالمی جنگ کی آگ تیزی سے پھیل رہی تھی تو برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کے ذہن میں ایک اہم سوال اُبھر رہا تھا۔
چرچل نے اپنے وزیر خارجہ انتھونی ایڈن کو ایک خط میں پوچھا کہ ایران کے لیے اب ’پرشیا‘ کا نام کیوں استعمال نہیں کیا جاتا؟
2500 سال قبل جب یونانیوں کا سامنا طاقتور ہخامنشی فوج سے ہوا تب سے مغربی دنیا کے لوگ اس سرزمین کے لیے ’پرسیس‘ کا نام استعمال کرتے تھے۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں سے ان حکمرانوں نے اپنی فوجیں سرحدوں کی جانب روانہ کیں۔ یہ نام ’پارس کی سرزمین‘ کی طرف اشارہ کرتا تھا۔
پرسیس لاطینی زبان میں ’پرشیا‘ میں تبدیل ہو گیا اور طویل عرصے تک یورپی ممالک ایران کے لیے اسی نام کا استعمال کرتے رہے۔
یونانیوں نے ’پرسیس‘ کا استعمال اس لیے کیا کیونکہ ہخامنشی خاندان کے بادشاہ پارس میں مقیم تھے جو موجودہ فارس اور خوزستان کے صوبوں پر مشتمل تھا۔
یہ اس کے باوجود تھا کہ ہخامنشی ایک وسیع سلطنت پر حکمرانی کر رہے تھے جس کی سرحدیں پارس سے کہیں آگے تک پھیلی ہوئی تھیں۔
نئے ایران کی بنیاد
رضا شاہ کی بادشاہت کے آغاز کے آٹھ سال بعد 1934 میں ایران کی بین الاقوامی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے نئی حکومت نے مغربی ممالک سے درخواست کی کہ وہ اس ملک کے لیے ’پرشیا‘ کا استعمال بند کریں۔
ایرانی وزارت خارجہ نے 27 دسمبر 1934 کو تہران میں غیر ملکی سفارت خانوں کو ایک نوٹ بھیجا جس میں ان سے کہا گیا کہ اپنی حکومتوں کو مطلع کریں کہ نئے شمسی سال کے آغاز سے ’پرشیا‘ کی جگہ ’ایران‘ کا نام استعمال کیا جائے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے ’پرشیا‘ یا ’پارس‘ کے دیگر متبادل ناموں کو ’تاریخی غلطی‘ قرار دیا اور اس کی وجہ یونانی مورخین کی غلط ترجمانی کو بتایا۔
حسین علا، جو اس وقت لندن میں ایران کے سفارتکار تھے، نے اخبار ٹائمز کے مدیر کو خط لکھتے ہوئے کہا: ’ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں ہمارے حقیقی نام سے پکاریں۔ وہ نام جو ہم ہمیشہ سے استعمال کرتے آئے ہیں۔ چونکہ ہمارے ملک کا نام ایران ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اس غیر فطری حالت کو ختم کیا جائے جس میں اجنبی لوگ ہمیں ’پرشیا‘ کہتے ہیں۔‘
یہ درخواست ابتدا میں یورپی حکومتوں کی جانب سے پذیرائی حاصل نہ کر سکی۔
برطانیہ کے سفیر سر ہیو ناچبول ہوگسن نے اس مطالبے کو ’بے معنی‘ قرار دیا اور برطانیہ کی وزارت خارجہ کو ایک نوٹ میں طنزیہ انداز میں لکھا:
’میری سمجھ میں آتا ہے کہ اس معاملے کے اصل ذمہ دار یونانی مورخ ہیروڈوٹس ہیں جنھوں نے آج کے ایرانیوں کی غیر متوقع حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ملک کا حوالہ دیتے وقت مناسب ادب سے کام نہیں لیا۔‘
برطانوی حکومت کو یہ فکر لاحق تھی کہ ایران کے سرکاری نام کی تبدیلی کے بعد تہران غیر ملکی حکومتوں سے یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ خلیج فارس کو ’خلیج ایران‘ کہا جائے جس سے اس اہم آبی گزرگاہ کے جنوبی ساحلوں پر لندن کی حاکمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
