بوئنگ کا بدترین سال: سنگین حادثات اور ’منافع کو تحفظ پر ترجیح‘ جیسے الزامات کے بعد کیا بوئنگ کی معجزاتی واپسی ممکن ہے؟

یہ بوئنگ کے لیے ایک انتہائی برا سال رہا ہے۔ نہ صرف اس کمپنی کو تحفظ اور کوالٹی کنٹرول کے حوالے سے بحران سے گزرنا پڑا ہے بلکہ اپنی دو سب سے بڑی فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کی جانب سے کی گئی ہڑتالوں کے باعث کمپنی اب تک اربوں ڈالرز کا نقصان کر چکی ہے۔
A treated image of a Boeing 737 Max
BBC

یہ بوئنگ کے لیے ایک انتہائی برا سال رہا ہے۔ نہ صرف اس کمپنی کو تحفظ اور کوالٹی کنٹرول کے حوالے سے بحران سے گزرنا پڑا ہے بلکہ اپنی دو سب سے بڑی فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کی جانب سے کی گئی ہڑتالوں کے باعث کمپنی اب تک اربوں ڈالرز کا نقصان کر چکی ہے۔

یہاں تک کہ اس کا خلائی پروگرام بھی مشکلات سے دوچار رہا ہے۔ جون میں دو خلاباز اس وقت انٹرنیشنل سپیس سٹیشن پر پھنس گئے تھے جب ان کے بوئنگ سٹارلائنر میں ایسی ممکنہ خرابیوں کے بارے میں معلوم ہوا تھا جن کے باعث اس کی زمین پر واپسی انتہائی خطرناک ہو گئی تھی۔

لیہم کمپنی میں ایروناٹیکل اور معاشی ماہر یارن فہرم کا کہنا ہے کہ اس سب کے علاوہ کمپنی میں اعتماد کا فقدان بھی موجود ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'بوئنگ میں کام کرنے والوں نے کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں کے الفاظ کا یقین کرنا چھوڑ دیا ہے۔'

سیم موہاک ایک 51 سالہ بوئنگ سیئیٹل کے قریب موجود رینٹن فیکٹری میں کوالٹی اشورنس انویسٹیگیٹر ہیں۔ یہ وہ وسیع و عریض پلانٹ ہے جہاں 737 میکس بنائے جاتے ہیں۔ یہ کمپنی کا سب سے زیادہ بکنے والا طیارہ ہے لیکن اس سیفٹی ریکارڈ زیادہ اچھا نہیں ہے۔

Boeing workers picket outside a Boeing facility during a strike
Reuters

رواں سال موہاک ایک وسل بلوئر (انکشافات کرنے والا) کے طور پر سامنے آئے تھے اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ کووڈ 19 کے بعد کے سالوں میں فیکٹری میں افراتفری کے باعث ہزاروں ایسے خراب یا 'غیر معیاری' پرزے غائب ہو گئے یا ممکنہ طور پر ایسے طیاروں میں نصب کر دیے گئے جنھیں اب خریداروں کو بیچا جا چکا ہے۔

انھوں نے اس عرصے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'اس وقت پورا نظام ہی درہم برہم تھا۔ اس وقت (یہ نظام) ناکارہ ہو چکا تھا۔'

ان کے یہ دعوے جون میں منظرِ عام پر آئے جب ان کا ذکر بوئنگ میں تحفظ کے حوالے سے ناکامیوں کے بارے میں واشنگٹن ڈی سی میں ایک کانگریشنل سماعت کے دوران ہوا۔

اس سماعت کے دوران بوئنگ کے اعلیٰ عہدیداروں پر ریپبلکن سینیٹر جاش ہالی کیجانب سے کمپنی میں منافع کے لیے تحفظ پر سمجھوتہ کرنے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

ڈیوڈ کیلہان جو اس وقت بوئنگ کے چیف ایگزیکٹو تھے نے کہا تھا کہ وہ جاش ہالی کی جانب سے بنائے گئے کمپنی کے خاکے کو 'نہیں پہچانتے۔'

