جنگ بندی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ اس کی کوشش بہت عرصے سے جاری تھی۔ گذشتہ سال مئی میں امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے اس معاہدے کا اعلان کیے جانے کے بعد سے اس معاہدے کے کئی ورژن زیر بحث رہے ہیں۔
ایک سینیئر فلسطینی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ جنگ بندی کے پہلے دن حماس تین خواتین اسرائیلی فوجیوں کو رہا کرے گا اور دوسری جانب دوحہ میں مذاکرات کے ثالث ان کوششوں میں لگے ہیں کہ جنگ بندی اتوار کے بجائے جمعرات کی شام ہی شروع ہو جائے۔
جنگ بندی کے نفاذ تک سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی یہ جنگ جاری رہے گی۔
جس وقت جنگ بندی کا اعلان ہوا تب بھی شمالی غزہ پر اسرائیلی حملے جاری تھے جن میں کم از کم 12 فلسطینی ہلاک ہوئے۔
شمالی غزہ سے ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایمبولینسوں سے مرنے والوں کی چادروں میں لپٹی لاشیں نکال کر ہسپتال کے باہر قطار میں رکھی جا رہی ہیں۔ گذشتہ 15 ماہ کے دوران غزہ میں یہ معمول بن چکا ہے۔
جنگ بندی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے جس کی کوششیں کافی عرصے سے جاری تھیں۔ گذشتہ سال مئی میں امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے اس معاہدے کا اعلان کیے جانے کے بعد سے اس معاہدے کے کئی ورژن زیر بحث رہے ہیں۔
حماس اور اسرائیل اس معاہدے پر عملدرآمد میں تاخیر کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے آئے ہیں۔
غزہ کے علاقے خان یونس میں بی بی سی کے لیے کام کرنے والے صحافیوں نے جب فلسطینیوں کو رقص کرتے اور نعرے لگاتے دیکھا تو یہ واضح ہو گیا کہ جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔
اسرائیل بین الاقوامی صحافیوں کو غزہ میں آزادانہ طور پر رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دیتا اس لیے بی بی سی اور دیگر خبر رساں ادارے خبریں جمع کرنے کے لیے بہادر فلسطینی صحافیوں پر انحصار کرتے ہیں۔
گذشتہ 15 ماہ کی جنگ کی رپورٹنگ ان کے بغیر ناممکن تھی۔ اسرائیل غزہ میں 200 سے زائد فلسطینی صحافیوں کو قتل کر چکا ہے۔
ایک معمر فلسطینی خاتون ام محمد نے ہمارے ایک صحافی کو بتایا کہ وہ بہت خوش ہیں اور راحت محسوس کر رہی ہیں۔
’درد ابھی بھی ہے لیکن اب تھوڑا کم ہو گیا ہے۔ امید ہے کہ اس کی جگہ خوشی لے لے گی۔ ہمارے قیدیوں کو رہا اور زخمیوں کا علاج ہونے دیں۔ لوگ تھک چکے ہیں۔‘
زندہ رہنے کے علاوہ غزہ میں فلسطینیوں کے لیے جشن منانے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے۔ اسرائیل نے کم از کم 50 ہزار افراد کو ہلاک کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
ساتاکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے جانے والے حملوں میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر اسرائیلی شہری تھے۔ ان حملوں کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کو کھنڈر میں بدل دیا۔
حماس کے زیرِانتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک تقریباً 50 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں جنگجو اور عام شہری دونوں شامل ہیں۔ لانسیٹ میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ یہ تخمینہ بہت کم ہو سکتا ہے۔
تل ابیب میں اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلِخانہ اور ان کے حامیوں کے لیے بھی یہ ایک ملا جلا لمحہ ہے۔
جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں اگلے چھ ہفتوں کے دوران سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گے جن میں خواتین، بزرگ مرد اور بیمار اور زخمی شامل ہوں گے لیکن باقی یرغمالیوں کے مستقبل کا انحصار آنے والے دنوں میں ہونے والے مذاکرات پر ہے۔
دوسرے مرحلے میں فلسطینی قیدیوں کے بدلے باقی اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیل کے انخلا پر مذاکرات جنگ بندی کے 16 روز بعد شروع ہوں گے۔
پہلا بڑا چیلنج اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے۔ سینیئر مغربی سفارتکاروں کو خدشہ ہے کہ 42 دن کے پہلے مرحلے کے بعد جنگ ایک بار پھر شروع ہو سکتی ہے۔
غزہ جنگ کے پورے مشرق وسطیٰ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تاہم اس سے خطے میں طویل جنگ شروع نہیں ہوئی جس کا بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا۔ بائیڈن انتظامیہ نے اس بات کا سہرا اپنے سر لیتی ہے۔ لیکن اس جنگ کے نتیجے میں خطے میں کافی جیو سٹریٹیجک تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
حماس اب بھی لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم پہلے کے مقابلے میں یہ کافی کمزور ہو چکی ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بینامن نتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع پر بین الاقوامی فوجداری عدالت نے جنگی جرائم کا الزام عائد کیا ہے جبکہ بین الاقوامی عدالت انصاف جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل پر نسل کشی کے الزام کے مقدمے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
لبنان میں حزب اللہ کی جانب سے جنگ میں مداخلت کے بعد بالآخر اسرائیل نے اسے شکست دے دی اور یہی شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کا سبب بھی بنی۔
ایران اور اسرائیل کی جانب سے ایک دوسرے پر براہِ راست حملے کیے گئے جس کے بعد کافی ایران کافی کمزور دکھائی دیتا ہے۔ اس کا اتحادیوں پر مشتمل نیٹ ورک جسے تہران مزاحمت کا محور کہتا تھا مفلوج ہو چکا ہے۔
یمن میں حوثیوں نے بحیرہ احمر سے گزرنے والے یورپ اور ایشیا کے درمیان زیادہ تر جہاز رانی روک دی ہے۔ اب اطلاعات ہیں کہ انھوں نے بھی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔
جنگ کے آغاز میں جہازوں پر حملے شروع کرنے کے بعد حوثیوں نے کہا تھا کہ صرف غزہ میں جنگ بندی ہی انھیں روک سکتی ہے۔
اگر قسمت نے ساتھ دیا توناگزیر خلاف ورزیوں کے باوجود سیاسی عزم اور سخت سفارتی کوششوں سے جنگ بندی جاری رہے گی۔ اگر قسمت نے ساتھ دیا تو یہ قتل عام رک سکتا ہے اور اسرائیلی یرغمالی اور فلسطینی قیدی اپنے اہل خانہ کے پاس واپس لوٹ سکیں گے۔
لیکن غزہ میں 15 ماہ کی جنگ کے بعد بھی ایک صدی سے زیادہ عرصے سے جاری تنازع پہلے کی طرح تلخ اور ناقابلِ حل ہے۔
جنگ بندی سے تنازع ختم نہیں ہوا۔ اتنی تباہی اور ہلاکتوں کے نتائج کم از کم ایک نسل تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