گیلپ پاکستان نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق تقریباً 24 ملین یعنی دو کروڑ سے زائد پاکستانی شہری سگریٹ نوشی میں مبتلا ہیں جبکہ سالانہ ایک لاکھ 60 ہزار افراد سگریٹ نوشی کے سبب مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان میں سگریٹ کی قیمت میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔بالخصوص پچھلے دو برس میں مقامی سطح پر بننے والی سگریٹس کی قیمتیں بھی لگ بھگ 100 سے 300 فیصد بڑھی ہیں، اس کے باوجود سگریٹ کی لت میں مبتلا افراد کی تعداد میں کچھ خاص کمی نہیں ہوئی۔اس سروے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کے تقریباً 20 فیصد افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں جو ایک بڑی تعداد ہے۔ماہرینِ نفسیات و سماجیات کا خیال ہے کہ پاکستان میں سگریٹ کی قیمت بڑھانا اس مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اصل چیلینج نوجوانوں کی نفسیاتی تربیت ہے۔ماہر نفسیات ڈاکٹر انزا جاوید بٹ کہتی ہیں کہ ’پاکستان کی نوجوان نسل میں تمباکو نوشی نئی بات نہیں، اس وقت اس رجحان کی سب سے بڑی وجہ پاپولر کلچر ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’سگریٹ میں نشہ آور کیمیائی عناصر ہوتے ہیں جن سے نشے کی لت میں مبتلا ہونا لازم امر ہے۔‘’نکوٹین نشہ آور کیمیائی مادہ ہے۔ نشے کے عادی افراد عموماً اپنے ذہن کو کسی دباؤ سے بچانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔‘’جو افراد ایک مرتبہ سگریٹ کی طرف سماجی دباؤ یا کسی اور وجہ سے جاتے ہیں، اس کے بعد وہ سگریٹ کو ذہنی دباؤ سے دور ہونے کا ایک ذریعہ بنا لیتے ہیں۔‘
گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان میں سگریٹ کی قیمت میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
نشہ آور اشیاء سے متعلق ایک دہائی سے زیادہ کا تجربہ رکھنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر شاہ زیب کہتے ہیں کہ ’کسی بھی آبادی میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کی یہ تعداد تباہی نہیں بلکہ اس سے آگے کی چیز ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میرے پاس جتنے مریض نشے کے علاج کے لیے آتے ہیں، ان سب نے آغاز سگریٹ ہی سے کیا ہوتاہے۔ سگریٹ نشے کی طرف جانے کی پہلی سیڑھی ہے۔‘’میرا تجربہ کہتا ہے کہ نشہ بیماری تو ہے ہی ہے لیکن اس کی وجوہات جذباتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بچوں کی نشونما اور تربیت صحت مند ماحول میں نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے نوجوان جذباتی طور پر مضبوط اعصاب کے مالک نہیں ہیں۔‘’اسی جذباتی خلا کو پورا کرنے کے لیے وہ نشہ آور اشیاء کی طرف جاتے ہیں اور آغاز سگریٹ نوشی سے کرتے ہیں۔‘