مراکش کے ساحل کے قریب ڈوبنے والی ایک کشتی کے مسافر یورپ جانے کے خواہشمند تھے مگر 13 دن کے اس پُرخطر سمندری سفر کے دوران انھیں نہ صرف بھوک اور پیاس میں تنہا چھوڑ دیا گیا بلکہ سمگلروں نے بعض تارکین وطن کو ’تشدد کا نشانہ بنا کر سمندر میں پھینک دیا۔‘
مراکش کے ساحل کے قریب ڈوبنے والی ایک کشتی کے مسافر یورپ جانے کے خواہشمند تھے مگر 13 دن کے اس پُرخطر سمندری سفر کے دوران انھیں نہ صرف بھوک اور پیاس میں تنہا چھوڑ دیا گیا بلکہ سمگلروں نے بعض تارکین وطن کو ’تشدد کا نشانہ بنا کر سمندر میں پھینک دیا۔‘
تارکین وطن کے حقوق کی تنظیم واکنگ بارڈرز سے منسلک ہلینا ملینو کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو لے جانے والی اس کشتی کے حوالے سے خدشہ ہے کہ اس میں سوار کل 86 افراد میں کم از کم 50 لوگ ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 44 پاکستانی شہری ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان لوگوں نے بڑی مشکل سے سمندر میں قریب دو ہفتے گزارے جس دوران انھیں ریسکیو کرنے کوئی بھی نہ پہنچ سکا تھا۔
مراکشی حکام نے اس واقعے میں 36 افراد کو بچایا ہے جنھیں بندرگاہ دخلہ کے قریب ایک خیمے میں رکھا گیا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بچنے والے 21 پاکستانی شہریوں کی فہرست جاری کی ہے۔
کشتی کے اس 13 روزہ سفر سے زندہ بچنے والے افراد کا کہنا ہے کہ سمگلروں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر ان پر تشدد کیا جاتا تھا اور بعض مسافروں کو 'سمندر میں پھینک دیا گیا۔'
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے عزیر بٹ اس کشتی میں سوار تھے جو پُرخطر راستے سے سپین کے کنیری جزیرےجا رہی تھی مگر ان کے بقول یہ کشتی کئی دن تک سمندر میں پھنسی رہی جس دوران بے یار و مددگار مسافروں کو کئی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ زندہ بچنے والے افراد اور مرنے والوں کے لواحقین سے رابطے میں ہیں جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اس واقعے پر تحقیقات کا حکم دیا ہے اور ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ٹیم مراکش بھیجی ہے۔
’لوگوں کو ہتھوڑے سے مار کر سمندر میں پھینکا گیا‘
مراکش کی بندرگاہ دخلہ کے قریب کشتی حادثے میں بچنے والے عزیر بٹ کے مطابق یہ سفر نئے سال کے آغاز پر 2 جنوری کو شروع ہوا تھا مگر اسے 5 جنوری کو سمندر کی ویرانی میں روک دیا گیا تھا۔
عزیر بٹ یاد کرتے ہیں کہ پانچ جنوری کو رات کی تاریکی میں کشتی کو ایسے ویران مقام پر روک دیا گیا تھا جہاں سے کوئی دوسری کشتی نہیں گزر رہی تھی۔
اس کے بعد سمگلروں نے کچھ لوگوں کو ’ایک دوسری کشتی میں سوار کیا‘ جس پر باقی مسافروں کی سمگلروں سے تلخ کلامی ہوئی۔ ’انھوں (سمگلروں) نے کشتی پر موجود سردی گرمی سے بچانے والا ترپال، ہمارے کپڑے، کھانے پینے کی اشیا، موبائل سب کچھ چھین لیا اور کشتی کو اس مقام پر بند کر کے دوسری کشتی میں بیٹھ کر چلے گئے۔‘
عزیر بٹ کا کہنا تھا کہ سمگلروں نے ’کشتی کو لاک کیا ہوا تھا۔ وہ پانی کی سطح پر خود بھی بہت زیادہ نہیں چل سکتی تھی۔ بس تھوڑا بہت اِدھر اُدھر ہوتی تھی۔‘
’وہ اذیت کی پہلی رات تھی۔ وہ ایسی رات تھی جو اکثریت لوگوں نے رو کر گزاری۔ کھلا آسمان سمندر، سردی اور ہم لوگ تھے۔ ہمیں نہیں پتا تھا کہ یہ رات تو کچھ نہیں آنے والے دن اور رات انتہائی خوفناک ہونے والے تھے۔‘
بچنے والے پاکستانی شہری مہتاب شاہ اس وقت دخلہ میں قائم ایک کیمپ میں موجود ہیں اور ان کا تعلق بھی گجرات سے ہے۔
