جنگ کی فتوحات اور بیرونی دنیا کے ساتھ رابطے نے چولا کے زیر اقتدار ہندوستان کو ثقافتی اور اقتصادی طاقت کے عالمی تجارتی نیٹ ورک سے جوڑ دیا۔
تاریخ میں قرون وسطی کے عین وسط یعنی نویں سے 13ویں صدی تک کے دور میں یورپ ابھی مستحکم نہیں ہوا تھا۔ جو ممالک بعد میں طاقتور ہوئے ان کا اس دور میں وجود بھی نہیں تھا۔
گریٹ گوتھک چرچ ابھی یورپ میں نہیں بنا تھا۔ قسطنطنیہ کے علاوہ کچھ ہی بڑے شہر دنیا کے نقشے پر تھے لیکن اسی دور میں جنوبی انڈیا میں ایک شہنشاہ دنیا کا سب سے بڑا مندر ’برہادیشوارا‘ بنانے کی تیاری کر رہا تھا۔
اور صرف 10 سال میں یہ عظیم الشان مندر تیار ہو گیا۔
216 فٹ اونچے اس بڑے مندر میں ایک لاکھ 30 ہزار ٹن سے زیادہ گرینائٹ کا استعمال کیا گیا۔
اس کے وسط میں ہندوؤں کے بھگوان شیو کا 12 فٹ اونچا مجسمہ تھا۔ موتیوں سے بھرا یہ مجسمہ سونے سے ڈھکا ہوا تھا۔
مندر کے ہال میں کانسی کی 60 مورتیاں تھیں جنھیں مشعلوں سے روشن کیا گیا تھا۔ ان بتوں سے جڑے موتی لنکا کے جزیرے کو فتح کرنے کے بعد وہاں سے لائے گئے تھے۔
اس کے خزانے میں کئی ٹن سونے اور چاندی کے سکّے تھے۔
اس کے علاوہ شکست کھانے والے جنوبی ہندوستان کے بادشاہوں کے ہار، زیورات اور ڈھول بھی مندر میں رکھے گئے تھے۔
اس ساری دولت نے چولا شہنشاہ کو اس دور میں زمین کا امیر ترین شخص بنا دیا۔ باقی شہنشاہوں کو بادشاہ کہا جاتا تھا لیکن وہ ’راجا راج‘ یعنی ’بادشاہوں کے بادشاہ‘ تھے۔
راجا راج کا تعلق اپنے وقت کے طاقتور خاندان سے تھا۔
یہ خاندان چولا تھا۔ اس خاندان نے قرون وسطی کی پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا تاہم ہندوستان سے باہر ان کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
چولا خاندان
11 ویں صدی سے پہلے چولا کاویری کے میدانی علاقوں میں موجود بہت سی چھوٹی طاقتوں میں سے ایک تھے۔ یہ علاقہ مٹی سے بھرا ہوا تھا۔
جس چیز نے چولوں کو الگ کیا وہ ان کی کھوج لگانے کی لامتناہی صلاحیت تھی۔
قرون وسطی کی دنیا کے معیارات کے مطابق چولا رانیاں بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل تھیں اور اس خاندان کا عوامی چہرہ تھیں۔
راجا راج کی بھابھی سیمبیان مہادیوی بیوہ تھیں۔ تمل گاؤں میں سفر کرتے ہوئے انھوں نے پرانی مٹی کی اینٹوں سے بنے مندروں کو دوبارہ تعمیر کیا اور چمکتے ہوئے پتھر نصب کیے۔
اس سے چولا خاندان کی شبیہہ شیو کے سب سے بڑے عقیدت مند کے طور پر ہوئی۔
سیمبیان نے ’نتاراجا‘ کی پوجا کی۔ نتاراجا ’رقص کے بادشاہ‘ کے طور پر بھگوان شیو کی ایک کم معروف شکل تھی۔ نتاراجا کی مورتی سیمبیان کے تمام مندروں میں نمایاں طور پر موجود تھی۔
بعد میں یہ شکل کافی مقبول ہوئی۔ آج نتاراجا ہندو مت کی علامتوں میں سے ایک ہے لیکن قرون وسطیٰ کی ہندوستانی نفسیات میں نتاراجا دراصل چولا خاندان کی علامت تھے۔
شہنشاہ راجا راج چولا بھی سیمبیان مہا دیوی کی طرح عوام سے ملنا پسند کرتے تھے۔
راجا راج ایک فاتح شہنشاہ تھے۔ 990 کی دہائی میں راجا راج نے مغربی گھاٹ پر حملہ کیا اور بندرگاہوں پر کھڑے جہازوں کو جلا دیا۔
اس کے بعد انھوں نے جزیرہ لنکا کے اندرونی جھگڑوں کا فائدہ اٹھایا اور وہاں چولا خاندان کا قبضہ قائم کیا۔
اس کے بعد انھوں نے دکن کے سطح مرتفع کے علاقوں پر حملہ کیا اور ان کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیا۔
ان جنگوں میں فتوحات کے دوران راجا راج نے بریہدیشور مندر کو لوٹی ہوئی دولت سے سجایا۔ قیمتی خزانوں کے علاوہ مندر کو فتح شدہ علاقوں سے ہر سال 5،000 ٹن چاول ملتے تھے۔
