’بدگمان مائیکل وان، پُرعزم جنوبی افریقہ اور پُراُمید پاکستان‘

اکتوبر میں انگلینڈ کے خلاف کایا کلپ سے اب تک جس یکسوئی سے پاکستان کرکٹ ایک سمت میں بڑھ رہی ہے، کوئی اچنبھے کی بات ہرگز نہ ہو گی اگر نیولینڈز میں پاکستان نے نئے سال کا آغاز ایک ایسی جیت سے کر دیا جس کے تعاقب میں کوئی 18 برس بیت چکے ہیں۔
Michael Vaughan
Getty Images

کرکٹ کی موجد سر زمین، انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان کو شدید اعتراض ہے کہ جنوبی افریقی ٹیم ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ کے فائنل میں کیونکر پہنچ گئی جبکہ انھوں نے تقریباً ’کسی‘ سے کوئی کرکٹ کھیلی ہی نہیں۔

اس ’کسی‘ سے ان کی مراد ’انگلینڈ، آسٹریلیا، انڈیا‘ ہیں جو کہ ساری کرکٹ کا منبع و محور و مرکز المعروف ’بِگ تھری‘ ہیں، جن کی آئی سی سی میں مالیاتی اجارہ داری تو سابق چئیرمین ششانک منوہر نے توڑنے کی بظاہر کامیاب (دراصل ناکام) کوشش کی مگر اس سوچ کو کوئی نہ توڑ پایا کہ یہ تو آج بھی وہیں موجود ہے۔

سو، ایک آسٹریلوی چینل (فوکس سپورٹس) پہ، آسٹریلیا انڈیا میچ کی تیاریوں پر تبصرہ کرتے، سابق انگلش کپتان اور ایک سابق آسٹریلوی سپنر جب جنوبی افریقہ کے فائنل میں پہنچنے پر جزبز نظر آتے ہیں تو عام ناظر کے لیے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ کرکٹنگ طاقت میں تین بڑوں کی زبان بولتے یہ مبصرین دراصل کہنا کیا چاہتے ہیں۔

مائیکل وان کا سب سے نمایاں دکھ یہ تھا کہ صرف 12 ٹیسٹ کھیل کر جنوبی افریقہ فائنل تک کیسے پہنچ گئی (جبکہ ان کی اپنی انگلش ٹیم دو درجن کے لگ بھگ میچ کھیل کر بھی فائنل تک کیوں نہ پہنچ پائی؟)۔

مگر اس دکھ کے اظہار میں وہ بہت سے تلخ مالیاتی حقائق نظر انداز کر گئے جو کئی سالوں سے عالمی کرکٹ کے ڈھانچے کی جڑوں میں بیٹھتے جا رہے ہیں۔

یہ عجیب دقت ہے کہ ایک طرف بارڈر گواسکر ٹرافی میں آسٹریلیا اور انڈیا پانچ ٹیسٹ میچز کی ’ایک‘ سیریز کھیل رہے ہیں جبکہ دوسری جانب اسی مدت میں جنوبی افریقہ دو ٹیموں کے خلاف ’دو‘ الگ الگ دو طرفہ سیریز کھیل کر بھی صرف چار ہی میچز کھیل پائے گا۔

کسی دور میں جب اچانک آئی سی سی کو ٹیسٹ کرکٹ کے مستقبل کی شدید فکر لاحق ہو گئی تھی، تو عظیم آسٹریلوی مصنف گدیون ہیگ نے لکھا تھا کہ اس بارے دقیق فلسفیانہ بحثوں میں الجھنے کی بجائے اگر آئی سی سی صرف انڈیا پاکستان ٹیسٹ کرکٹ بحال کروا پائے تو لوگ ایشز کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے۔

مگر اب آئی سی سی کا عالمی کرکٹ میں کردار فقط اتنا ہی رہ گیا ہے جتنا بیگانی شادیوں پر ٹینٹ قناتوں کا بل بنانے والے منیجر کا ان اصل ایونٹس میں ہوتا ہے، جبھی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ کا وہ ابتدائی ماڈل، انڈیا کی مخالفت کے بعد، صرف ٹیبل پر ہی دھرا رہ گیا جہاں ہر ٹیم کو دوسری ٹیم کے خلاف کھیلنے کا پابند ٹھہرایا گیا تھا۔

تب نجانے مائیکل وان اور ان جیسے کرکٹ کے خیر خواہان کن سوچوں میں گم تھے؟

جنوبی افریقی کوچ شکری کونراڈ نے جہاں ایک طرف ان مضحکہ خیز اعتراضات پہ سخت ردِ عمل دیا ہے، وہیں دوسرے ٹیسٹ کے لیے انھوں نے جس الیون کا اعلان کیا ہے، وہ اس امر کا اظہار ہے کہ فائنل تک رسائی کے حتمی ہدف کے بعد بھی وہ دھیمے نہیں بیٹھ رہے بلکہ ابھی سے اگلے چیمپئین شپ سائیکل کی تیاری کی طرف پہلا قدم رکھ رہے ہیں۔

کوینا مپھاکا اب وہ کم عمر ترین جنوبی افریقی کھلاڑی ہوں گے جو اپنی ٹیسٹ ٹیم کے لیے ڈیبیو کریں گے۔

ٹی ٹونٹی اور ون ڈے سیریز میں بھی اگرچہ ان کی برق رفتاری اور درستی نے پاکستانی ٹاپ آرڈر کے لیے کچھ مشکلات پیدا کی تھیں، مگر اصل امتحان ان کا بھی انٹرنیشنل کرکٹ کے اس حتمی سٹیج پر ہو گا جو مسلسل پانچ روز اور دو اننگز کے اطراف ان کی صلاحیتوں کی پرکھ کرے گا۔

muhammad abbas
Getty Images

نیولینڈز کی پچ پر گھاس ہونے کے باوجود کچھ قطعے ایسے نظر آتے ہیں جو تیسرے چوتھے دن سپنرز کا کردار فیصلہ کن کر سکتے ہیں۔ سلمان آغا بھی اسی امر کی پیشگوئی کر چکے ہیں اور اس میچ میں بطور آل راؤنڈر اپنا کردار بڑھتا دیکھ رہے ہیں۔

سینچورین میں محمد عباس کی سوئنگ پاکستان کو یوں مقابلے میں واپس لائی کہ ایک لمحے پر واضح یکطرفہ شکست کی سمت بڑھتی ٹیم نے بالآخر وہ لڑائی لڑی کہ اپنی ہوم کنڈیشنز میں میزبان پروٹیز کے دانتوں تلے پسینہ آ گیا۔

ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کا گزشتہ سال خاصا مایوس کن رہا ہے مگر نئے سال کے آغاز پر جہاں سبھی چھٹی منا رہے تھے، وہاں شان مسعود کی ٹیم نے طویل پریکٹس سیشن میں سخت مسابقتی تقاضے سیکھنے کی کوشش کی۔

اکتوبر میں انگلینڈ کے خلاف کایا کلپ سے اب تک جس یکسوئی سے پاکستان کرکٹ ایک سمت میں بڑھ رہی ہے، کوئی اچنبھے کی بات ہرگز نہ ہو گی اگر نیولینڈز میں پاکستان نے نئے سال کا آغاز ایک ایسی جیت سے کر دیا جس کے تعاقب میں کوئی 18 برس بیت چکے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.