انھوں نے جواباً کہا تھا کہ 'ہم اس طرح کام نہیں کرتے اور ان تمام اقدامات پر فخر محسوس کرتے ہیں جو ہم لے چکے ہیں۔'

David Calhoun pictured in a suit and tie
Getty Images

اس کے بعد سے بوئنگ کی جانب سے ایک نئے چیف ایگزیکٹو کیلی اورٹبرگ تعینات کیے گئے جنھوں نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ کاروبار میں 'اعتماد کو بحال' کریں گے، کارپوریٹ کلچر کو تبدیل کریں گے اور مسافروں کے تحفظ کو ترجیح دیں گے۔

کمپنی کی جانب سے ایک جامع سیفٹی اور کوالٹی پلان بھی مرتب کیا جا رہا ہے جس کا لانچ اسی سال کیا گیا تھا۔

تاہم موہاک کے مطابق، جو آج بھی بوئنگ میں کام کرتے ہیں، منافعے بڑھانے کے لیے طیاروں کو تیز رفتاری سے بنانے کی جستجو اب بھی موجود ہے۔ وہ زور دیتے ہیں کہ آج بھی اکاؤنٹنٹس ہی آپریشن چلا رہے ہیں۔

موہاک کہتے ہیں کہ 'کچھ بھی نہیں بدلا، ہمارے اعلیٰ عہدیدار آج بھی میڈیا سے بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معیار اور تحفظ ہماری پہلی ترجیح ہے لیکن اب بھی سب کچھ ویسا ہی ہے۔'

بوئنگ کی جانب سے موہاک کے دعوؤں کی تردید کی گئی ہے۔ کمپنی زور دیتی ہے کہ ان کی انتہائی باریکی سے تفتیش کی گئی ہے اور ان (دعوؤں) میں سے کچھ بھی سچ ثابت نہیں ہوا۔ ایک بیان میں کمپنی کا کہنا تھا کہ 'بوئنگ ڈیٹا سسٹمز پرزوں کو ٹریک کرتا ہے جن میں ایسے پرزے بھی شامل ہیں جو موزوں نہیں ہوتے۔ موہاک کے دعوؤں کے حوالے سے کی گئی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ اس حوالے سے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں کہ ناکارہ پرزے بوئنگ کے طیاروں میں نصب کیے گئے ہیں اور اجاگر کیے گئے مسائل میں سے کوئی بھی تحفظ سے متعلق نہیں ہے۔'

A close-up image of a Boeing 737 aircraft on the left and a photo of Sam Mohawk on the right
Alamy

ایک اور بوئنگ کے ملازم نیتھن (فرضی نام) جو واشنگٹن میں کمپنی کی ایوریٹ فیکٹری میں کام کرتے ہیں جہاں بوئنگ 777 بنایا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں سٹاف کا مورال پست ہے اور طیارہ بنانے کے دوران قواعد کا لحاظ نہیں کیا جا رہا ہے۔

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 'ملازمین اکثر قواعد کی پاسداری نہیں کرتے کیونکہ انھیں اپنے مینیجر سے دباؤ محسوس ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات نہیں اٹھاتے۔'

تاہم مائیک ڈنلاپ ایروسپیس انڈسٹری میں ماضی میں کام کر چکے ہیں اور ایک ایسی کتاب کے مصنف ہیں جس میں ناکام ہوتے کاروباروں کو کامیاب بنانے سے متعلق بات کی گئی ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بوئنگ نے بنیادی کاموں پر توجہ دینے کے بعد سے خود کو تبدیل کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ بوئنگ کے اکثر مسائل ماضی میں کمپنی کی مینجمنٹ کے غرور سے جڑے ہیں کیونکہ اس وقت وہ اخراجات کم کر کے زیادہ پیسے بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے مطابق حال ہی میں اس حوالے سے کچھ بہتری آئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'میں نے سنہ 1960 کے بعد سے کمپنی میں سب سے بڑی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ کیلی اورٹبرگ بنیادی اصولوں پر توجہ مرکوز کروا رہے ہیں کہ آپ طیاروں کو تحفظ اور مہارت سے بنائیں اور ایئرلائنز کے لیے ایک قابلِ اعتماد سپلائر بن جائیں۔'

