مردوں کے جسم میں آنے والی ہارمونل تبدیلیوں کی کوئی ماہانہ سائیکل تو نہیں ہوتی لیکن سائنسی مطالعات تصدیق کرتے ہیں کہ مردوں میں ہارمونل سائیکل موجود ہوتی ہے اور اس میں تبدیلیاں ٹیسٹوسٹیرون لیول کے کم یا زیادہ ہونے سے آتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر آئے روز مردوں میں ہونے والی ہارمونل تبدیلیاں اور اس کے باعث اُن کے مزاج میں آنے والے بدلاؤ پر بحث و مباحثے جاری رہتے ہیں۔
سائنسدانوں کے ایک گروہ کا ماننا ہے کہ ان ہارمونل تبدیلیوں کے باعث مردوں کے موڈ میں آنے والے بدلاؤ کا معاملہ خواتین میں ماہواری کے دوران موڈ میں آنے والی تبدیلیوں سے مختلف ہے۔ تاہم ہارمونل تبدیلیوں کے سبب مردوں کے مزاج میں تبدیلی کے امکانات کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے۔
لیکن مردوں کی جسم میں آنے والی اِن ہارمونل تبدیلیوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
مردوں کے ہارمونل سائیکل کے بارے میں سائنس کیا کہتی ہے اور اس پر تنازع کیا ہے؟
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروسز کی ویب سائٹ کے مطابقمردوں میں موجود سیکس ہارمون ’ٹیسٹوسٹیرون‘ اُن کے فوطوں (خصیوں) میں موجود ہوتا ہے لیکن اِس کی مقدار خواتین کی بیضہ دانی میں موجود ہارمونز کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔
ٹیسٹوسٹیرون مردوں کی جنسی نشونما میں بڑا کردار ادا کرتا ہے اور اسی کے سبب مردوں کے جسم پر بال بھی اُگتے ہیں، آواز میں بھاری پن آتا ہے اور جسمانی نشوونما بھی ہوتی ہے۔
اسی ہارمون کے سبب مرد میں جنسی خواہشات بھی برقرار رہتی ہیں اور سپرم کی پیدوار میں بھی اس کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
مردوں کے جسم میں آنے والی ہارمونل تبدیلیوں کی کوئی ماہانہ سائیکل تو نہیں ہوتی لیکن سائنسی مطالعات تصدیق کرتے ہیں کہ مردوں میں ہارمونل سائیکل موجود ہوتی ہے اور اس میں تبدیلیاں ٹیسٹوسٹیرون لیول کے کم یا زیادہ ہونے سے آتی ہیں۔
مردوں کی اس کنڈیشن یا حالت کو ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ کہا جاتا ہے اور اس اصطلاح پر تحقیق دہائیوں سے جاری ہے لیکن آج تک عالمی ادارہ صحت نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔
35 برس تک سائنسی تحقیق کرنے والے محقق جیڈ ڈائمنڈ نے 10 ہزار مردوں سے اس موضوع پر بات چیت کرنے کے بعد ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ کی اصطلاح متعارف کروائی تھی جو کہ ایک ماہ کے دوران مردوں کے مزاج یا موڈ میں آنے والی تبدیلیوں کی وضاحت کرتی ہے۔
اس حوالے سے تحریر کردہ ان کی کتاب کے مطابق مردوں میں ہونے ہارمونل تبدیلیوں کے سبب اُن میں ڈپریشن اور پریشانی بڑھتی ہے اور اس وجہ سے انھیں سماجی اور خاندانی سطح پر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
سائنسی دنیا یہ تو تسلیم کرتی ہے کہ مرد کے جسم میں ہارمونل تبدیلیاں آتی ہیں لیکن ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ کی اصطلاح پر کچھ سائنسدانوں میں اختلافات ہیں۔
کچھ محققین تو اِس بات پر بھی سوالات اُٹھاتے ہیں کہ آیا ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ کسی طبّی پیچیدگی کا نام ہے بھی یا نہیں۔ اُن کی دلیل ہے کہ مردوں کے مزاج میں آنے والی تبدیلیاں ذہنی یا ماحولیاتی عوامل کے سبب بھی آ سکتی ہیں۔
