فیصل آباد کے ہسپتال میں خاتون سکیورٹی گارڈ کا مبینہ ریپ: ’پہلے بے عزتی کے ڈر سے خاموش رہی، متعدد بار ریپ کیا گیا‘

مقدمے میں نامزد مرکزی ملزم سمیت پانچ ملزمان، جو عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر چکے ہیں، نے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ہسپتال انتظامیہ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے جبکہ متاثرہ خاتون کی درخواست پر فیصل آباد پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
ریپ کا شکار
Getty Images
فائل فوٹو

’گھر کے حالات سے مجبور ہو کر ملازمت کررہی تھی۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ میرے ساتھ یہ ظلم ہوگا۔ ان ظالموں نے ویڈیو بنا کر میرے ساتھ بار بار ظلم کیا جس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اب اور چپ نہیں رہ سکتی۔‘

یہ کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب کے فیصل آباد شہر کے چلڈرن ہسپتال میں مبینہ طورپر زیادتی کا نشانہ بننے والی متاثرہ خاتون سکیورٹی گارڈ کا جنھوں نے بی بی سی سے بات چیت میں ان الفاظ میں اپنی کیفیت بیان کی۔

متاثرہ خاتون، جن کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا، کا الزام ہے کہ انھیں ’متعدد بار ریپ کیا گیا‘ جبکہ شکایت کرنے پر نوکری سے نکالنے کی دھمکی دی گئی۔

دوسری جانب مقدمے میں نامزد مرکزی ملزم سمیت پانچ ملزمان، جو عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر چکے ہیں، نے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ہسپتال انتظامیہ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے جبکہ متاثرہ خاتون کی درخواست پر فیصل آباد پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔

وومن تھانہ فیصل آباد کی ایس ایچ او گل ناز نے بی بی سی کو بتایا کہ خاتون کے طبی معائنہ کے بعد ان کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

متاثرہ خاتون پر تشدد اور پولیس کی آمد

پولیسکا کرایم سین
Getty Images

متاثرہ خاتون کی جانب سے اس مقدمے میں پانچ لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے۔

375 اے کے تحتدرج مقدمہ کے متن میں متاثرہ خاتون نے کہا ہے کہ انھوں نے ’غربت سے تنگ آ کر تین ماہ قبل چلڈرن ہسپتال فیصل آباد میں سکیورٹی گارڈ کی ملازمت حاصل کی تھی۔‘

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ’سکیورٹی سپروائزر مجھے آتے جاتے تنگ کرتا تھا، اس نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میری بات نہ مانی تو میں آپ کو نوکری سے نکلوا دوں گا۔ اس ہی نے میری ڈیوٹی ڈینٹل وارڈ میں لگوا دی۔‘

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ’25 دسمبر کو مرکزی ملزم نے مجھے اپنے وارڈ کے کمرے میں بلایا اور وہاں پر میرے ساتھ زبردستی ریپ کیا اور اس کی ویڈیو بھی بنائی۔ یہ بات میں نے سکیورٹی سپروائزرکو بتائی تو اس نے کہا کہ خاموشی اختیار کریں ورنہ آپ کو نوکری سے فارغ کردیا جائے گا۔ بے عزتی کے ڈر سے خاموش رہی اور اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرکزی ملزم نے مختلف اوقات میں میرا ریپ کیا۔‘

درج مقدمہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’میں اس صورتحال سے تنگ آچکی تھی۔ جس پر میں نے سکیورٹی سپروائزر کو بتایا تو اس وقت اس کے پاس ایک نامعلوم شخص بھی موجود تھا۔ اس نے کہا کہ دروازے کو کنڈی لگاؤ اور پھر میرے ساتھ زبردستی شروع کر دی گئی۔‘

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ’ایک موقع پر اس نے میرا سر پکڑ کر دیوار کے ساتھ مارا اور تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ جس پر میں نے اپنے موبائل سے 15 پر کال کی اور پولیس نے آ کر مجھے نکالا اور پھر میرا خاوند بھی موقع پر پہنچ گیا تھا۔‘