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مارکیٹ کے لیے بوئنگ کا صحت مند رہنا ضروری ہے۔ یہ ایک بڑی کمپنی ہے جس میں ڈیڑھ لاکھ افراد براہ راست نوکری کرتے ہیں اور ان گنت لوگ اس کی دنیا بھر میں اس کی سپلائی چین کا حصہ ہیں۔ یہ امریکی معیشت میں حصہ دار ہے۔ تاہم کمپنی میں موجود لوگوں کا ماننا ہے کہ اب اس کا مسئلہ اس کی ساکھ کا ہے اور اس اعتماد بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

طیاروں کے حادثے اور بوئنگ 737 میکس

بوئنگ کی اس سال کی مشکلات کا آغاز ایک معمول کی فلائٹ سے ہوا جو اوریگن کے پورٹلینڈ انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اونٹاریو کیلیفورنیا جا رہی تھی۔ الاسکا ایئرلائنز کا نیا بوئنگ 737 میکس نے چند منٹ پہلے ہی پرواز بھری تھی اور اب یہ آہستہ آہستہ بلندیوں کی جانب بڑھ رہا تھا جب کچھ بہت برا ہو گیا۔

16 ہزار فٹ کی بلندی پر جب بحران گہرا ہونے لگے تو ایک خاتون کی آواز میں ریڈیو میں سنائی دی: ’ہاں ہم نیچے جانا چاہیں گے۔ الاسکا 1282 ایمرجنسی کا اعلان کر رہی ہے۔۔۔ ہم 10 ہزار فٹ پر واپس جا رہے ہیں۔۔۔ ہم ڈی پریشرائزڈ ہو چکے ہیں۔‘

A part of a plane being inspected by an employee in a yellow high-vis jacket
Reuters

کچھ ہی لمحے پہلے فرسٹ آفیسر ایملی وپرڈ ایئر ٹریفک کنٹرول کو معمول کے پیغامات بھیج اور وصول کر رہی تھیں جب ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی، ہوا کا تیز جھونکا طیارے میں داخل ہوا اور ان کا ریڈیو ہیڈ سیٹ ٹوٹ گیا۔ طیارے میں ہوا کا دباؤ کم ہونے لگا، اور درجہ حرارت بھی۔

وپرڈ اور کپتان نے فوراً ہی آکسیجن ماسک پہنے اور پھر مل کر اطمینان مگر تیزی سے کام کرنے لگے تاکہ طیارے کو زمین پر لا سکیں۔

جو واقعہ رونما ہوا تھا وہ انتہائی خؤفناک تھا۔ نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کی تحقیقات کے مطابق جب طیارہ مزید بلندی پر جا رہا تھا تو ایک غیر استعمال شدہ ایمرجنسی خارجی دروازے کی جگہ نصب پینل اپنی جگہ پر ٹھیک سے نصب نہ ہونے کی وجہ طیارے سے علیحدہ ہو گیا۔

کیونکہ مسافروں نے ابھی تک سیٹ بیلٹ نہیں اتاری تھی اس لیے کوئی بھی زخمی نہیں ہوا۔ تاہم جیسے تحقیق کرنے والے کہہ چکے ہیں، حادثہ اس سے بہت زیادہ برا ہو سکتا تھا۔

یہ واقعہ اس لیے بھی زیادہ اہمیت کا حامل تھا کیونکہ بوئنگ 737 میکس کمپنی کا نیا طیارہ تھا اور اس کی تاریخ کا سب سے زیادہ بکنے والا ماڈل بھی۔

سروس میں داخلے کے بعد سے اب تک 1600 سے زیادہ طیارے ایئرلائنز کو فروخت کیے جا چکے ہیں اور مزید 4800 کا آرڈر تیار ہو رہا ہے۔ تاہم اس واقعے سے بھی پہلے اس کا سیفٹی ریکارڈ خراب ہو چکا تھا۔