دوسری جانب دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ ایک طبی کنڈیشن کا نام ہے جو ٹیسٹوسٹیرون کی کمی یا زیادتی کی صورت میں مردوں کے مزاج میں آنے والی تبدیلیوں کو واضح کرتی ہے۔
لیکن یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ مردوں اور خواتین کی ہارمونل سائیکل میں فرق ہوتا ہے۔ خواتین کی ماہواری کی سائیکل ہر 28 دن بعد آتی ہے اور اس کا اُن کی تولیدی صحت میں بڑا کردار ہوتا ہے۔ ماہواری کی پر سائیکل اُن کے حاملہ ہونے اور بچوں کو جنم دینے کی صلاحیت پر اثر ڈالتی ہے اور اسی سبب ان کی اندام نہانی میں جنین جمع ہوتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس سائیکل کا ہر مہینے بلاتاخیر آنا عورت کی حاملہ ہونے کی صلاحیت سے جُڑا ہوا ہے۔
دوسری جانب مردوں کے جسم میں آنے والی ہارمونل تبدیلیاں یکسر ایک مختلف معاملہ ہے۔ مردوں کے ٹیسٹوسٹیرون لیول میں تبدیلیاں روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہیں، صبح اس کا لیول بڑھا ہوا ہوتا ہے اور شام کو اس میں کمی آ جاتی ہے۔
ٹیسٹوسٹیرون لیول کے گھٹنے یا بڑھنے سے اُن کی تولیدی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آسان الفاظ میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ خواتین کی ماہواری کی سائیکل کا اُن کی تولیدی صحت پر براہ راست اثر پڑتا ہے جبکہ مردوں میں ہارمونل تبدیلیاں اُن کی تولیدی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔
ڈاکٹر یمن ال ٹل کہتے ہیں کہ مردوں میں ’ہارمونل تبدیلیاں روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہیں، ٹیسٹوسٹیرونلیول صبح بڑھے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ شام میں اُن میں کمی آتی ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ہارمونل تبدیلیوں کو اپنی ذاتی جنسی صلاحیتیں بہتر کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور سائنسی زبان میں اسے ’بائیو ہیکنگ‘ کہتے ہیں۔
’اگر ایک مرد کو سمجھ آ جائے کہ اُن کا جسم کام کس طرح کرتا ہے تو وہ اپنے ہارمونز کی تبدیلیوں کو اپنی جنسی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر صبح کے وقت اُن کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے کیونکہ ان کا ٹیسٹوسٹیرون لیول بڑھا ہوا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر یمن کہتے ہیں کہ ’مردوں پر سٹریس یا دباؤ سے جُڑا ہارمون کورٹیسول بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ ٹیسٹوسٹیرون اور کورٹیسول دونوں ہی جسم میں کولیسٹرول سے جنم لیتے ہیں۔ اگر ایک مرد مسلسل سٹریس میں ہے، تمباکو نوشی کرتا اوردیر تک جاگتا ہے تو اس کے جسم میں موجود کولیسٹرول کورٹیسول میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اس سے مرد کا ٹیسٹوسٹیرون لیول گر جاتا ہے۔‘
بہت سارے محققین ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ کی اصطلاح کو تسلیم نہیں کرتے لیکن مردوں کے جسموں میں آنے والی ہارمونل تبدیلیوں کو وہ تسلیم کرتے ہیں۔
ان تبدیلیوں کے متعدد علامات ہیں جیسا کہ مزاج کا اُتار چڑھاؤ، جسمانی تھکاوٹ، شہوت میں کمی، کہیں توجہ مرکوز نہ کر پانا یا وزن کا بڑھنا وغیرہ۔
اینڈروپاز
مردوں کی ہارمونل سائیکل کے معاملے پر سب سے زیادہ زیرِ بحث آنے والا موضوع ’اینڈروپاز‘ کا ہے۔
اس اصطلاح کا استعمال 40 سے 50 برس کے پیٹے میں موجود مردوں کے جسموں میں نظر آنے والی علامات کو بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے۔
برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ کیئر سسٹم (این ایچ ایس) کی ویب سائٹ کے مطابق ’اینڈروپاز‘ کی اصطلاح سے مراد ایسی حالت ہے جو میڈیا میں خواتین میں مینوپاز کی طرح ہارمونل تبدیلی کے طور پر رپورٹ کی جاتی ہے اور یہ غلط فہمیوں کا باعث بنتی ہے۔
یہ اصطلاح گمراہ کن ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ درمیانی عمر کے مردوں کی علامات ٹیسٹوسٹیرون میں اچانک کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔
یہ علامات جو زندگی کے معیار اور روزمرہ کے معاملات کو متاثر کر سکتی ہیں اُن کی پس پردہ وجوہات کو درست انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور غلط تصورات سے ہٹ کر اُن سے نمٹنے کے لیے مناسب حل تلاش کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔
خواتین میں مینوپاز کے برعکس مردوں میں ہارمونل تبدیلیوں کا تعلق ٹیسٹوسٹیرون میں اچانک کمی سے نہیں ہوتا بلکہ 30 سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے اور اس کمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں سالانہ ایک فیصد کی شرح سے بتدریج کمی واقع ہوتی ہے۔
مردوں میں اینڈروپاز سے متعلق جو علامات بیان کی گئی ہیں جیسے ڈپریشن، موڈ میں تبدیلی اور پٹھوں کی کمزوری، نفسیاتی عوامل جیسے تناؤ اور اضطراب یا تمباکو نوشی اور ناقص خوراک سمیت غیر صحت مند طرز زندگی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
کچھ غیر معمولی معاملات میں یہ علامات ایک طبی عارضے سے متعلق ہو سکتی ہیں جسے دیر سے شروع ہونے والا ہائپوگونادیزمکہا جاتا ہے اور اس میں ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار نمایاں طور پر کم ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر یمان الطال کے مطابق ’ایک آدمی کو سپلیمنٹس کے ذریعے ٹیسٹوسٹیرون (ضرورت پڑنے پر) دینے سے اس کی حالت ڈرامائی طور پر بہتر ہوتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ان مسائل کی بڑی وجہ موجودہ طرز زندگی ہے۔ فاسٹ فوڈ، ہائیڈروجنیٹڈ آئل، زیادہ چینی اور نمک، تمباکو نوشی اور دیر تک جاگنا، یہ سب ایسے عوامل ہیں جو مردوں کی ہارمونل صحت کی خرابی کی وجہ بنتے ہیں۔‘
انھوں نے نشاندہی کی کہ بہت سے مرد 40 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد اس مسئلے سے آگاہ ہو جاتے ہیں لیکن صحت کو بہتر بنانے کی کامیاب کوششیں ان کی 20 سال کی عُمر سے شروع ہو جانی چاہییں۔
گہری سوچ و بچار اور معاشرتی بیداری
ڈاکٹر یمان الطال کے مطابق ’آج کل مردوں میں صحت کے زیادہ تر مسائل، ٹیسٹوسٹیرون کی سطح کو متاثر کرتے ہیں۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ذہنی بیماریاں، جیسا کہ بے چینی، گھبراہٹ کے حملے اور ڈپریشن، نوجوانوں میں عام ہو چکی ہیں اور ٹیسٹوسٹیرون سے زیادہ ہارمون کورٹیسول کی پیداوار کا باعث بنتی ہے۔
ایک حیرت انگیز موازنہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’برسوں پہلے اس حوالے سے ہماری بحث صرف 40 اور 50 سال کی عمر تک کے مردوں تک محدود تھی جو اس نوعیت کے مسائل کا شکار تھے تاہم آج کل مردوں کی اکثریت تیس سال کے نوجوان ہیں جو ان مسائل کا شکار ہیں، اور اُن میں سے زیادہ تر اس سے بے خبر بھی ہیں۔‘
تو شاید اب وقت آ گیا ہے کہ اسے کسی مختلف زاویے سے دیکھیں اور اس کے بارے میں آگاہی حاصلی کی جائے۔