190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے سے قبل سزاؤں کی ’بریکنگ نیوز‘ اور تجزیے: ’یہ بھی المیہ ہے کہ عدالتی فیصلوں کا علم صحافیوں کو پہلے ہو جاتا ہے‘

احتساب عدالت نے عمران خان کو 190 پاؤنڈ کیس میں 14 برس کی قید اور 10 لاکھ روپے جُرمانے کی سزا سُنا دی تھی، جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سات برس کی قید اور پانچ لاکھ روپے جُرمانے کی سزا سُنائی گئی۔
190 ملین پاؤنڈ کیس
Getty Images
احتساب عدالت نے عمران خان کو 190 پاؤنڈ کیس میں 14 برس کی قید اور 10 لاکھ روپے جُرمانے کی سزا سُنا ئی ہے

'یہ بڑا فیصلہ ہے جس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی، کہا یہ جا رہا تھا کہ سزا ہو جائے گی۔۔۔ اوپن اینڈ شٹ کیس کہا جا رہا تھا لیکن یہاں پر بری کر دیا گیا ہے بانی پی ٹی آئی (عمران خان) کو۔'

پاکستانی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز پر جمعے کو 11 بج کر 51 منٹ پر خبر دی گئی کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈ کیس میں بری کر دیا گیا ہے اور ایسی ہی خبر ہم نیوز پر بھی نشر کی گئی، لیکن کچھ گھڑیاں گزرنے کے بعد جو خبریں منظرِعام پر آنا شروع ہوئیں وہ اس ’بڑے فیصلے‘ سے یکسر مختلف تھیں۔

احتساب عدالت نے عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈ کیس میں 14 برس کی قید اور 10 لاکھ روپے جُرمانے کی سزا سُنا دی تھی، جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سات برس کی قید اور پانچ لاکھ روپے جُرمانے کی سزا سُنائی گئی۔

190 ملین پاؤنڈ کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ اس سے قبل تین مرتبہ مؤخر کیا گیا تھا اور آخری سماعت میں احتساب عدالت کے جج رانا ناصر جاوید نے کہا تھا کہ انھوں نےیہ فیصلہ لکھ لیا ہے۔

یہ ’محفوظ‘ عدالتی فیصلہ اس وقت تنازعات کا شکار ہونا شروع ہوا جب متعدد صحافیوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر یہ ’خبر‘ دینی شروع کی کہ عمران خان کو اس مقدمے میں سزا ہو جائے گی۔

اے آر وائی نیوز سے منسلک اینکر پرسن مہر بخاری نے فیصلے کے اعلان سے ایک دن قبل خبر دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈ القادر کرپشن کیس میں 14 برس جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سات برس قید کی سزا ہو گی۔

ایسے ہی ایک ’خیال‘ کا اظہار ایک اور پاکستانی اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے بھی کیا: ’کل 190 ملین پاؤنڈ کیس، 14 سال اور سات سال۔‘

اسی طرح کا ’تجزیہ‘ اے آر وائی نیوز سے منسلک کورٹ رپورٹر حسن ایوب بھی دیتے ہوئے نظر آئے: ’بطور کورٹ رپورٹر میرا تجزیہ یہ ہے کہ عمران خان کی (سزا کی) مدت اپنی اہلیہ سے دو تین سال زیادہ ہو گی یعنی اگر عمران خان کو دس سال سزا ہوئی تو بشریٰ بی بی کو سات سال ہو گی۔‘

اسی طرح کی خبروں اور تجزیوں کے سبب عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور دیگر متعدد شخصیات کی جانب سے یہ سوالات اُٹھائے گئے کہ آخر عدالت کی جانب سے فیصلے کے اعلان سے قبل ہی ان فیصلوں کی خبر صحافیوں کو کیسے مل جاتی ہے؟

جمعے کو فیصلے کے اعلان سے قبل اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما سلمان اکرم راجہ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بھی ایک المیہ ہے کہ عدالتی فیصلوں کا علم بعض صحافی حضرات کو پہلے سے ہو جاتا ہے۔‘

190 ملین پاؤنڈ کیس
Getty Images
سابق وزیرِ اعظم عمران خان راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں

ایک پاکستانی صحافی نے بھی طنزاً ایک پوسٹ میں لکھا کہ: ’القادر کیس کا منصفانہ فیصلہ ایسا تھا کہ جہاں لکھا گیا وہاں سے اعلان سے پہلے ہی جاری ہو گیا۔ اتنی بار تاخیر ہو چکی تھی کہ فیصلہ خود بھی اپنے آپ کو روک نہ پایا۔‘

’جیل ٹرائل کو سُننے والے بیچارے چار صحافی ہوتے ہیں اور فیصلہ ان کو چھوڑ کر درجنوں صحافیوں نے پہلے ٹویٹ کر دیا۔‘

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ لوگوں نے یہ دعوے کیے ہوں کہ کچھ افراد کو عدالتی فیصلوں کا علم ان فیصلوں کے اعلان سے قبل ہو جاتا ہے۔

اس سے قبل پنجاب کی موجودہ وزیرِ اعلیٰ مریم نواز بھی ماضی میں دعویٰ کر چکی ہیں کہ ان کے والد سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو جب پانامہ لیکس کیس میں سزا سُنائی گئی تو عدالت میں موجود ججز کی بیویوں اور بچوں کو فیصلے کا پہلے سے علم تھا۔