پانچوں ملزمان کی 10 روز کے لیے ضمانت قبل از گرفتاری

وومن تھانہ کی ایس ایچ او گل ناز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خاتون کی درخواست پر طبی معائنہ کے بعد مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام نمونے حاصل کرکے فارنزنک رپورٹ کے لیے بھجوا دیے گے ہیں جبکہ مقدمے میں نامزد پانچ کے پانچ ملزمان نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی ہے۔ عدالت نے ملزمان کو 10 دن کی ضمانت قبل از گرفتاری دی ہے۔

پولیس کے مطابق ملزمان کی ضمانت قبل از گرفتاری کے بعد تمام ملزمان سے پولیس کی اعلیٰ تفتیشی ٹیم نے پوچھ گچھ کی ہے۔

پولیس افسر گل ناز نے دعویٰ کیا کہ مقدمے کی تفتیش اعلیٰ سطح پر جاری ہے جس میں ’تمام چیزوں کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے اور اعلیٰ افسران اس واقعے کی تمام تفتیش کی نگرانی کر رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں خاتون کا بیان وہی ہے جو مقدمے میں درج ہے۔

’ملزمان بااثر ہیں، میری کون سنے گا‘

ریپ کی متاثرہ
Getty Images

متاثرہ خاتون نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ پولیس کے طلب کرنے پر ہمیشہ پیش ہوئی ہیں تاہم ملزمان ’بااثر لوگ ہیں۔‘

’مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہو رہا ہے۔ جب بھی پولیس مجھے بلاتی ہے میں جاتی ہوں اور پولیس بہت ہمدردی سے میری بات سنتی ہے اور مجھے یہ یقین دلاتی ہے کہ مجھے انصاف ملے گا۔ میں پولیس کی بات پر یقین رکھتی ہوں کیونکہ ہسپتال سے بھی مجھے پولیس ہی نے نکلنے میں مدد کی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ کام چھوڑ دیتی ہوں۔ مگر پھر معاشی مجبوریاں سامنے آتی تھیں۔ سوچا کہ شاید کچھ دنوں میں حالات ٹھیک ہو جائیں۔‘

خاتون کا کہنا تھا کہ ’مجھے کئی لوگوں نے کہا کہ میں چپ کر جاتی۔ میں تو چپ رہنا چاہتی تھی مگر وہ مجھ پرتشدد کر رہے تھے اور اسی لیے پولیس کو فون کرنا پڑا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم بہت غریب لوگ ہیں۔ مجھے نہیں پتا کب تک تھانے اور عدالتوں کے چکر لگا سکتی ہوں۔ لیکن مجھے انصاف چاہیے۔‘

’بدنام کرنے کی سازش‘

مقدمہ میں نامزد واقعے کے مرکزی ملزم سے جب رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اپنے موقف میں کہا کہ 25 دسمبر کو وہ ہسپتال میں گئے ہی نہیں اور یہ سب کچھ ان کو بدنام کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے اور ’ممکنہ طور پر ان کے خلاف بڑی سازش ہے۔‘

ملزم نے دعویٰ کیا کہ ’اس خاتون نے کچھ عرصہ پہلے بھی ایک درخواست دی تھی جس میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔ مگر اب اچانک کیسے اور کیوں اس خاتون نے ان کا نام شامل کیا یہ بہت بڑا سوال ہے جس کے بارے میں مکمل تفتیش ہونی چاہیے اورمیں نے خود کو تفتیش کے لیے پولیس اور ہسپتال انتظامیہ کے حوالے کیا ہے کہ وہ حقائق سامنے لائیں۔‘

ملزم کے اس دعویٰ کی تصدیق کے لیے جب بی بی سی نے پولیس سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اس بات کی تردید کی اور کہا اس سے پہلے متاثرہ خاتون نے کوئی درخواست نہیں کی۔

