ایڈنبرا فائر بریگیڈ دنیا کی پہلی فائر بریگیڈ تھی جسے شہری حکومت کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی گئی اور یہ سروس عوام کے لیے مفت تھی۔
19ویں صدی میں ایڈنبرا شہر کا مرکز عمارتوں سے بھرا ہوا تھا، جن میں سے اکثر لکڑی کی بنی ہوئی تھیں۔
زیادہ تر کاروبار اور گھر کھانا پکانے، کمروں کو گرم رکھنے اور ہر قسم کے کام کرنے کے لیے آگ پر انحصار کرتے تھے لیکن جب آگ قابو سے باہر ہو گئی تو یہ تنگ گلیوں میں تیزی سے پھیل گئی جسے اب ہم پرانا شہر کہتے ہیں۔
کچھ لوگوں کے پاس آگ بجھانے کے لیے بالٹیاں تھیں اور جو استطاعت رکھتے تھے وہ انشورنس کمپنیوں کو الارم بجانے اور آگ بجھانے کے لیے سامان دیا کرتے تھے۔
ایڈنبرا کے پولیس کمشنر، جن پر شہر میں نظم و نسق برقرار رکھنے کی ذمہ داری تھی‘ نے الزام لگایا کہ فائر فائٹرز کے پاس مناسب آلات نہیں تھے، ان میں نظم و نسق نہیں تھا، وہ مناسب طور پر تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ نہیں تھے اور ان کے پاس معلومات اور آگاہی بھی مناسب حد تک نہیں تھی۔
کمرشل انشورنس کمپنیوں کی آپس میں کاروباری مسابقت جاری رہتی تھی اور بعض اوقات پانی کی فراہمی پر بھی لڑتی تھیں۔
ان کا کام بنیادی طور پر بچاؤ کا تھا: جتنا زیادہ وہ آگ سے بچا سکتے تھے، بیمہ دار کی طرف سے بیمے کا دعویٰ اتنا ہی کم ہوتا۔
سکاٹش فائر ہیریٹیج میوزیم کے سفیر ڈیو فیریز کا کہنا ہے کہ ’یہ وہ کام تھا جو انھوں نے جلدی میں کیا، دھوئیں پر پانی پھینکا اور بہترین (نتائج) کی امید کی۔‘
’جہاں تک انشورنس کی بات ہے، آگ بجھانے والے فائر فائٹرز میں بعض اوقات پانی کی فراہمی پر لڑائی ہو جاتی تھی۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’کوئی بھی آگ میں جا کر اسے بجھانے کی کوشش نہیں کر رہا تھا، بس وہ صرف بالٹیوں میں کھڑکیوں سے پانی پھینک رہے تھے مگر اس طرح زیادہ تر لوگ آگے بجھانے میں ناکام رہے اور نتیجتاً زیادہ تر املاک جل کر خاکستر ہو گئیں۔‘
آگ لگنے کا بڑا واقعہ
ڈیوڈ فیریز نے 55 سال فائر فائٹر اور رضاکار کے طور پر گزارے اور اب وہ ایڈنبرا میوزیم میں سفیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 1824 میں شہر کے پرانے حصے میں بڑے پیمانے پر آگ لگنے کی وجہ سے حکام شہر میں آگ بجھانے کے لیے بہتر طریقے تلاش کرنے پر مجبور ہوئے۔
اس موسم خزاں میں ایڈنبرا میں بڑے پیمانے پر لگی آگ پانچ دن تک جلتی رہی۔ لوگوں سے بھری عمارتیں تباہ ہونے سے 13 افراد ہلاک اور سینکڑوں بے گھر ہو گئے۔
ایڈنبرا فائر بریگیڈ دنیا کی پہلی فائر بریگیڈ تھی جسے شہری حکومت کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی گئی اور یہ سروس عوام کے لیے مفت تھی۔