برطانیہ کی ایک اور تشویش یہ تھی کہ ’ایران اور انگلینڈ آئل کمپنی‘ کے نام کی وضاحت، فوجی نقشوں اور سرکاری دستاویزات میں تبدیلی کی ضرورت پیش آئے گی۔
ناچبول ہوگسن نے لندن کو یہ بھی اطلاع دی کہ تہران میں ان کے جرمن ہم منصب بھی اس فیصلے کے بارے میں پرامید نہیں ہیں۔
دریں اثنا کچھ افواہیں یہ بھی گردش کر رہی تھیں کہ رضا شاہ نے ہٹلر کے مطالبے پر اپنے ملک کو ’ایران‘ کہنے پر زور دیا ہے کیونکہ وہ جرمنی کی طرح ایران کے ’آریائی‘ ہونے پر زور دینا چاہتے تھے۔
لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔
ماضی کی پسماندگی سے دوری
ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے اپنے سفیروں کو بھیجے گئے ایک حکمنامے میں ’ایران‘ استعمال پر زور دینے کی دو وجوہات بیان کی گئی تھیں۔
اس حکمنامے میں لکھا تھا کہ ’پرشیا‘ قاجاری دور میں ملک کی کمزوری، پسماندگی، عدم خودمختاری اور انتظامی بدنظمی کی علامت تھا۔ چونکہ رضا شاہ کی سلطنت کو آٹھ سال ہو چکے تھے اس لیے یہ نام ملک کی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھا۔
وزارت خارجہ نے اس سرزمین کو آریائی نسل کا گہوارہ بھی قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ جب یورپ کے طاقتور ممالک آریائی نسل کا استعمال کر رہے ہیں تو ایران کو بھی اس نام پر زور دینا چاہیے۔
چند تاریخی کتابوں میں سعید نفیسی، جو رضا شاہ کے قریبی مشیر اور ادیب و محقق تھے، کو ایران کے نام کی تبدیلی کے منصوبے کا بانی قرار دیا گیا ہے۔
تاہم وزارت خارجہ کے حکمنامے کے مطابق سب سے پہلے برلن میں ایرانی سفارت خانہ نے یہ تجویز پیش کی تھی، جسے وزارت خارجہ نے منظور کیا اور اعلیٰ حکام نے اس کی تائید کی۔
نسلی لوگوں کی سرزمین
ایران کو ’مردم آریائی اور معزز لوگوں کی سرزمین‘ کہا گیا ہے۔
جو علاقے آج ایران کہلاتے ہیں، ان کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ اس کی سرحدیں نہ صرف ایران تک محدود ہیں بلکہ افغانستان، وسطی ایشیا، قفقاز، مشرقی اناطولیہ اور عراق کے کچھ حصوں تک بھی پھیلی ہوئی ہیں۔
علمی کتابوں میں بھی ’ایرانی قوم‘ اور ’ایرانی زبانوں‘ کی اصطلاحات کا جغرافیائی دائرہ آج کے ایران کے سیاسی جغرافیے سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
تاریخ دان خداداد رضاخانی کہتے ہیں کہ ایران کا نام ’ایر‘ کے لفظ سے آیا ہے اور اس کا مطلب ہے ’مردم ایر کی سرزمین‘۔
ان کے مطابق حالیہ صدیوں میں ایران کو ’پرشیا‘ کے نام سے پکارنا غلط مغربی ترجمے کا نتیجہ ہے کیونکہ یونانی مورخین نے ’پارس کی سلطنت‘ کا ترجمہ ’پارس کے بادشاہ‘ کے طور پر کیا۔
رضا خانی کے مطابق ہخامنشی اور اشکانی دور میں اس سلطنت کے لیے کسی مخصوص نام کا ذکر نہیں ملتا لیکن سب سے پہلے اردشیر بابکان کی سلطنت کے دور میں ان کا ’شہنشاہ ایران‘ کے طور پر ذکر کیا گیا۔
مزید یہ کہ رضا خانی کے مطابق ساسانی دور میں پہلی بار ’ایرانشہر‘ کا لفظ استعمال کیا گیا تھا جس کا مطلب ہے ’ایر لوگوں کی سرزمین۔‘