دوسری جانب متاثرہ خاتون نے بھی اس سے قبل کسی بھی درخواست دینے سے متعلق بات کی نفی کی ہے۔

درج مقدمہ میں نامزد سکیورٹی سپروائزر نے بھی خود پر لگائے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’جس وقت کا ذکر کیا جا رہا ہے اس وقت وہ بھی ہسپتال میں موجود نہیں تھے۔‘

اس مقدمہ میں نامزد دیگر ملزمان نے بھی خود پر عائد کیے جانے والے تمام الزامات کو مکمل مسترد کیا ہے۔

ہسپتال انتظامیہ کی اعلیٰ سطح تحقیقاتی کمیٹی

اس واقعے کے حوالے سے چلڈرن ہسپتال فیصل آباد کے ڈین ڈاکٹرعبدالرازق نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ اس واقعے کے حوالے سے پنجاب حکومت نے بھی ہسپتال انتظامیہ سے جواب طلب کیا ہے۔

ہسپتال انتظامیہ نے ایک اعلیٰ سطح تحقیقاتی کمیٹی قائم کی اور ایک ابتدائی رپورٹ صوبائی حکومت کو بھجوا دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی نہیں جانتے کہ تحقیقاتی کمیٹی نے کیا رپورٹ دی ہے اور اس موقعے پر اس کو میڈیا کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاسکتا۔

ڈاکٹرعبدالرزاق کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد پولیس ہسپتال ڈاکٹروں اور سٹاف کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی تھی جبکہ وہ لوگ ضمانت قبل از گرفتاری کروا رہے تھے اور ضمانت کے بعد پولیس تمام ملزمان سے بیانات لے رہی تھی جس وجہ سے وہ لوگ ابھی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ان لوگوں اور متاثرہ خاتون کو کمیٹی نے طلب کیا گیا ہے۔ ’تحقیقاتی کمیٹی ان سے تفصیلی رپورٹ حاصل کرے گی اور اس کے بعد ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی جائے گی۔ جو صرف حکومت کو بھجوائی جائے گی۔ وہ رپورٹ میڈیا یا پولیس کے لیے نہیں ہوگی۔‘

ڈاکٹرعبدالرزاق کا دعویٰ تھا کہ ان کے ہسپتال میں ’خواتین عملے کو ہر طرح کا مناسب تحفظ حاصل ہے اوراگر ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو ذمہ داروں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔‘

انصاف کے تقاضے پورے ہونگے: ترجمان پنجاب حکومت

جب پنجاب حکومت کی ترجمان عظمی بخاری سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ کہ فیصل آباد ہسپتال واقعے کو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور حکومت پنجاب نے بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔

’اس واقعہ کا مقدمہ باقاعدہ درج ہوچکا ہے۔ ہم خاتون سکیورٹی گارڈ کے تحفظ کو ہر صورت میں یقینی بنائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بدقسمتی ہے کہ خواتین کے ساتھ کام کرنے والی جگہوں اور بالخصوص ہسپتالوں میں اس طرح کا واقعہ ہو۔ پنجاب حکومت کام کرنے والی جگہیں اور بالخصوص جہاں پر خواتین کام کرتی ہیں ان کو محٖفوظ بنانے کے اقدامات کر رہی ہے اور ایسے واقعات کو عدالتوں میں خصوصی طور پر ٹرائل کروانے کے لیے ایک خصوصی یونٹ بھی بنایا جا رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس یونٹ کے تحت ’خواتین، بچوں اور ٹرانس جینڈر کے کیسز کی خصوصی نگرانی کی جائے گی تاکہ عدالتوں میں ان کے کیسز کی خصوصی پیروی ہو اور ملزمان انصاف کے تقاضوں سے بچ نہ سکیں۔‘

عظمی بخاری نے اس بات پر زور دیا کہ ’معاشرے کو بھی اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ معاشرے کو بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ اس نے بھی خواتین کو جگہ دینی ہے اور خواتین کے حقوق کا احترام کرنا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.