لاکھوں عقیدت مند ہندوؤن کے معروف تہوار کمبھ میں شرکت کے لیے شمالی انڈیا کے قدیم شہر پریاگ راج (الہ آباد) پہنچ رہے ہیں۔
معروف تہوار کمبھ میں شرکت کے لیے لاکھوں عقیدت مند ہندو شمالی انڈیا کے قدیم شہر پریاگ راج (الہ آباد) پہنچ رہے ہیں۔
ہر 12 سال میں منعقد ہونے والے اس میلے (مہا کمبھ) کو دنیا میں انسانوں کا سب سے بڑا اجتماع کہا جاتا ہے۔
یہ پیر کے روز شروع ہو کر اگلے چھ ہفتوں تک جاری رہے گا۔ اس دوران دنیا بھر سے آنے والے عقیدت مند سنگم پر غسل کریں گے۔ سنگم وہ جگہ ہے جہاں ہندو عقیدے کے مطابق مقدس دریا گنگا، جمنا اور اساطیری دریا سرسوتی ملتے ہیں۔
ہندوؤں کا ماننا ہے کہ مقدس دریا میں ڈبکی لگانے (غسل کرنے) سے وہ اپنے پاپ دھو لیں گے اور گناہوں سے پاک ہو جائیں گے۔ اس سے ان کی روح پاک ہوگی اور انھیں پیدائش اور موت کے چکر سے آزادی ملے گی۔ ہندو مذہب کا حتمی مقصد نجات ہے۔
اس 45 روزہ میلے میں تقریباً 40 کروڑ عازمین کی شرکت متوقع ہے۔ یہ اتنے بڑے رقبے میں پھیلا ہوا اجتماع کہ اسے خلا سے دیکھا جا سکتا ہے۔
پیر کو پانچ سے 80 لاکھ عقیدت مندوں کے نہانے کی توقع کی جا رہی ہے جبکہ اگلے دن اس کے دو کروڑ سے تجاوز کرنے کی توقع گئی ہے۔
منگل کے روز کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس روز راکھ سے آلودہ ننگ دھڑنگ ہندو سادھو جن کو نانگا سادھو کے نام سے جانا جاتا ہے، صبح کے وقت شمالی انڈین شہر میں ڈبکی لگاتے ہوئے نظر آئیں گے۔
وقت کے خلاف دوڑ
شہر کی انتظامیہ لاکھوں افراد کی میزبانی کے لیے تیار کرنے کے لیے کوشاں ہے اور ان کی وقت کے خلاف دوڑ جاری ہے۔
زائرین اور سیاحوں کی رہائش کے لیے دریا کے کنارے 4000 ہیکٹر پرایک وسیع ٹینٹ سٹی قائم کیا گیا ہے لیکن اتوار کو میلہ شروع ہونے صرف چند گھنٹے پہلے بھی پریاگ راج میں وسیع پیمانے پر کام جاری تھا۔
سادھوؤں اور دیگر مذہبی گروہوں کے قائم کردہ کیمپوں میں سے کچھ میں پانی اور وقفے وقفے سے بجلی کی فراہمی نہیں تھی۔
ہزاروں ٹوائلٹ کیوبیکلز ابھی تک قائم ہونے باقی ہیں اور پہلے سے نصب بہت سے بیت الخلا پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ناقابل استعمال ہیں۔
انتظامیہ کے اہلکار وویک چترویدی نے بی بی سی کو بتایا کہ منتظمین رواں سال مون سون کا پانی کم ہونے میں زیادہ وقت لگا جس کی وجہ سے تعمیراتی سرگرمیوں کے لیے کم وقت ملا لیکن، انھوں نے زور دے کر کہا کہ 'تیاریاں تقریباً مکمل ہیں اور زائرین کے استقبال کے لیے تمام نظام موجود ہوں گے۔'
انھوں نے مزیدکہا: 'ہم نے 650 کلومیٹر (403 میل) پر عارضی سڑکیں بچھا دی ہیں اور دسیوں ہزار خیمے اور بیت الخلاء قائم کیے ہیں۔ 100,000 سے زیادہ لوگ جن میں 40,000 سے زیادہ پولیس اور سکیورٹی اہلکار شامل ہیں، اسے کامیاب بنانے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں۔'
