وزیرِ مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کے سرکاری ادارے ڈیجیٹل نہیں ہونا چاہتے، جس کے لیے وہ جنگ لڑ رہی ہیں۔بدھ کو اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے رکن سید امین الحق کی زیرِ صدارت قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں حکومت کے مجوزہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان بِل 2024 کے ایجنڈے پر غور کیا گیا۔وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے اپوزیشن جماعتوں کی تنقید کے جواب میں کہا کہ ڈیجیٹل نیشن بِل کے متعلق غلط تاثر دیا جا رہا ہے کہ شہریوں کا ڈیٹا ایک جگہ جمع ہو جائے گا، تاہم اس کے برعکس اقدام سے ادارے ڈیجیٹل ہوں گے اور لوگوں کے بنیادی مسائل حل ہوں گے۔انہوں نے کمیٹی کے اراکین کو بتایا کہ بل میں کچھ تبدیلیاں بھی لائی گئی ہیں جو کمیٹی ارکان کے سامنے رکھی گئی ہیں۔شزہ فاطمہ خواجہ کا کہنا تھا کہ ’قومی سطح پر سائبر سکیورٹی تھریٹس بڑھتے جا رہے ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر رشوت کو ختم کرنا ہے اور نظام میں شفافیت لانی ہے تو ڈیجیٹل ہونا پڑے گا۔‘دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور اپوزیشن کے دیگر اراکین کمیٹی نے ڈیجیٹل نیشن بل کی مخالفت کی اور کہا کہ حکومت پہلے انٹرنیٹ کو مکمل بحال کرے اور پھر ڈیجیٹلائزیشن پر بات کرے۔عمر ایوب نے کہا کہ ’ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے کے چیئرمین پہلے سے ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں۔ نادرا، پی ٹی اے میں ریٹائر فوجی جرنیل بیٹھے ہیں، آپ کے پروفیشنل کہاں ہیں؟ مجھے خدشہ ہے کہ اس بل کے ذریعے ڈیٹا کا غلط استعمال ہوگا۔‘عمر ایوب نے طنزیہ انداز میں کہا کہ شارک نے کاٹ کاٹ کر انٹرنیٹ کیبل کا ستیاناس کر دیا ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کی سست روی پر حکومت کو تنقید کا سامنا ہے۔ (فوٹو: انسٹاگرام)
بعد ازاں ڈیجیٹل نیشن بل 2024 کی منظوری کے حوالے سے ووٹنگ کروائی گئی، پی ٹی آئی کی مخالفت کے باوجود بِل کو چار کے مقابلے میں چھ ارکان کی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔
وفاقی حکومت ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 کے تحت دو نئے ادارے قائم کرے گی، جن کی مدد سے ملک کے مختلف شعبوں کو آپس میں جوڑ کر سرکاری امور کو ڈیجیٹلائز کیا جائے گا۔تاہم ماہرین کے خیال میں گورننس کی ڈیجیٹلائزیشن کے اقدامات لائق تحسین ہیں، لیکن ایسی قانون سازی سے قبل پارلیمان میں جامع بحث ہونی چاہیے۔ وگرنہ عجلت میں بل کی منظوری سے حکومتی اقدام متنازع بن سکتا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر اور مختلف سرکاری اداروں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھنے والے روحان ذکی کا کہنا ہے کہ حکومت بظاہر ایک آن لائن مرکزی نظام تشکیل دینا چاہ رہی ہے، جس کے تحت شہریوں سے متعلق تمام معلومات دستیاب ہوں گی۔ اس نظام کے تحت نہ صرف اداروں کی آپس میں ہم آہنگی بڑھائی جائے گی، بلکہ ساتھ ہی آن لائن کام کرنے والوں کی بھی رجسٹریشن کی جائے گی۔اُنہوں نے کہا کہ اگر حکومت کا اس اقدام کے تحت ڈیجیٹل رائٹس پر کوئی قدغن لگانے کا ارادہ نہیں ہے، تو پھر اس اقدام سے نظام کو جدید بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ ’ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل کے ذریعے حکومتی ادارے نادرا، ایف بی آر اور پی ٹی اے وغیرہ کو بھی آپس میں منسلک کیا جائے گا۔ جس سے معیشت کی رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ گورننس کی ڈیجیٹلائزیشن میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
شزہ فاطمہ خواجہ کے مطابق قومی سطح پر سائبر سکیورٹی تھریٹس بڑھتے جا رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے اسد بیگ کے خیال میں بظاہر ایک اچھے اقدام کو حکومتی پھرتیوں سے متنازع بنایا جا رہا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس حکومتی بل پر پارلیمان میں جامع بحث ہونی چاہیے اور اُس کے بعد بل کی منظوری لی جائے۔’حکومت بل کے تحت دو نئے اداروں کا قیام عمل میں لا رہی ہے، لیکن اس وقت تک ہمیں یہ معلوم نہیں کہ یہ ادارے کام کیسے کریں گے۔ لہٰذا اس عمل کو شفاف بنانے کے لیے بل کے تمام مندرجات کو سامنے لانا چاہیے، تاکہ اسے سمجھنے میں آسانی ہو۔‘