مہتاب شاہ کہتے ہیں کہ ’جب اندھیرا چھٹا اور صبح ہوئی تو کچھ لوگ ایک اور کشتی میں سوار ہو کر آئے اور انھوں نے ہمارا جائزہ لیا اور منڈی بہاوالدین کے چار لڑکوں کو تھوڑا آگے بلایا۔ ان کے پاس چھوٹے ہتھوڑے تھے۔ ان ہتھوڑوں سے ان کے چہروں اور سر پر ضربیں لگائی اور پھر انھیں اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ان چار لڑکوں کو تو سمندر میں پھینکا گیا مگر وہاں پر موجود باقی سب لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کو لاتوں، مکوں اور ڈنڈوں سے مارا گیا۔ ہم لوگ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ ہمیں کیوں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔‘
مہتاب شاہ کا کہنا تھا کہ ’مار پیٹ کا سلسلہ چند گھنٹوں تک جاری رہا۔ وہ ایک ایسا علاقہ تھا جہاں پر سمندر میں کوئی بھی کشتی نہیں گزر رہی تھی۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ مدد مانگیں تو کس سے مدد مانگیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 'پھر ایک کشتی آئی اور وہ لوگ اس میں بیٹھ کر چلے گئے اور ہم لوگوں کو اس کشتی میں چھوڑ دیا تھا۔‘
مہتاب شاہ یاد کرتے ہیں کہ 10 دنوں تک سمگلر روزانہ ایک دوسری کشتی پر وہاں پہنچتے تھے اور کچھ لوگوں پر تشدد کر کے انھیں سمندر میں پھینک دیتے تھے۔
عزیر بٹ کہتے ہیں کہ ’ہمیں کوئی مدد نہیں مل رہی تھی۔ بھوک اور پیاس سے ہماری یہ حالت ہو چکی تھی کہ ہم اُٹھ کر بیٹھ نہیں سکتے تھے۔ کئی لوگ انتہائی بیمار ہوچکے تھے۔ کئی لوگوں نے وہاں پر اپنے گھر والوں کے لیے اونچی آواز میں وصیّتیں اور آخری پیغامات دیے کہ اگر کوئی بچ جائے تو وہ ضرور یہ پیغام ان کے گھر والوں تک پہنچا دے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 'اب صورتحال یہ ہوچکی تھی کہ ہمارا گلا اتنا خشک تھا کہ ہم لوگ سمندر کا پانی پیتے تھے۔ کچھ میں تو اتنی سکت بھی نہیں تھی کہ وہ ہاتھ کو نیچے کر کے سمندر کا پانی پی سکیں۔ تن پر صرف ایک جوڑا کپڑوں کا تھا۔حالت اتنی بری تھی کہ بتایا نہیں جاسکتا ہے۔'
عزیر بٹ کا کہنا تھا کہ 'اب وہ دن کے وقت کسی وقت بھی پہنچ جاتے تھے۔۔۔ وہ لوگ جب آتے توسب سے پہلے ہماری گنتی کرتے کہ پورے ہیں کہ نہیں۔ اس کے بعد دیکھتے کہ کون زیادہ نڈھال اور بیمار ہے، اس کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب وہ جاتے تو ہم شکر کرتے۔ باقی بچ جانے والے یہ امید اور دعا کرتے کہ ان کو کوئی مدد مل جائے۔‘
کئی دنوں تک پھنسے مسافروں کو کیسے ریسکیو کیا گیا
15 جنوری کے دن اس کشتی کو سفر پر نکلے 13 دن ہو چکے تھے۔
عزیر بٹ بتاتے ہیں کہ سمگلروں کی دوسری کشتی آتے دیکھ ’دو لڑکوں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی تھی۔ شاید یہ وہی تھی کہ ایک دن پہلے وہ (سمگلر) ان دو لڑکوں کو دیکھ کر اشارے کر رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کشتی میں سوار افراد نے بھی ان کو دیکھ لیا تھا۔ ہمیں تو یہ لگا کہ شاید وہ ان کو مرنے دیں گے مگر پتا نہیں کیا ہوا کہ انھوں نے ہی ان کو باہر نکالا اور حیرت انگیز طور پر اس کشتی کو چلایا گیا۔ کشتی کو ایک ویران مقام پر لا کر انھیں ایک کمرے میں بند کر دیا۔‘
مہتاب شاہ کا کہنا تھا کہ اس کمرے میں ایک لڑکا جو کہ سیالکوٹ کا رہائشی ہے، اس کے پاس موبائل اور پاکستانی نمبر تھا۔
وہ بتاتے ہیں ’پتا نہیں اس کے پاس موبائل کیسے بچ گیا تھا۔ اس لڑکے نے موبائل سے ہم سب کی تصویر اور مراکش میں موجود ایک پاکستانی لڑکے اور اپنے کچھ رشتہ داروں کو بھیج دی اور ان کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا تھا۔‘
تصویر بنانے والے نوجوان اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب وہ کشتی میں ہم سب لوگوں سے سب کچھ چھین رہے تھے تو اس وقت یہ موبائل میرے کپڑوں کی اندرونی جیب میں تھا جس کا ان کو پتا نہیں چل سکا تھا۔ اس موبائل میں چارجنگ بہت کم تھی اور یہ بند تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب انھوں نے ہمیں ساحل پر پہنچایا اور ہمیں ایک کمرے میں بند کیا تو نہ جانے میرے دل میں کیا آیا کہ میں نے وہ موبائل آن کیا تو اس پر کوئی وائی فائی سگنل آ رہے تھے۔
