امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر کے لاس اینجلس اور اس کے ملحقہ علاقوں میں منگل کی صبح سے جنگلات میں مختلف مقامات پر لگنے والی آگ نے اب تک پانچ جانیں لے لی ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد افراد زخمی ہیں اور ایک ہزار سے زیادہ عمارتیں اور گھر نذرِ آتش ہو چکے ہیں جن میں ہالی وڈ اداکاروں اور امریکہ کے امرا کے گھر بھی شامل ہیں۔
ہالی وڈ کا مرکز اس وقت دھوئیں کے گھنے بادلوں میں گھرا ہوا ہے۔۔۔
آپ سڑکوں کے گرد قطار میں لگے کھجور کے قدآور درختوں کے تنے نہیں دیکھ سکتے۔ آگ کے قریب ہر جانب افراتفری ہے اور لوگ اپنی شرٹوں میں چہرے ڈھانپ رہے ہیں تاکہ وہ سانس لے سکیں۔
اکثر اپنے ساتھ بیگ اور سوٹ کیسز لیے پھر رہے ہیں تاکہ وہ کسی محفوظ مقام پر جا سکیں۔ ان میں کچھ نے پاجامے پہن رکھے ہیں۔۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ انھیں اس صورتحال پر یقین نہیں آ رہا۔
ہالی وڈ میں ڈرائیو کرتے ہوئے بی بی سی کی ٹیم نے اکثر افراد اپنے گھروں سے تھوڑا بہت سامان لیے بھاگتے دیکھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو لوگوں کا ردِ عمل خوف اور اضطراب کا تھا۔
اینا والڈمین نامی شہری نے ہمیں گاڑی سے اترتے دیکھا تو فوراً سوال کیا: 'کیا آپ یہاں لوگوں کی مدد کرنے آئے ہیں؟ میں کہاں جاؤں؟ کون سی جگہ محفوظ ہے؟'
فضا میں سائرن کی آواز گونج رہی تھی اور ہیلی کاپٹر کے پروں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ہم نے انھیں ایک محفوظ علاقے تک جانے میں مدد کی تو اس دوران انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے کتوں کو چہل قدمی کے لیے باہر لائی تھیں اور انھوں نے گراسری سٹور جانے کا پلان کیا تھا جب دھوئیں کی بدبو آنے لگی۔
’میں گھر پہنچی اور کھڑکیوں سے باہر دیکھا تو مجھے ہالی وڈ ہلز پر ہمارے گھر سے ایک بلاک دور آگ دکھائی دینے لگی۔‘
انھوں نے کچھ کھانا، کپڑے، کمبل اور اپنے تین کتوں کا کھانا پیک کیا اور گھر چھوڑ کر باہر آ گئیں۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے بالکل یقین نہیں آ رہا۔‘
یہ کہانی صرف ہالی وڈ ہی بلکہ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر کے لاس اینجلس اور اس کے ملحقہ علاقوں کی بھی جہاں منگل کی صبح سے جنگلات میں مختلف مقامات پر لگنے والی آگ نے اب تک پانچ جانیں لے لی ہیں۔
اس کے علاوہ متعدد افراد زخمی ہیں اور ایک ہزار سے زیادہ عمارتیں اور گھر نذرِ آتش ہو چکے ہیں جن میں ہالی وڈ اداکاروں اور امریکہ کے امرا کے گھر بھی شامل ہیں۔
لاس اینجلس کے علاقے پیسیفک پیلیسیڈز کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
کیلیفورنیا کی فائر سروس کے بٹالین چیف ڈیوڈ آکونا نے بی بی سی کے ٹوڈے پروگرام کو بتایا کہ ہالی وڈ ہلز پر آگ ’تیزی سے پھیل رہی ہے‘ اور اس پر قابو پانے کی کارروائیوں میں پیشرفت ’صفر ہے‘۔
ایک کمرشل موسم کا حال بتانے والی سروس ایکیوویدر کا اندازہ ہے کہ کیلیفورنیا میں جنگل میں آگ کے باعث 52 سے 57 ارب ڈالر کے درمیان نقصان ہوا۔ انھوں نے خبردار کیا کہ اس حوالے سے نقصان میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
ایکیوویدر کے چیف میٹرولوجسٹ جانتھن پورٹر کا کہنا تھا کہ ’اگر آنے والے دنوں میں اسی تعداد میں مزید عمارتیں اور گھر بھی نذرِ آتش ہوئے تو یہ کیلیفورنیا کی تاریخ کی بدترین آگ ہو سکتی ہے۔‘
آگ سے اب تک لاس اینجلس کے کون سے علاقے متاثر ہوئے ہیں؟
لاس اینجلس اور اس کی ہمسایہ کاؤنٹیز میں سات مختلف جگہوں پر آگ لگی ہوئی ہے۔ ان میں سے سب سے بڑے پیمانے پر پھیلنے والی آگ پیلیسیڈز اور ایٹن میں منگل کو لگی تھی اور ان دونوں نے لگ بھگ 27 ہزار ایکڑ زمین کو جلا دیا ہے۔
اب تک کم سے کم ایک لاکھ 37 ہزار افراد کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
ان کے علاوہ ہرسٹ فائر اور سنسیٹ فائر بھی شامل ہے جو ہالی وڈ ہلز میں لگی ہے جو رنیان کینین کے قریب ہے اور اس کے بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