190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے کے اعلان سے قبل درست ثابت ہونے والی تمام 'خبروں'، 'تجزیوں' اور 'خیالات' کے سبب اب عدالتی کارروائی پر ہی سوالات اُٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔

اینکر پرسن مہر بخاری خود پر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے اپنی ایک پوسٹ میں کہتی ہیں کہ: 'لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کارکنان چاہتی ہے، صحافی نہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی خبر پی ٹی آئی کو ناگوار گزرے تو انھیں 'اسٹیبلشمنٹ کا ترجمان' کہا جاتا ہے، جبکہ اگر ’انسانی حقوق کی زیادتیوں کی اطلاع دیں تو اچانک ہم صراطِ مستقیم پر ہیں۔‘

اینکر پرسن پر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے پاکستانی صحافی و اینکر پرسن حامد میر کہتے ہیں کہ 'صحافی کا کام خبر دینا ہے۔ مہر بخاری کی خبر درست ثابت ہوئی، اب جج صاحب سے پوچھا جائے کہ آپ کا فیصلہ لیک کیسے ہوا؟'

'جج اور عدلیہ کی ساکھ پر سوال اُٹھتے ہیں'

پاکستان کے نظامِ عدل پر نظر رکھنے والے ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ فیصلوں کے عدالتی اعلان سے قبل ان فیصلوں سے متعلق خبروں کا میڈیا یا سوشل میڈیا پر آجانا 'جج اور عدلیہ کی ساکھ' پر سوالات کو جنم دیتا ہے۔

ماضی میں بطور جج خدمات سرانجام دینے والے ماہرِ قانون شاہ خاور کہتے ہیں کہ ’اس سے عدلیہ اور جج کی ساکھ پر بات آتی ہے‘ لیکن ان کے خیال میں ایسے فیصلے کسی جج کے پاس سے لیک ہونا ممکن نہیں ہے۔

190 ملین پاؤنڈ کیس
Getty Images
پی ٹی آئی کے رہنما سلمان اکرم راجہ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ بھی ایک المیہ ہے کہ عدالتی فیصلوں کا علم بعض صحافی حضرات کو پہلے سے ہو جاتا ہے'

انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ جو یہ تحقیقاتی صحافی یا کرائم رپورٹرز ہوتے ہیں اگر ان کی رسائی سٹینوگرافر تک ہو تو وہاں سے فیصلے لیک ہو سکتے ہیں۔‘

وہ ماضی میں بطور جج اپنی پریکٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب میں کوئی محفوظ فیصلہ لکھواتا تھا تو اس وقت اس کا آپریٹو پارٹ نہیں لکھواتا تھا بلکہ اسے اس دن ہی لکھواتا تھا جس دن فیصلہ سُنانا ہوتا تھا تاکہ فیصلہ خفیہ رکھا جا سکے۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلوں کا لیک ہوجانا کوئی نئی پریکٹس نہیں اور ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔

ماضی میں متعدد وکلا تنظیموں کے عہدیدار عابد ساقی بھی کسی حد تک شاہ خاور سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جن ممالک میں نظامِ عدل اپنے مضبوط ستونوں پر کھڑا ہوتا ہے وہاں فیصلے لیک نہیں ہوتے۔‘

کیا فیصلوں کے لیک ہونے پر کوئی قانونی کارروائی ہو سکتی ہے؟

عابد ساقی کہتے ہیں کہ فیصلے لیک ہونے پر اگر کوئی کارروائی ہوگی بھی تو ’یہ مانا ہی نہیں جائے گا کہ فیصلہ لیک ہوا ہے بلکہ کہہ دِیں گے کہ یہ تو قیاس آرائیاں ہیں۔‘

سابق جج شاہ خاور کہتے ہیں کہ ایسا ہوتا بھی کہ اکثر اوقات صحافی ’پیش گوئی کر رہے ہوتے ہیں یا تُکّے لگا رہے ہوتے ہیں۔‘

اے آر وائی سے منسلک صحافی حسن ایوب کہتے ہیں کہ صحافی اکثر اپنے تجربے کی بنیاد پر بھی فیصلوں کی پیش گوئی کر رہے ہوتے ہیں۔

’عمران خان کے حوالے سے میں کہہ رہا تھا کہ انھیں 10 برس سزا ہو گی لیکن یہ میرا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ بشریٰ بی بی کے حوالے سے میں نے کہا تھا کہ سات برس سزا ہوگی کیونکہ یہ کم سے کم سزا تھی اور اس خبر کی بنیاد یہ تھی کہ ہمارے ججز عموماً خواتین کے حوالے سے نرم رویہ رکھتے ہیں۔‘

تاہم شاہ خاور کا کہنا تھا کہ فیصلے کے اعلان سے قبل اُسے لیک کرنے پر کارروائی بہرحال کی جا سکتی ہے لیکن ضلعی عدالت کے جج صاحبان 'توہین عدالت کا نوٹس' لینے کے اختیارات نہیں رکھتے۔

ان کے مطابق توہینِ عدالت کا نوٹس لینے کا اختیار صرف ہائی کورٹس، سپریم کورٹ اور وفاقی شریعت کورٹ کے پاس ہوتا ہے۔

تاہم 'ضلعی عدالت کے جج ہائی کورٹ کو لکھ سکتے ہیں کہ قبل از وقت فیصلہ نشر کرنا انصاف کی راہ میں رُکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے اور اس صورت میں توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔'


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.