بلوچستان لیویز اور پولیس اہلکاروں کے عسکریت پسندوں سے نہ لڑنے پر حکام کو تشویش، تادیبی کارروائیاں شروع

image

بلوچستان میں پولیس اور لیویز تھانوں اور چوکیوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافے اور اہلکاروں کی جانب سے بغیر کسی مزاحمت کے سرنڈر کرنے، اسلحہ و سرکاری ساز و سامان عسکریت پسندوں کے حوالے کرنے پر حکام تشویش کا شکار ہیں اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تشکیل دی جا رہی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے سامنے مزاحمت نہ کرنے والے اہلکاروں کی فوری برطرفی کا فیصلہ کرتے ہوئے 20 سے زائد اہلکاروں کو برخواست جبکہ ایک اسسٹنٹ کمشنر کو معطل کیا گیا ہے۔

بدھ کو بلوچستان کے ضلع گوادر میں نامعلوم مسلح افراد نے کوسٹل ہائی وے پر پولیس اور کسٹم کی چوکیوں پر حملہ کیا، اہلکاروں سے اسلحہ چھین لیا اور چوکیوں کو نذر آتش کر کے فرار ہو گئے۔

ایس پی کوسٹل ہائی وے پولیس عبدالحفیظ نے اردو نیوز کو بتایا کہ 20 سے زائد حملہ آوروں نے نیلنٹ کے مقام پر گوادر کو کراچی سے ملانے والی مکران کوسٹل ہائی وے پر واقع کوسٹل ہائی وے پولیس اور کسٹم کی چوکیوں پر حملہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ حملہ آور کوسٹل ہائی وے پولیس اہلکاروں سے تین سرکاری کلاشنکوف، ایک جی تھری اور ایک گاڑی چھین کر فرار ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ اہلکاروں نے اس دوران کوئی مزاحمت نہیں کی جس پر انہیں نہ صرف ملازمت سے برطرف کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا جائےگا۔ واقعے کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔

اس سے پہلے منگل کی شب نامعلوم مسلح افراد نے پنجگور میں لیویز کی چوکی پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا تھا۔ جبکہ سنیچر کو تربت میں پولیس چوکی پر حملہ کر کے وہاں موجود اہلکاروں سے اسلحہ چھینا گیا۔

بلوچستان میں حالیہ دنوں میں لیویز، پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے تھانوں اور چیک پوسٹوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران خضدار، مستونگ، کچھی، کیچ اور گوادر سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں لیویز اور پولیس کے تھانوں اور چیک پوسٹوں پر نصف درجن سے زائد حملے ہو چکے ہیں جن میں کسی مزاحمت کے بغیر حملہ آور لیویز اور پولیس اہلکاروں کا اسلحہ، سرکاری گاڑیاں، موٹرسائیکلیں اور دیگر سامان چھین کر لے گئے۔

8 جنوری کو خضدار کی تحصیل زہری میں 100 سے زائد افراد نے لیویز تھانے اور بلوچستان کانسٹیبلری کے کیمپ کا مکمل کنٹرول حاصل کر کے اہلکاروں سے 20 سے زائد کلاشنکوف، چار ہزار گولیاں، دو سرکاری گاڑیاں اور 10 موٹر سائیکلیں چھین کر فرار ہو گئے تھے۔

ایس پی کوسٹل ہائی وے پولیس عبدالحفیظ کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد 20 سے زائد تھی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ان واقعات کے بعد بلوچستان حکومت سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق فوج کے اعلیٰ حکام کی جانب سے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

صوبائی حکومت کے ذرائع کے مطابق محکمہ داخلہ بلوچستان کی جانب سے تمام ڈپٹی کمشنرز کو واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ عسکریت پسندوں کے سامنے سرنڈر کرنے والوں کو فوری طور پر ملازمتوں سے برطرف کیا جائے۔

ڈپٹی کمشنر خضدار نے ’بزدلی‘ کا مظاہرہ کرنے اور حملہ آوروں کے سامنے سرنڈر کرنے پر زہری لیویز تھانے میں تعینات 15 لیویز اہلکاروں کو نوکری سے نکال دیا۔

اسی طرح مستونگ کے علاقے دشت میں لیویز چوکی سے اسلحہ چھیننے کے واقعہ کے بعد وہاں تعینات تین اہلکاروں کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے جبکہ علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کو معطل کیا گیا ہے۔

