پاکستان کے شمالی شہر راولپنڈی کے معروف کاروباری مرکز صدر بازار کی آدم جی روڈ پر کچھ گھر واقع ہیں۔یہ گھر جس زمین پر بنے ہوئے ہیں اس کا تعلق انڈین آرمی کے لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ سے ہے جنہوں نے 1971 میں اس وقت کے مشرقی پاکستان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی سے ڈھاکہ میں سرنڈر کرایا تھا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا۔یہ زمین اور اس سے ملحقہ جائیداد جگجیت سنگھ اروڑہ کے سسر سردار اتم سنگھ دگل کی ہے۔سردار اتم سنگھ دگل متحدہ انڈیا کے ایک بڑے کاروباری شخص تھے اور انہوں نے 1947 کے فسادات کے دوران اس جائیداد کو راولپنڈی کے ہندوؤں اور سکھوں کے لیے ایک پناہ گاہ میں بدل دیا تھا۔ جگجیت سنگھ اروڑہ جو اس وقت برطانوی فوج میں میجر تھے، انہوں نے اس پناہ گاہ کی حفاظت کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا۔بعد ازاں سردار اتم سنگھ دگل اس جائیداد کو ایک مقامی شہری کاکو شاہ کو بیچ کر ہمیشہ کے لیے انڈیا منتقل ہو گئے اور وہاں جا کر پارلیمان کے رکن منتخب ہو گئے، لیکن 1947 کے ہنگاموں میں حملوں کا ہدف رہنے والی یہ جائیداد ان کے جانے کے بعد بھی متنازع ہی رہی اور آج 78 برس گزرنے کے باوجود اس کا مقدمہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں چل رہا ہے۔اتم سنگھ دگل کی راولپنڈی میں جائیداد کی دوہری الاٹمنٹ اس جائیداد کی کہانی کچھ یوں ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستانی حکومت نے انڈیا منتقل ہونے والے تمام افراد کی املاک ایک ایکٹ کے ذریعے اپنی ملکیت میں لے لیں اور انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے افراد کو ان کی الاٹمنٹ شروع کر دی۔اسی ایکٹ کے ذریعے سردار اتم سنگھ دگل کی حویلی سے منسلک ایک پلاٹ 1973 میں ایک مہاجر خاتون وحیدہ بیگم کے نام الاٹ کیا گیا۔ لیکن اس الاٹمنٹ کے کچھ ہی عرصے بعد اس وقت کے راولپنڈی کے ایکسائز آفیسر میاں منظور احمد دہامی جو خود بھی انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے، انہوں نے اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے اس پلاٹ اور اس سے ملحقہ جائیداد کی ایک الاٹمنٹ اپنے نام بھی کروا لی جس کے بعد یہ بیک وقت دو افراد کی ملکیت میں چلا گیا۔وحیدہ بیگم نے اس دوہری الاٹمنٹ کے خلاف 1974 میں لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی جس کے نتیجے میں منظور دہامی نے ان کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا اور اس جائیداد پر ان کا حق تسلیم کیا۔لیکن کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے اپنے حصے کی جائیداد ایک اور خاتون شافعہ بی بی کو بیچ دی اور یہ منتقل کرتے ہوئے انہوں نے شافعہ بی بی کو آگاہ کیا کہ اس جائیداد کا ایک حصہ وحیدہ بیگم کی ملکیت ہے۔
نصف صدی سے زائد عرصے سے عدالتی تنازعات میں گھری رہنے والی اس جائیداد کے بنیادی مالکان اور ان کے کئی وکلاء دنیا سے کوچ کر چکے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)
وقت گزرتا رہا اور فریقین اس زمین پر اپنے گھر بنا کر ان میں رہنے لگے۔
لیکن 1986 میں اتم سنگھ دگل کی یہ جائیداد ایک مرتبہ پھر اس وقت عدالتی بحث کا موضوع بن گئی جب شافعہ بی بی نے ایک مقامی عدالت میں وحیدہ بیگم کے خلاف اپنے حصے سے زائد زمین پر قبضے کا دعوٰی کر دیا۔یہ مقدمہ بھی کئی دہائیوں تک چلتا رہا اور بالآخر 2016 میں سول عدالت نے اس کا فیصلہ وحیدہ بیگم کے حق میں کر دیا۔شافعہ بی بی نے اس فیصلے کے خلاف ضلعی عدالت میں اپیل کی لیکن وہاں بھی وہ مقدمہ ہار گئیں جس کے بعد انہوں نے ہائی کورٹ میں اپیل کر دی۔جائیداد کے مالکان اور ان کے وکلاء گزر گئے، مقدمہ تاحال جاریایک مرتبہ پھر یہ کیس طویل عرصے تک ہائی کورٹ میں زیرِسماعت رہا اور آخر کار شافعہ بی بی کے حق میں ختم ہوا۔ اب وحیدہ بیگم کے خاندان کے وکیل اس مقدمے کو سپریم کورٹ میں لے جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ نصف صدی سے زائد مدت تک عدالتی تنازعات میں گھری رہنے والی اس جائیداد کے بنیادی مالکان سمیت ان کے کئی وکلاء دنیا سے گزر گئے ہیں اور اب یہ مقدمہ فریقین کی اگلی نسل اور ان کے وکلاء لڑ رہے ہیں۔وحیدہ بیگم کے بیٹے دین محمد جو خود بھی اب 87 سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں، ان کے وکیل حامد رشید گوندل ایڈووکیٹ نے اس مقدمے کے بارے میں اردو نیوز کو بتایا کہ 1947 میں نسلی فسادات کا حصہ رہنے والی یہ جائیداد 78 سال بعد بھی تنازعات سے باہر نہیں نکل سکی اور اگلے کئی برس تک اس کا جھگڑوں کا مرکز بنے رہنے کا امکان ہے۔