Plane debris lies on a field
European Pressphoto Agency

سنہ 2018 کے اواخر میں انڈونیشیا کے ساحلوں کے قریب ایک طیارہ سمندر میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس کے ٹھیک چار ماہ بعد ایک اور طیارہ ایتھوپیا سے پرواز بھرنے کے چند منٹ بعد حادثے کا شکار ہو کر کریش ہو گیا۔ ان دو حادثوں میں کُل 346 افراد ہلاک ہو گئے۔

دونوں حادثوں کی وجہ ایک فلائٹ کنٹرول سافٹ ویئر پر آئی جس کا ڈیزائن بہت خراب تھا۔ اسے نئے طیارے میں اس لیے نصب کیا گیا تھا تاکہ پائلٹس کو مہنگی ٹریننگز نہ کروانی پڑیں۔

تحقیق کرنے والوں کے مطابق تاہم یہ غلط موقع پر ایکٹو ہو گیا اور دونوں ہی طیاروں کے اچانک نیچے کی جانب اچانک غوطہ لگانے کا باعث بنا۔

کیا خرچے کم کرنے کی وجہ سے تحفظ کو فراموش کیا گیا؟

کچھ ناقدین کا ماننا ہے کہ حادثے اس لیے ہوئے کیونکہ کمپنی کی توجہ اخراجات کم کرنے پر تھی نہ کہ تحفظ پر۔ ایک بیان میں فاؤنڈیشن فار ایوی ایشن سیفٹی کے چیئرمین اور بوئنگ سابق وسل بلوئر ایڈ پیئرسن کا کہنا تھا کہ ’صرف شیئر کی قیمت اور منافع پرتوجہ ایک غلط حکمتِ عملی ثابت ہوئی ہے۔‘

ان حادثوں کے بعد 737 میکس طیاروں کو 20 ماہ تک گراؤنڈ کیا گیا اور اس دوران ریگلولیٹرز نے اس کے ڈیزائن کے ہر پہلو کا جائزہ لیا۔

کمپنی کو اس کے کارپوریٹ کلچر کے حوالے سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ستمبر 2020 میں شائع ہونے والی ایک کانگریشنل رپورٹ کے مطابق بوئنگ کی جانب سے نئے طیاروں کو جلد از جلد بنانے کی دوڑ اور اس کے دوران اخراجات کم کرنے کی کوشش نے ’پروازیں استعمال کرنے والی عوام کے تحفظ کو داؤ پر لگا دیا۔‘ تاہم اس رپورٹ کو ایک اہم ریپبلکن رہنما کی جانب سے ’جانبدار‘ قرار دیا گیا تھا۔

The blown-out fuselage panel on the Boeing 737 Max aircraft
EPA

تاہم پورٹ لینڈ میں ہونے والا حادثہ دراصل بوئنگ کے انجینیئرز کی دروازے کے پینل کو پیچ صحیح طرح سے نہ کسنے کے باعث رونما ہوا۔یہ دروازہ مرمت کے لیے اس سے پہلے طیارے سے نکالا گیا تھا۔ تاہم اس نے کمپنی کو ایک بار پھر سپاٹ لائٹ میں لا کھڑا کیا۔

خاص طور ہر اس کے باعث کوالٹی کے ایسے مسائل کی جانب توجہ جانا شروع ہوئی جو پسِ پردہ رونما ہو رہے تھے نہ صرف کمپنی کی فیکٹریوں میں بلکہ اس کے مرکی سپلائر سپرٹ ایروسسٹمز میں بھی۔

ان میں طیارے کی مرکزی باڈی، دم، رڈر اسمبلیز اور دیگر تحفظ کے طریقہ کار میں خامیاں شامل ہیں جو طیارے کے مرکزی فیول ٹینک کو آسمانی بجلی سے بچاتے ہیں۔

تاہم اس حادثے نے ایک بار پھر کمپنی کے اندر سے انکشاف کرنے والوں کے دعوؤں پر بھی توجہ دلائی جو یہ کہہ رہے تھے کہ بوئنگ کی جانب سے نئے طیارے جلدی تیار کرنے کے حوالے سے دباؤ اور پیداوار بڑھانے کی کوشش کے باعث 737 اور 787 کا تحفظ داؤ پر لگا دیا گیا۔