شہر کے پہلے ’فائر چیف‘ 23 برس کے بلڈنگ انسپکٹر جیمز بریڈ ووڈ تھے، جنھیں اب ’جدید فائر سروس کا باپ‘ کہا جاتا ہے۔
بریڈ ووڈ نے ایک بہت زیادہ مربوط اور موثر سروس کا اہتمام کیا جس میں بہتر تربیت، جسمانی تیاری اور مواصلاتی نظام تھا۔
انھوں نے گردن کی حفاظت والے خصوصی ہیلمٹ سے لے کر سکاٹ لینڈ کے پہلے فائر انجن تک کے ڈیزائن اور تیاری میں مدد دی۔ اس انجن کو فائر فائٹرز کھینچ کر لے جاتے تھے۔
فائر آپریٹس پر بارہ افراد کام کرتے تھے، جو اس کے ’ہینڈل‘ کو ایک منٹ میں 24 بار کھینچتے تھے۔ عوام میں سے جس کسی نے اس حوالے سے مدد دی، اسے معاوضہ دیا گیا اور مفت بیئر دی گئی۔
پہلے پہل جو فائر فائٹرز بھرتی کیے گئے وہ بغیر مشینوں کے ہی کام کرتے تھے۔ ان ملازمین میں سلیٹ میکر، کارپینٹر اور اینٹ لگانے والے شامل تھے۔ ان کی عمریں 17 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔ یہ مزدور عمارت کی تعمیر کے بارے میں جانتے تھے۔
بریڈ ووڈ نے لکھا کہ ’وہ اس کام کی طرف آسانی سے راغب ہو جاتے تھے اور انھیں تربیت دینا بھی آسان تھا۔‘
’فائر ٹرک‘ کی اچھی دیکھ بھال کرنے والوں کی تحسین ہوتی تھی جبکہ غفلت برتنے والوں پر جرمانے تک عائد کیے جاتے۔
عالمی شہرت یافتہ
بریڈ ووڈ کا حوالہ دیتے ہوئے فریز کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک فائر ڈیپارٹمنٹ بنایا جو عالمی شہرت یافتہ ہو گیا۔
’تمام برطانوی جزائر اور بیرون ملک سے لوگ یہ دیکھنے ایڈنبرا آئے تھے کہ یہ نظام کیسے کام کرتا ہے۔‘
بریڈ ووڈ نے سنہ 1830 میں لوگوں کے اصرار پر اس نظام کی تیاری کے عمل سے متعلق ایک کتاب تحریر کی جو آگ بجھانے والے عملے کے لیے ایک رہنما نسخہ بن گیا۔
انھوں نے اس کتاب میں تمام تفصیلات درج کیں کہ انھوں نے کیسے یہ سب کیا۔
ایڈنبرا کے مرکٹ ٹورز کی تانیہ ڈرون کہتی ہیں کہ جیمز بریڈ ووڈ نے آگ سے لڑنے کے طریقے اور آلات کے استعمال کے اعتبار سے بہت سے نئے طریقے متعارف کرائے ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’اس سے پہلے تک لوگ عمارتوں میں آگ بجھانے کے لیے داخل نہیں ہوتے تھے بس وہ باہر سے ہی اسے بھجانے کی کوشش کرتے تھے۔‘
جیمز بریڈ ووڈ نے لوگوں کو آگ سے متاثرہ عمارت میں داخل ہونے کی تربیت دی۔
ان کے مطابق ’انھوں نے نئے آلات تیار کیے اور اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ وہ ایڈنبرا میں اس پیشے میں ایک اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں، جس کو پہچانا جاتا ہے تاکہ جب آگ لگ جائے تو پھر ان کی رہنمائی میں آگ بجھانے کا عمل کیا جائے۔‘
’آج ہم سب ہمارے پاس موجود فائر سروسز اور ان کے کام کے لیے بہت ممنون ہیں لیکن میرے خیال میں یہ بھولنا آسان ہے کہ یہ سب کہاں سے آیا اور بہت کم لوگوں کو یہ احساس ہے کہ ایڈنبرا شہر کے مرکز سے یہ نظام ان تک پہنچا۔‘