’بس میں نے جلدی سے اپنے قریبی جس جس کو تصویر بنا کر وائس مسیج کرسکتا تھا کردیا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہاں پر مدد پہنچ گئی اور ہمیں محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سپین کی میری ٹائم ریسکیو سروس کا کہنا ہے کہ اسے 10 جنوری کو معلوم ہوا تھا کہ موریطانیہ کے ساحل سے نکلنے والی ایک کشتی مشکلات کا شکار ہے تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو پائی تھی کہ اس میں تارکین وطن سوار ہیں کیونکہ فضائی کھوج کے دوران اسے ڈھونڈا نہیں جاسکا تھا۔
این جی او واکنگ بارڈز کے مطابق اس نے کئی روز قبل تمام ممالک کے حکام کو لاپتہ کشتی کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ ایک دوسری این جی او الارم فون کے مطابق اس نے 12 جنوری کو سپین کی میری ٹائم ریسکیو سروس کو کشتی کے حوالے سے اطلاع دی تھی۔
واکنگ بارڈرز کے مطابق 15 جنوری کو مراکشی حکام نے کشتی میں سوار 36 افراد کو بچایا جبکہ 2 جنوری کو سفر کے آغاز پر اس میں 66 پاکستانی شہریوں سمیت کل 86 افراد سوار تھے۔
ادھر پاکستان میں اس حوالے سے تحقیقات جاری ہے کہ ملک میں انسانی سمگلروں اور ایجنٹوں کے نیٹ ورک نے کس طرح لوگوں کو اس پُرخطر سفر پر روانہ کر کے موت کے منھ میں دھکیل دیا۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے تارکین وطن کو غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھیجنے میں ملوث سمگلروں کے خلاف تین مقدمات درج کیے ہیں جبکہ متاثرین کی اکثریت کا تعلق سیالکوٹ، گجرات اور منڈی بہاؤالدین کے علاقوں سے بتایا گیا ہے۔
ایف آئی اے نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ اس بارے میں بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ مختلف ہوائی اڈوں سے روانگی کے وقت ان نوجوانوں کو کیوں نہیں روکا گیا اور آیا اس میں ایف آئی اے کے اہلکاروں کی سہولت کاری بھی شامل تھی۔
’اچھے مستقبل کی خواہش میں زندگی کی بازی ہار گیا ہوں‘
اس واقعے میں ہلاک ہونے والے دو کزن عاطف اور سفیان کے رشتہ دار احسن شہزاد کا کہنا ہے کہ کشتی میں سوار کئی افراد کا تعلق گجرات سے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سپین پہنچانے کے لیے فی کس ایجنٹ کو ’35 لاکھ روپے ادا کیے گئے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب کشتی سمندر میں کھڑی تھی تو اس وقت میرا ایجنٹ سے رابطہ ہوا اور اس نے بھی میرے ساتھ کچھ ایسی بات کی کہ حالات بہت خراب ہیں۔۔۔ کوشش کررہے ہیں کہ حالات بہتر ہوجائیں اور جب یہ اطلاعات آئیں تو ایجنٹ منظر عام سے غائب ہوچکا تھا۔‘
احسن شہزاد کا کہنا تھا کہ عاطف اور سفیان دونوں پہلے دبئی میں ہوتے تھے۔ ’دبئی میں کام کچھ اچھا نہیں تھا تو یہ یورپ جانے کے لیے تیار ہوگئے۔
’عاطف کو تو ظالموں نے پہلے ہی مار دیا تھا جبکہ سفیان 13ویں دن بھوک، بیماری، تھکاوٹ اور پیاس کے ہاتھوں کشتی ہی میں مر گیا۔ ہم اپیل کرتے ہیں کہ اِن بچوں کی لاشوں کو پاکستان واپس لایا جائے۔‘
عاطف اور سفیان نے سوگواران میں بیوہ اور بچے چھوڑے ہیں۔
احسن نے بتایا کہ جب 24 سالہ سفیان اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے تو انھوں نے وہاں لڑکوں کو پیغام دیا کہ ’میرے گھر اور بچوں کو بتانا کہ تمھارا والد تمھارے اچھے مستقبل کی خواہش میں زندگی کی بازی ہار گیا ہے۔‘
ہر سال سینکڑوں پاکستانی شہری سمگلروں کی مدد سے زمینی اور سمندری راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوششوں کے دوران ہلاک ہوتے ہیں۔ پاکستان میں حکام کے مطابق انسانی سمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔
2023 کے دوران یونان کے ساحل کے قریب قریب 350 پاکستانیوں کو لے جانی والی کشتی الٹ گئی تھی جسے بحر اوقیانوس کے سب سے ہلاک خیز واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