People with placards sit behind then-Boeing CEO, David Calhoun
EPA

دو دیگر وسل بلوئرز جان بارنیٹ جنھوں نے بوئنگ کی 787 کی جنوبی کیرولائنا کی فیکٹری میں کام کیا تھا اور جاش ڈین جو سپرٹ (بوئنگ کی سپلائر کمپنی) میں ملازم تھے کی اچانک وفات ہو گئی اور اس کے باعث بھی سنہ 2024 میں بوئنگ شہ سرخیوں کی ذینت بنتا رہا۔ اس کے باعث بوئنگ کی کہانی خبروں کا ایک بار پھر حصہ بن گئی۔

امریکی سیاست دانوں نے اس بارے میں اپنے خیالات کا واضح انداز میں اظہار کیا۔ سینیٹ کی سب کمیٹی برائے انوسیٹیگیشن رچرڈ بلومینتھال نے کہا کہ ’بوئنگ نے منافع اور پیداوار کی رفتار کو کوالٹی اور تحفظ پر ترجیح دی ہے اور اس کی موجودہ مشکلات کی مرکزی وجہ یہی ہے۔‘

ہڑتال جس سے ’بوئنگ کو 5.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا‘

پورٹ لینڈ حادثے کے بعد بوئنگ کو امریکی محکمۂ ٹرانسپورٹیشن سے حکم ملا کہ وہ ایک جامع ایکشن پلان وضع کرے ’تاکہ نظام میں موجود کوالٹی کنٹرول اور پیداوار کے مسائل کا حل نکالا جاسکے۔‘

بوئنگ نے اس کے ردِ عمل میں ایک تفصیلی حکمتِ عملی شائع کی جس کا مقصد پیداواری نظام کو بہتر کرنا، سپلائی چین پر مزید کنٹرول حاصل کرنا اور ملازمین کو سیفٹی اور کوالٹی کنٹرول کے مسائل پر بولنے کے لیے حوصلہ افزائی دینا شامل تھا۔

اس نے اپنے ٹریننگ پروگرامز کو بہتر کرنے کا بھی وعدہ کیا اور پروڈکشن لائن میں مختلف اہم مراحل کا طریقہ کار بدلا۔

Close-up of a Boeing aircraft
Reuters

یکم جولائی کو بوئنگ نے سپرٹ کے ساتھ معاہدہ کیا تاکہ وہ اس کا کنٹرول حاصل کر سکے اور کوالٹی کے مسائل کا حل نکال سکے۔

کمپنی کے اعلیٰ عہدوں پر بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ کالہون جو انڈیونیشیا اور ایتھیوپیا کے طیارہ حادثوں کے بعد چیف ایگزیکٹو بنے تھے، اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے اور ان کی جگہ ایک تجربہ کار انجرینیئر اورٹبرگ نے لی جو اس صنعت میں دہائیوں سے کام کر رہے ہیں۔

تاہم ان کی تعیناتی کے چند ہفتوں بعد بوئنگ کو مزید بحران کا سامنا کرنا پڑا جب 30 ہزار سے زیادہ یونین ورکرز جن میں سے زیادہ تر واشنگٹن میں کمپنی کے مرکزی یونٹ میں کام کر رہے تھے نے ہڑتال پر جانے کا اعلان کر دیا کیونکہ انھیں ایک نئے چار سالہ کانٹریکٹ سے مسائل تھے اور اس بات پر بھی کہ بوئنگ ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں کتنا اضافہ کرے گا۔

یہ ہڑتال سات ہفتے جاری رہی اور اس کے باعث 737 میکس، 777 اور 767 مال بردار طیارے کی پروڈکشن رکی رہی۔

Boeing workers picket outside a Boeing facility during a strike
Getty Images

ماضی میں کمپنی کو ایک مضبوط پوزیشن سے مذاکرات کرنے کی عادت تھی تاہم اس مرتبہ اس کی پوزیشن خاصی کمزور تھی اور ہارن فہرم کے مطابق ملازمین بدلا لینا چاہتے تھے۔

وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’یہ واضح تھا کہ ماضی کی مینجمنٹ نے ان کے ساتھ بہت برا کیا ہے۔ یہ سوچ پائی جاتی تھی۔ انھیں بہت برا لگ رہا تھا جس طرح ان کے ساتھ ماضی کے کانٹریکٹ میں سلوک کیا گیا۔‘

اس کا نتیجہ ایک تلخ تنازع کے طور پر نکلا ایک ایسے وقت میں جب کمپنی ایک نیا ورکنگ کلچر بنانا چاہ رہی تھی اور اورٹبرگ نے اپنے ملازمین سے رشتہ ’نئے سرے‘ سے استوار کرنے کا وعدہ کر رکھا تھا۔

بوئنگ کو ان ملازمین کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے بہت کوشش کرنا پڑی جس میں اگلے چار سالوں میں تنخواہ میں 38 فیصد اضافہ شامل تھا۔ کنسلٹنٹ اینڈرسن اکنامک گروپ کے مطابق اس ہڑتال کے باعث کمپنی کو 5.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

ایئربس بمقابلہ بوئنگ

یہ سب ایک ایسے وقت پر ہو رہا تھا جب بوئنگ کو پہلے سے ہی مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ سنہ 2024 کے پہلے نو ماہ کے دوران اس کے خسارے کا تخمیہ 8 ارب ڈالر لگایا گیا۔ اس کے نتیجے میں کمپنی نے 17 ہزاروں نوکریاں ختم کرنے کا اعلان کیا۔

بوئنگ کے مسائل نے اس کے کاروبار پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ جہاں ایک وقت وہ تھا جب بوئنگ اپنے یورپی حریف ایئربس سے مقابلہ کرتی تھی اب اس کے مقابلے میں گذشتہ پانچ برسوں میں اس نے کم طیارے بیچے ہیں۔

فورکاسٹ انٹریشنل کے مطابق سنہ 2024 کے پہلے نو ماہ میں اس نے 291 طیارے ایئرلائنز تک پہنچائے جبکہ ایئر بس نے اس عرصے میں 497 طیارے پہنچائے۔

بوئنگ سے طیارے خریدنے والی ایئرلائنز کے لیے یہ خاصا مایوس کن سال رہا ہے۔ ریان ایئر جو 737 میکس کے سب سے بڑے خریداروں میں سے ہے نے اگلے سال کی گروتھ فورکاسٹ کو کم دکھایا ہے۔ امریکہ میں ساؤتھ ویسٹ ایئرلائنز نے ملازمین کو نوکریوں سے برخواست کیا ہے۔

A Boeing 737 MAX aircraft being assembled
Reuters

تاہم اس سب کے باوجود بھی ایئربس اس صورتحال کا مکمل فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ان کی اپنی آرڈر بکس بھر چکی ہیں اور ان کے بیک لاگ میں 8700 طیارے باقی ہیں جن کی ڈیلیوری ہونی ہے۔ بوئنگ کی طرح اسے بھی سپلائرز کا مسئلہ رہا ہے۔

اس دوران ایئرلائنز کو تو نئے طیارے چاہییں۔ بوئنگ اور ایئربس کے اندازوں کے مطابق اگلی دو دہائیوں میں ایئرلائنز کو 40 ہزار طیارے درکار ہوں گے۔

موجودہ جنریشن کے طیارے ماضی کے طیاروں سے زیادہ سستے اور کارکردگی میں بہتر ہیں۔ اس لیے اپنی طیاروں کی کھیپ میں نئے طیارے شامل کرنے میں دیر کرنے کے باعث ٹکٹ کی قیمت میں اضافہ ہو گا اور ان کی موسمیاتی تبدیلی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پرفارمنس میں بہتری بھی متاثر ہو گی۔

فہرم کے مطابق یہ صورتحال ایک تیسرے بڑے کھلاڑی کی اس مارکیٹ میں انٹری کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ’اگلے پانچ سے 10 سالوں میں مارکیٹ کی طلب اور ایئر بس اور بوئنگ کیا دے سکتے ہیں اس میں ایک خلیج دکھائی دے گی۔