اس دولت نے بریہدیشور مندر کو پبلک ورکس اور ویلفیئر کی ایک بہت بڑی وزارت میں تبدیل کر دیا۔ مندر کو آبپاشی، کھیتی کو وسعت دینے اور بھیڑوں اور بھینسوں کی تعداد بڑھانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
دنیا میں بہت کم ریاستیں ایسی تھیں جنھوں نے اس پیمانے پر معاشی کنٹرول کا تصور کیا تھا۔
کارپوریشنز ایسٹ انڈیا کمپنی سے 700 سال پہلے بنی تھیں
اس دور میں جس طرح منگول اوراسیا کے اندرونی حصے میں راج کرتے تھے، اسی طرح چولا خاندان بحر ہند پر غالب تھا۔
راجا راج چولا کے وارث راجندر نے تمل مرچنٹ کارپوریشنوں کے ساتھ تعلقات قائم کیے۔ اس کے نتیجے میں تاجروں اور حکومت کے درمیان شراکت داری ہوئی۔ اس اقدام سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی جھلک نظر آئی جو 700 سال بعد وجود میں آئی۔
یہ سنہ 1026 تھا۔ راجندر چولا نے تاجروں کے بحری جہازوں پر اپنی فوجیں تعینات کیں اور مالے شہر کو لوٹ لیا، جو قیمتی لکڑی اور مسالوں کی عالمی تجارت پر حاوی تھا۔
کچھ ہندوستانی قوم پرست اسے جنوب مشرقی ایشیا کی ’فتح‘ یا ’نوآبادیات‘ کہتے ہیں لیکن آثار قدیمہ ایک مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔
ایسا نہیں لگتا کہ چولا بادشاہوں کی اپنی بحریہ تھی لیکن ان کی چھتری تلے تامل تاجر خلیج بنگال تک پھیل گئے۔
11ویں صدی تک یہ تاجر شمالی سماٹرا میں آزاد بندرگاہیں چلا رہے تھے۔ ایک صدی بعد، ان کی موجودگی موجودہ میانمار اور تھائی لینڈ تک پھیل گئی۔ جاوا میں یہ تاجر ٹیکس بھی جمع کیا کرتے تھے۔
13ویں صدی میں تامل تاجروں نے منگول حکمرانی والے چین کے ساتھ کامیاب تجارت بھی کی۔ ان تاجروں نے مشرقی بحیرہ چین کے کنارے ایک شیو مندر بھی تعمیر کیا تھا۔
یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ انیسویں صدی میں برطانوی راج کے دوران جنوب مشرقی ایشیا میں کام کرنے والے ہندوستانیوں کی سب سے بڑی تعداد تمل تھی۔
جنگ سے حاصل ہونے والی رقم سے نئے مندروں کی تعمیر
جنگ کی فتوحات اور بیرونی دنیا کے ساتھ رابطے نے چولا کے زیر اقتدار ہندوستان کو ثقافتی اور اقتصادی طاقت کے عالمی تجارتی نیٹ ورک سے جوڑ دیا۔
چولا خاندان نے جنگ میں لوٹی گئی دولت کو نئے مندروں کی تعمیر کے لیے استعمال کیا۔
ان مندروں کے لیے کانسی، تانبے اور ٹن کی فراہمی مصر اور سپین سے ہوتی تھی۔ پوجا کے لیے صندل کی لکڑی سماٹرا سے منگوائی گئی۔
تمل مندر وسیع احاطے میں پھیلے ہوئے تھے، جو بازاروں اور چاول کے کھیتوں سے گھرے ہوئے تھے۔
دریائے کاویری کے کنارے چولا خاندان کے دار الحکومت کا علاقہ آج کے کومبھکونم سے ملتا جلتا تھا۔ یہ درجنوں مندروں اور قصبوں کا ہجوم تھا اور شاید اس نے اس وقت یورپ کے زیادہ تر شہروں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
چولا سلطنت کے یہ شہر حیرت انگیز طور پر کثیر الثقافتی اور کثیر مذہبی تھے۔ چینی بدھ مت، تیونس کے یہودی اور سری لنکا کے مسلمان ان شہروں میں کندھے سے کندھا ملا کر تجارت کرتے تھے۔
آج ریاست تمل ناڈو انڈیا کی سب سے زیادہ شہری ریاست ہے۔ اس کے زیادہ تر قصبے چولا دور کے مذہبی مقامات اور بازاروں کے ارد گرد آباد ہوئے۔
بھرپور ورثہ
ہندوستان سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک بکھرے ہوئےچولا خاندان کے اس ورثے نے دنیا کو جوڑنے کا کام کیا۔
چولا حکومت کے دوران بڑے بڑے مزار بھی تعمیر کیے گئے تھے۔ اس کی حکومت نے تاجروں، فنکاروں اور بادشاہوں کو حیرت انگیز دولت سے مالا مال کیا۔