ڈائریکٹر جنرل لیویز بلوچستان عبدالغفار مگسی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ حکومت نے ان واقعات کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور دہشتگردوں کے خلاف نہ لڑنے والے غفلت کا مظاہرہ کرنےوالے اہلکاروں کو فوری طور پر برطرف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

خود سے کئی گنا زیادہ تعداد اور جدید اسلحہ سے لیس حملہ آوروں سے لیویز اہلکار کیسے لڑتے؟ اس سوال کے جواب میں ڈی جی لیویز کا کہنا تھا کہ بعض جگہ پر نفری کی کمی کا مسئلہ بھی ہے۔ ’ہم زمینی حقائق کو دیکھ رے ہیں جہاں اہلکاروں نے بالکل بھی مزاحمت نہیں کی جیسا کہ زہری میں اہلکاروں نے واضح طور پر غفلت دکھائی وہاں کوئی رعایت نہیں برتی کی جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان میں امن وامان کا بڑا مسئلہ ہے ہم جگہ تحفظ نہیں دے سکتے۔ یہ اتنے سنگین معاملات ہیں کہ ایک رات میں ٹھیک نہیں ہو سکتے مگر صوبائی حکومت اور فوج مل کر اس صورتحال کے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ فوج کی بارہ کور کے ساتھ مل کر حکمت عملی طے کی جا رہی ہے۔ لیویز اہلکاروں کا مورال بلند کیا جائے گا۔

بلوچستان امن وامان کی ذمہ داریوں اور انتظامی لحاظ سے اے اور بی ایریاز میں تقسیم ہے۔ شہری علاقوں کو اے ایریا کہا جاتا ہے جہاں امن وامان کی ذمہ داری پولیس کی ہے جبکہ دیہی علاقے لیویز فورس کے زیر انتظام ہیں۔

لیویز حکام کے مطابق رقبے کے لحاظ سے صوبے کا تقریباً 85 فیصد علاقہ لیویز کے زیرِانتظام ہے۔

ڈی جی لیویز بلوچستان عبدالغفار مگسی کے مطابق 26 ہزار اہلکاروں کی فورس کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اگرچہ چوری و ڈکیتی سمیت عام جرائم کی شرح لیویز علاقوں میں کم ہے تاہم شورش کے شکار علاقوں میں دونوں فورسز خاص کر لیویز کو عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑنے کی صلاحیت میں کمزور سمجھا جاتا ہے اس لیے عسکری حکام لیویز کو پولیس میں ضم کرنے پر زور دیتے ہیں تاہم حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے اس کی مخالف کی جاتی ہے۔

لیویز فورس نیم قبائلی فورس تھی جو برطانوی دور میں انگریزوں نے قائم کی تاہم بعد ازاں اسے باقاعدہ فورس کی شکل دی گئی۔

پرویز مشرف دور میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کر دیا گیا تھا لیکن نواب اسلم رئیسانی کی حکومت نے 2010 میں لیویز فورس کو دوبارہ بحال کردیا تھا۔ 2018 میں جام کمال کی حکومت نے کوئٹہ، گوادر، حب اور لسبیلہ میں لیویز فورس کو ختم کرکے پولیس میں ضم کرنے اور باقی اضلاع میں لیویز کی تنظیم نو کے لئے 8 ارب روپے کے منصوبے کی منظوری دی گئی۔

ڈی جی لیویز بلوچستان عبدالغفار مگسی کا کہنا ہے کہ 26 ہزار اہلکاروں پر مشتمل لیویز فورس کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔ انٹیلیجنس ونگ، بم ڈسپوزل سکواڈ سمیت مختلف شعبے بنائے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ لیویز فورس میں اصلاحات پر کام کیا جا رہا ہے، ان کے لیے جدید گاڑیاں اور اسلحہ خریدا گیا ہے اور مزید خریدا جا رہا ہے۔

ڈی جی لیویز کے مطابق بڑی تعداد میں اہلکاروں کو جدید تربیت دی جا چکی ہے۔ مزید سینکڑوں اہلکاروں کو فوج کی مدد سے دہشتگردی سے نمٹنے کی تربیت دی جائے گی۔ 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.