بعد میں ساسانی سلطنت کے کچھ بادشاہوں نے اپنے آپ کو ’ایران اور غیر ایران کے بادشاہ‘ کے طور پر پکارا۔
ایر کے ماخذ اور معنی کے بارے میں مختلف آرا پیش کی گئی ہیں۔
کچھ محققین کا کہنا ہے کہ ’ایر‘ کا مطلب آریائی ہے جبکہ دیگر محققین کے مطابق یہ لفظ اس سرزمین کے لوگوں کی نسل کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔
خداداد رضاخانی کہتے ہیں: ’کچھ محققین کا ماننا ہے کہ ایر ان افراد کے لیے استعمال ہوتا تھا جو اس سرزمین میں زرتشتی مذہب کے پیروکار تھے اور ان لوگوں کو ’انیر‘ کہا جاتا تھا جو اس مذہب کے ماننے والے نہیں تھے۔‘
وہ ایک اور نظریے کا ذکر کرتے ہیں جس کے مطابق ایر ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جن کی تاریخی یادداشت مشترکہ تھی جو ایرانی تاریخی روایات پر مبنی اور اوستا سے ماخوذ تھی۔ اس کی ایک مثال فردوسی کے شاہنامہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ایر کے لفظ کا استعمال اس سرزمین کے لوگوں کی خصوصیات کے حوالے سے اردشیر بابکان کے دور کے سکوں پر ’ایران‘ کے نام کے نقش ہونے سے بھی پرانا ہے۔
رضاخانی کے مطابق دارا (داوریس) نے خود کو ’ایک ہخامنشی، ایک پارسی، اور ایک ایر‘ کے طور پر پیش کیا تھا اور بیستون کتبے میں اپنے ملک کے لوگوں کی زبان کے لیے ایر کا لفظ استعمال کیا تھا۔
اسلام کے بعد بھی اس سرزمین کے لوگ خود کو ’ایران‘ اور ’ایرانی‘ کے نام سے متعارف کرواتے تھے۔
سامانیوں اور آل بویہ سے لے کر غزنوی ترکوں تک مختلف حکمران اور بادشاہ خود کو ساسانیوں کے شاندار دور کے وارث سمجھتے تھے۔
شاعروں، خصوصاً فردوسی، نے ایران کے نام کو بلند رکھنے کی کوشش کی۔
جب اناطولیہ میں عثمانی سلطنت کی تشکیل ہوئی تو عثمانی سلاطین بھی اپنے پڑوسیوں کو ’ایرانی‘ کے نام سے پکارتے تھے۔
سلطان محمد فاتح نے اپنے خط میں اوزون حسن کو شہنشاہ ایران کہا۔
صفوی سلطنت کے قیام اور ساسانی دور کی مشابہ جغرافیائی یکجہتی کی بحالی کے ساتھ صفوی بادشاہ، جیسے شاہ عباس، خود کو ایران کا بادشاہ کہتے تھے۔
نادر شاہ افشار بھی خود کو ایران کا بادشاہ مانتے تھے اور قاجار سلطنت کے قیام کے ساتھ ’ایران‘ کا نام اس ملک کے سرکاری نام کے طور پر مستحکم ہو گیا۔
تاہم یورپی حکومتیں اب بھی ایران کو ’پرسیس‘ یا ’پرشیا‘ کے نام سے پکارتی رہیں۔
’پرشیا لکھیں، ایران پڑھیں‘
جب چرچل نے پرشیا کا نام ایران میں تبدیل کرنے کی وجہ پوچھی، تو اس کے پیش نظر ایک خاص تشویش تھی۔
انھیں ڈر تھا کہ دوسری عالمی جنگ میں ایران اور عراق کے ناموں کی انگریزی زبان میں مشابہت کی وجہ سے دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ الجھایا جا سکتا ہے۔
لہٰذا انھوں نے برطانوی وزارت خارجہ کو ہدایت دی کہ اندرونی خط و کتابت اور سرکاری دستاویزات میں ’پرشیا‘ کا استعمال کیا جائے لیکن ایرانی حکومت کے ساتھ خط و کتابت میں ایران کا وہی نام استعمال کیا جائے جو ایران خود پسند کرتا تھا۔
اس حکم کے تین ہفتے بعد 3 ستمبر 1941 کو سوویت اور برطانوی افواج نے شمال اور جنوب سے ایران پر حملہ کیا اور یہ ملک اتحادیوں کے قبضے میں چلا گیا۔