کمبھ میلہ کیا ہے؟
26 فروری کو اختتام پذیر ہونے والے اس تہوار کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے انسانیت کے ناقابل تسخیر ورثے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
اس کی بنیاد دیوتاؤں اور راکشسوں کے درمیان امرت کے ایک کمبھ (ایک گھڑے) کے لیے لڑائی کے بارے میں ایک افسانوی کہانی میں پنہاں ہے جو سمندر کے منتھن (کھنگالنے) کے دوران نکلا تھا۔
جیسے ہی دونوں فریق امرت کے کمبھ (برتن) پر لڑ رہے تھے کیونکہ اس کے پینے سے ان سے لافانی ہونے کا وعدہ کیا گیا تھا تو اس میں سے چند قطرے چھلک پڑے اور چار شہروں پریاگ راج، ہریدوار، اجین اور ناسک میں گرے۔
یہ لڑائی 12 آسمانی سالوں تک جاری رہی تھی اور ہر ایک آسمانی سال زمین کے 12 سال کے برابر ہے۔ اس لیے کمبھ میلہ ان چاروں شہروں میں ہر 12 سال منعقد ہوتا ہے۔ درمیان میں ایک اردھ کمبھ یعنی نصف کمبھ ہوتا ہے جسے ہر چھ سال پر منعقد کیا جاتا ہے۔
میلے کا انعقاد چاروں شہروں میں ہوتا ہے لیکن سب سے بڑا مجمع ہمیشہ پریاگ راج میں ہوتا ہے اور وہی ریکارڈ میں جاتا ہے۔
مہا کمبھ 12 سال یا 144 سال پر آتا ہے
معمر ہندو سادھو مہنت رویندر پوری نے کہا کہ اس بار کا تہوار 'زیادہ خاص' ہے اور اس لیے اسے انھوں نے 'مہا (عظیم) کمبھ' کے طور پر بیان کیا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاروں اور ستاروں کی موجودہ صف بندی اس سے ملتی جلتی ہے جو اس کے چھلکنے کے وقت موجود تھی۔'
انھوں نے کہا: 'اس طرح کا کمال 12 کمبھ تہواروں یا 144 سال کے بعد دیکھا جا رہا ہے۔'
تہوار میں جانے والوں کے لیے ایک بڑی کشش برہنہ ناگا سادھوؤں، یا سنیاسیوں کی موجودگی ہے۔ اور انھیں ٹھنڈے پانیوں میں غوطہ لگاتے ہوئے دیکھا ایک تماشہ ہے۔
لیکن عقیدت مندوں کے لیے اس کی خاص اہمیت ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ پانی سادھوں کے افکار و خیالات اور اعمال کی پاکیزگی سے متاثر ہوتا ہے۔
دو دن قبل سنیچر کو ناگا سادھوؤں کا یا گروہ بہت شور شرابے کے ساتھ میلے کے میدان میں پہنچے۔
جسم پر راکھ ملے آدمیوں کا ایک گروہ جن میں کچھ ننگے اور کچھ نے صرف کمر کے کپڑے میں ملبوس یا گلے میں گیندے کی مالا، ترشول، تلواریں اور ڈھولک لیے وہاں پہنچے۔
ایک اور گروپ اپنے رہبروں کو رتھوں پر سوار کراکے ایک بڑے جلوس میں میوزک بینڈ، رقاصوں، گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ اپنے کیمپ کی طرف لے گئے۔
غسل کے بڑے دن کون کون سے ہیں؟
نہانے کی تاریخوں اور اچھے اوقات کا فیصلہ نجومی مخصوص سیاروں اور برجوں کی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔
اس بار نہانے کے لیے چھ مخصوص دن ہیں:
13 جنوری: پوش پورنیما