سردار اتم سنگھ دگل اپنی جائیداد کو ایک مقامی شہری کاکو شاہ کو بیچ کر ہمیشہ کے لیے انڈیا منتقل ہو گئے تھے (فائل فوٹو: راولپنڈی)
حامد رشید گوندل کے مطابق ’یہ مقدمہ لڑنے والے کئی وکیل دارِفانی سے کوچ کر گئے اور کئی جج کے منصب پر فائز ہونے کے بعد ریٹائر بھی ہو گئے لیکن اس جائیداد کی قسمت کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا۔‘
حامد رشید گوندل نے بتایا کہ راولپنڈی کے کئی سرکردہ وکلاء گزشتہ دہائیوں میں اس مقدمے سے منسلک رہے ہیں جن میں مسٹر جسٹس مرزا وقاص احمد اور جسٹس (ر) میاں نذیر اختر ہائی کورٹ کے جج بھی بنے جبکہ دیگر وکلاء مرزا انور بیگ، صمد محمود انتقال کر گئے ہیں۔‘جب لیفٹیننٹ جنرل جگجیت اروڑہ نے حویلی کے لیے برطانوی فوجی تعینات کروائےاس جائیداد کے حقیقی مالک اتم سنگھ دگل کی بیٹی منجیت کرپال سنگھ جو اپریل 1947 میں سکول جاتے ہوئے شروع ہونے والے فسادات میں بال بال بچی تھیں، انہوں نے 7 اکتوبر 2024 کو انڈین جریدے ’دی ٹریبیون‘ میں اس جگہ کے بارے میں لکھا کہ قتل و غارت شروع ہونے کے بعد یہ شہر کے سکھوں اور ہندوؤں کے لیے جائے پناہ بنی رہی۔انہوں نے لکھا کہ ’ایک مقامی مسلم رہنما، جو میرے والد کو دہائیوں سے جانتا تھا، لوگوں کے ایک گروپ کے ساتھ ان کے گھر آیا اور شائستگی سے ان کے والد سے درخواست کی کہ وہ اپنے ہتھیار ان کے حوالے کر دیں، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ شہر کی صورتحال غیرمستحکم ہو چکی ہے۔‘’غصے اور حیرت نے میرے والد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور انہوں نے سختی سے انکار کرتے ہوئے ان لوگوں کو وہاں سے جانے کو کہا۔کچھ ہی دیر بعد ہنگامے شروع ہو گئے اور اس واقعے کے بعد سینکڑوں ہندو اور سکھ اس گھر میں پناہ کی تلاش میں پہنچے۔‘
سردار اتم سنگھ دگل کی بیٹی منجیت کرپال سنگھ اپریل 1947 میں سکول جاتے ہوئے شروع ہونے والے فسادات میں بال بال بچی تھیں (فائل فوٹو: دی ٹریبیون)
منجیت سنگھ کہتی ہیں کہ اس صورت حال کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ان کی بہن کے شوہر لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ جو اس وقت برطانوی فوج میں میجر تھے، حالات کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے۔
’میرے والد نے زیادہ سے زیادہ ہندوؤں اور سکھوں کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی۔ فسادات شروع ہونے کے 48 گھنٹوں کے اندر سینکڑوں لوگ ہمارے گھر میں آ گئے۔ میرے بہنوئی لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ گھر کی حفاظت اور نگرانی کے لیے تین سے چار فوجیوں کو سٹریٹیجک مقامات پر تعینات کرنے میں کامیاب ہو گئے۔‘’مئی 1947 کے آس پاس ہم (یہ گھر چھوڑ کر) پنڈی سے دہلی چلے گئے۔ ایک بار جب ملک کی تقسیم ہو گئی تو میرے بہنوئی ایک بار پھر پاکستان گئے تاکہ ہمارے گھر سے جو کچھ بھی ہو سکے، واپس لا سکیں۔ اس سال کے آخر میں پاکستان کے کشمیر پر حملے کے بعد یہ خاندان دہلی چلا گیا۔ میرے والد نے اپنے گھر کی چابیاں ایک مسلمان دوست کو دیں۔‘منجیت کرپال سنگھ بیان کرتی ہیں کہ ’میری شادی 1953 میں ایک نیول آفیسر سے ہوئی اور میری تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ لیکن تمام عرصے میں، میں ہمیشہ اپنے آبائی گھر کو دوبارہ دیکھنے کی خواہش رکھتی تھی۔ تقریباً 15 سال پہلے 75 برس کی عمر میں مجھے ایک این جی او کی مدد سے پاکستان جانے کا موقع ملا۔ مجھے اپنے پرانے گھر کی لوکیشن یاد آئی اور ڈرائیور سے کہا کہ وہ گاڑی میرے گھر کے قریب روک دے، یہ علاقہ اب پہلے جیسا پوش اور نفیس نہیں رہا۔ مکان میں تقریباً 10 سے 12 خاندان رہائش پذیر تھے۔‘’پرانے گھر کو اتنی خستہ حالت میں دیکھ کر دل دہل گیا۔ دور اندیشی میں مجھے لگتا ہے کہ مجھے وہاں نہیں جانا چاہیے تھا کیونکہ اس سے صرف دردناک یادیں واپس آتی ہیں۔‘