’اس لیے اس میں تیسرے کھلاڑی کے لیے جگہ ہے۔ برازیلین مینوفیکچرر ایمبریئر ایک ممکنہ کھلاڑی ہو سکتا ہے، یا یہ چینی سپلائر کومیک کے لیے بھی ایک موقع ہے کہ وہ ایک مختلف مارکیٹ میں آئے اور دکھائے کہ وہ کیا کر سکتا ہے۔‘

’معجزاتی‘ واپسی ممکن ہے؟

دسمبر کے اوائل میں مائیک وہٹیکڑ جو ایف اے اے کے منتظم ہیں نے سیئیٹل کے قریب رینٹون میں بوئنگ کی فیکٹری کا دورہ کیا جس کے بارے میں موہاک کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس موقع پر وہٹیکڑ کا کہنا تھا کہ ’جس چیز کی اصل میں ضرورت ہے وہ کلچرل شفٹ ہے جو تحفظ، کوالٹی میں بہتری اور ملازمین کے ساتھ بہتر انداز میں بات چیت اور ٹریننگ پر مبنی ہو۔‘

’توقع کے عین مطابق بوئنگ کے اپنے جامع منصوبے کو عملی شکل دینے میں مثبت پیش رفت واضح ہے اور ہم ان نتائج کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہوں گے۔

تاہم متعدد ماہرین کے لیے بوئنگ کے مسائل کئی دہائیوں سے چلے آ رہے ہیں اور ان کا حل فوری طور پر نکلنا مشکل ہے۔

فہرم کہتے ہیں کہ ’بڑی کمپنیوں میں جو چیز بہت مشکل سے تبدیل ہوتی ہے وہ لوگوں کی سوچ ہے۔ اس میں وقت لگتا ہے، اور یہ عمل کے ذریعے دکھائی دینی بھی ضروری ہے۔

’تبدیلیاں کی جا رہی ہیں لیکن لوگ یہ نہیں دیکھیں گے کہ اورٹبرگ کی سربراہی میں اعلیٰ عہدیدار کیا کہہ رہے ہیں بلکہ وہ دیکھیں کہ وہ عملی طور پر کیا کر رہے ہیں۔

Boeing's new CEO Kelly Ortberg being shown around the plant, wearing safety glasses
Reuters

کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ اورٹبرگ کے پاس کمپنی کی قسمت بدلنے کا موقع ہے۔ ڈنلاپ کے مطابق سوچ میں تبدیلی بوئنگ کے مستقبل کے لیے اہم ہو گی۔

وہ کہےت ہیں کہ ’کسی بھی کمپنی میں تبدیلی لانے کا تیز ترین طریقہ وہاں رویے کو تبدیل کرنا ہے اور یہ کہ آپ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ کیسا برتاؤ رکھتے ہیں، اپنے صارفین کے ساتھ کیا رویہ رکھتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ اپنے سپلائرز کے ساتھ کیا رویہ رکھتے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ بوئنگ کی ماضی حکمتِ عملی میں مکمل طور پر تبدیلی کرنے سے ’تقریباً معجزاتی‘ نتیجہ نکل سکتا ہے۔

تاہم دیگر ماہرین اس بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ الائیڈ پائلٹس اسوسی ایشن کے ترجمان کیپٹن ڈینس تاجر کا ماننا ہے کہ بوئنگ میں اصل تبدیلی بورڈ روم میں نہیں بلکہ کمپنی میں نچلے عہدوں پر فائز ملازمین میں آنے کی ضرورت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس کا حل سینیئر مینجمنٹ سے نیچے ہے۔ یہ مڈل مینجمنٹ لیول پر ہو سکتا ہے جہاں آپ کو گیٹ کیپرز مل جائیں اور وہ لوگ جو چیزوں کو قواعد کے مطابق سرانجام دیں اور صرف شیڈول کے مطابق نہیں۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت بوئنگ کے لیے سب کچھ ہی داؤ پر لگا ہے۔

More from InDepth


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.