14 جنوری: مکر سنکرانتی
29 جنوری: مونی اماوسیہ
3 فروری: بسنت پنچمی
12 فروری: ماگھ پورنیما
26 فروری: مہا شیوراتری
ان میں سے تین 14 اور 29 جنوری، اور 3 فروری کو شاہی اسنان (یا شاہی غسل) کے طور پر نامزد کیا گیا ہے جب ناگا سادھو غسل کریں گے۔
سب سے بڑا اجتماع 29 جنوری کو متوقع ہے جب 50 سے 60 ملین عقیدت مند دریا میں غسل کریں گے۔
شہر میں سجاوٹ
ساحل دریا سے دور پریاگ راج شہر کو اس بڑے تہوار کے لیے سجایا گیا ہے۔
حکام نے بتایا کہ تقریباً 200 سڑکوں کو وسیع کیا گیا ہے اور سنگم کی طرف جانے والے پر تازہ پینٹ کیا گیا ہے، جب کہ دیواروں کو رنگ برنگی پینٹنگز اور مورال سے سجایا گیا ہے جس میں ہندو افسانوی متون کی کہانیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔
دسیوں ہزار زائرین جن میں کئی بیرونی ممالک سے بھی شامل ہیں، پہلے ہی شہر پہنچ چکے ہیں۔
ارجنٹائن سے 90 رکنی گروپ کے ایک حصے کے طور پر آنے والے سیبیشیئن ڈیاگو نے کہا کہ اس نے یہ سفر 'بذات خود عقیدتمندی کا تجربہ کرنے' کے لیے کیا۔
انھوں نے کہا کہ 'میں نے گنگا کی کشش کو محسوس کیا تو میں آیا۔
'میں دریا میں غسل کروں گا کیونکہ مجھے گنگا سے جڑنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔'
تہوار کتنا بڑا ہے؟
رقبہ: 4,000 ہیکٹر
160,000 خیمے۔
40,000 پولیس اور سیکیورٹی اہلکار
15,000 صفائی کارکن
نصف ملین سے زیادہ گاڑیوں کے لیے 99 پارکنگ لاٹس
دریا پر 30 تیرتے پونٹون پل
67,000 سٹریٹ لائٹس
150,000 بیت الخلاء؛ 25,000 ڈبے
200 واٹر اے ٹی ایم اور 85 ٹیوب ویل
انڈین حکومت نے کہا کہ وہ تہوار کے انعقاد پر 70 ارب روپے (812 ملین ڈالر) خرچ کر رہی ہے اور مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاستی حکومت کو اس سے 250 ارب روپے کی آمدن ہوگی۔
بڑے کیمپ سائٹس کے سنتوں اور رہنماؤں نے کہا کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر میلے کے انعقاد کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں، لیکن کچھ یاتریوں نے سہولیات کی کمی کی شکایت کی۔
زعفرانی لباس میں ملبوس 60 سالہ سادھو بابا امرناتھ جی نے بی بی سی کو ایک چھوٹا سا خیمہ دکھایا جو انھوں نے اپنے لیے کپڑوں اور پلاسٹک کی چادروں کے ساتھ تین بانس کے کھمبوں پر باندھا تھا۔
انھوں نے کہا کہ پہلے منعقدہ کمبھ میلوں میں وہ انتظامیہ کی طرف سے لگائے گئے خیموں میں مفت سو سکتے تھے لیکن اس بار ایسی کوئی سہولت نہیں ہے۔
'پولیس مجھے یہاں سے بھگانے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن میں کہاں جاؤں؟ ہر کوئی کہتا ہے کہ یہ میلہ مجھ جیسے سادھوؤں کے لیے ہے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تمام انتظامات صرف سیاحوں کے لیے کیے جا رہے ہیں۔'