بدھ کی رات ہالی وڈ کے مشہور سائن کے قریب ہالی وڈ ہلز پر بھی آگ لگ گئی تھی جس کے نقل مکانی کرنے کے احکامات کو وسیع کر دیا گیا تھا۔
ڈولبی تھیٹر، جہاں ہر سال اوسکرز کی تقریب منعقد ہوتی ہے، اس زون میں آتا ہے جہاں سے نقل مکانی کے احکام دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہالی وڈ بول اور دی ہالی وڈ واک آف فیم بھی اسی علاقے میں آتا ہے۔
بدھ کی رات رنیان کینین جو آج کل ہائکنگ کرنے والوں میں خاصا مقبول ہے، میں بھی آگ لگی ہے۔
لاس اینجلس کاؤنٹی فائر چیف اینتھونی میرونی نے بدھ کو ایک نیوز کانفرنس میں رہائشیوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے آس پاس لوگوں کے تحفظ کو ترجیح دیں۔
انھوں نے کہا کہ ’تیز ہواؤں اور نمی کی شرح میں کمی کے باعث تمام رہائشیوں کو خطرہ ہے۔‘
اب تک لاس اینجلس کے مختلف علاقوں سے لاکھوں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور ایک ہزار سے زیادہ عمارتیں نذرِ آتش ہو چکی ہیں۔
فائر چیف کے مطابق ’آگ لگنے کی ابتدا اب بھی نامعلوم ہے اور اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔‘
آگ پر قابو پانے میں مشکلات کیوں درپیش ہیں؟
منگل کی صبح سے ہی سینٹا اینا نامی ہواؤں کے سلسلے اور انتہائی خشک آب و ہوا کے باعث آگ بھجانے والوں کو اس حوالے سے شدید مشکلات درپیش ہیں۔
یہ ہنگامی صورتحال ہر گھنٹے بعد تبدیل ہو رہی ہے اور اب تک اس کے باعث کم سے کم پانچ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، متعدد زخمی ہیں اور سینکڑوں عمارتیں بھی تباہ ہوئی ہیں۔
کیلیفورنیا کی فائر سروس کے بٹالین چیف ڈیوڈ آکونا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گذشتہ صبح سے ہوائیں 60 اور 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تسلسل کے ساتھ چل رہی ہیں۔ گذشتہ رات ان کی رفتار بہت زیادہ تھی لیکن اب یہ کم ہو کر 30 میل فی گھنٹہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کے باوجود یہ اچھی خاصی ہے اور کیونکہ یہاں بہت سے وسیع علاقے ہیں اس لیے یہ بہت خطرناک بھی ہے۔‘
وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فائر فائٹرز کی پہلی ترجیح لوگوں کی جانوں کا تحفظ ہے اور نقل مکانی کے حوالے سے انتباہ اور احکامات میں توسیع کی جا سکتی ہے۔
انھوں نے بی بی سی ریڈیو فور کے ٹوڈے پروگرام کو بتایا کہ ’گذشتہ 30 سالوں کے دوران اس نوعیت کے دو واقعات رونما ہوئے ہیں۔۔۔‘
وہ کہتے ہیں کہ 'یہ بہت حیران کن ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور اس ماحول نے ہمیں ایک خطرناک پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔'
وہ کہتے ہیں کہ عام طور پر جنوری کے مہینے میں آگ بھجانے والی ٹیمز کو وقت مل جاتے ہے کہ وہ ری گروپ کر سکیں۔ اس دوران سٹاف بھی کم ہوتا ہے اور ’ہم ایسے پراجیکٹس کرتے ہیں تاکہ موسمِ بہار اور موسمِ سرما سے پہلے تیاری کا وقت مل جائے لیکن اس مرتبہ ہم صرف لوگوں کو بچا رہے ہیں اور آگ سے لڑ رہے ہیں۔‘
امریکی حکومت کی تحقیق کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اور مغربی امریکہ میں بڑے پیمانے پر آگ لگنے کے واقعات کے درمیان رشتہ لنک موجود ہے۔
نیشنل اوشیانک اور ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن کا کہنا ہے کہ ’موسمیاتی تبدیلی، گرمی میں اضافہ، طویل دورانیے کا قحط اور ایک خشک ماحول مغربی امریکی میں جنگلوں میں آگ میں وسیع پیمانے پر اضافے کا باعث بنے ہیں۔‘
کیلیفورنیا میں اس مرتبہ موسمِ سرما میں درجۂ حرارت بہت زیادہ رہا ہے جبکہ گذشتہ کئی ماہ سے یہاں بارش بھی نہیں ہوئی جس کی وجہ یہاں جنگلات میں آگ کا خدشہ موجود تھا۔
جنوبی کیلیفورنیا میں آگ عام طور پر مئی اور اکتوبر کے درمیان لگتی ہے لیکن گورنر گیون نیوسم نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ آگ لگنے کے واقعات اب معمول کی بات ہو چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اب آگ کا سیزن نہیں ہوتا، آگ پورا سال لگ سکتی ہے۔‘