پاکستان کی قومی اسمبلی نے متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دی ہے جس میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ جو شخص آن لائن ’فیک نیوز‘ پھیلانے میں ملوث پایا گیا اسے تین سال قید یا 20 لاکھ تک جرمانے یا دونوں (قید اور جرمانہ) سزائیں دی جا سکیں گی۔ مگر سیاسی رہنماؤں، ڈیجیٹل رائٹس اور صحافی تنظیموں کو اس قانون سازی پر کیا اعتراض ہے؟
پاکستان کی قومی اسمبلی نے جمعرات کی شام متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دے دی ہے جس میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ جو شخص آن لائن ’فیک نیوز‘ پھیلانے میں ملوث پایا گیا اسے تین سال قید یا 20 لاکھ تک جرمانے یا دونوں (قید اور جرمانہ) سزائیں دی جا سکیں گی۔
یاد رہے کہ 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی اور اس کے بعد پارلیمان کے ایوانِ زیریں سے پاس کیے جانے والے اِس حکومتی بِل پر ناصرف صحافتی تنظیمیں اور سیاسی جماعتوں کے اراکین بلکہ ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمائندے بھی اپنے سخت تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
جمعرات کی شام جب قومی اسمبلی میں یہ بل پیش ہوا تو اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کیا جبکہ پریس گیلری میں موجود صحافیوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ صحافیوں کے پاس گئے اور دعویٰ کیا کہ ’یہ بِل پروفیشنل صحافیوں کے خلاف نہیں بلکہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف ہے۔‘
حزب مخالف کی جماعتوں اور پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اس بِل کی منظوری کی سخت مذمت کی ہے جبکہ متعدد صحافتی تنظیموں نے اس ترمیمی بِل کے خلاف احتجاج کا اعلان بھی کیا ہے۔ دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی کا واحد مقصد جھوٹی خبروں کا قلع قمع کرنا ہے نہ کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن۔
صحافتی تنظیموں، سیاسی رہنماؤں اور ڈیجیٹل رائٹس تنظیموں کے اس بِل پر تحفظات جاننے سے قبل یہ دیکھ لیتے ہیں کہ اس متنازع بِل میں ہے کیا؟
متنازع بِل میں کیا کہا گیا ہے؟
جمعرات کو قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے اس بِل کو ’دی پریوینشن آف الیکٹرنک کرائمز (ترمیمی) بل 2025‘ کا نام دیا گیا ہے جس میں فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے ایک نئی تحقیقاتی ایجنسی تشکیل دیے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ قائم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن یا رجسٹریشن کی منسوخی اور معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو بھی یقینی بنائے گی۔
بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہو گی۔
اس بِل کے ذریعے پیکا ایکٹ میں ایک نئی شق، سیکشن 26 (اے) کو شامل کیا گیا ہے جو آن لائن فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سزا سے متعلق ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر (فیک نیوز) پھیلاتا ہے جو عوام اور معاشرے میں ڈر، گھبراہٹ یا خرابی کا باعث بنے اس شخص کو تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں سے متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ اس اتھارٹی میں کل نو ممبران ہوں گے جبکہ سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے اور چیئرمین پیمرا بر بنائے عہدہ اس اتھارٹی کا حصہ ہوں گے۔
اس مجوزہ اتھارٹی سے متعلق مزید بتایا گیا ہے کہ اس کے چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سال کی مدت کے لیے کی جائے گی اور اتھارٹی کے چیئرمین سوشل میڈیا پر کسی بھی غیر قانونی مواد کو فوری بلاک کرنے کی ہدایت جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔
اس بِل کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اتھارٹی سے رجسٹر کروانا لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو عارضی یا مستقل طور پر بھی بند کیا جا سکے گا۔
یہ اتھارٹی ’نظریہ پاکستان کے برخلاف اور شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔‘
اس ترمیمی ایکٹ کے مطابق اتھارٹی پاکستان کی مسلح افواج، پارلیمان یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی جبکہ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے گئے مواد کو سوشل میڈیا پر نہیں اپلوڈ کیا جا سکے گا۔ ترمیمی بل کے مطابق پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کیے جا سکیں گے۔
ترمیم کے تحت سوشل میڈیا شکایت کونسل قائم کی جائے گی جبکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی ٹربیونل سے رجوع کرے گی۔
اس بِل میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی جس کے سربراہ کا تعیناتی تین سال کے عرصے کے لیے ہو گی۔
نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا۔
اس ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی جس کا چیئرمین ہائیکورٹ کا سابق جج ہو گا۔ ترمیمی بل کے مطابق ٹربیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں میں چیلنج کیا جا سکے گا۔
’فائر وال سے کام نہیں بنا تو یہ بِل لے آئے ہیں‘
اس بِل کو قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے داخلہ اور اس کے بعد ایوانِ زیریں میں پیش کیے جانے کے دوران سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے بھی اس پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور ممبر قومی اسمبلی زرتاج گل نے متعلقہ کمیٹی سے اس بل کی منظوری کے بعد کہا کہ ’جلد بازی میں کمیٹی اجلاس بلایا گیا جب کہ قومی اسمبلی کا سیشن ابھی جاری ہے۔ حکومت کالے قوانین کے لیے اتنی جلد بازی آخر کیوں کرتی ہے۔‘
انھوں نے بِل کے مندرجات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت اب لوگوں سے اظہارِ رائے کی آزادی بھی چھیننا چاہتی ہے۔ آدھا پاکستان تو پہلے ہی جیلوں میں ہے اور اب باقی ماندہ پر بھی حکومت کالے قوانین نافذ کرکے اُن کے منہ بند کروانا چاہتی ہے۔‘
زرتاج گل نے دعویٰ کیا کہ اس بل کا مقصد سوشل میڈیا پر لگام ڈالنا ہے کیونکہ اب وہی پلیٹ فارم بچے تھے جن پر لوگ حکومت کے کرتوت سامنے لاتے تھے۔ ’پہلے حکومت نے فائر وال لگائی، اس سے کام نہیں بنا تو اب یہ بِل لے کر آئے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا آپ کو کسی کا اکاؤنٹ یا اس سے کی جانے والی بات اچھی نہیں لگتی تو اس کو اٹھا لیں۔‘
اس اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان کے علاوہ حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان نے بھی ’جلد بازی میں منظوری‘ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے عبدالقادر پٹیل کا کہنا تھا کہ ’بہتر ہوتا کہ اس معاملے پر قومی اسمبلی میں بحث کروا لی جاتی۔' انھوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس حق میں نہیں کہ لوگوں کی آواز کو دبایا جائے۔‘
ممبر قومی اسمبلی جمشید دستی نے کہا کہ ’ملک میں اس بل سے زیادہ اور اہم مسائل موجود ہیں۔ کشتی حادثے میں ہمارے لوگوں کی اموات ہو رہی ہیں، ڈی جی ایف آئی اے کہاں ہیں؟ ایف آئی اے کیا کر رہی ہے؟‘
تاہم حکومت اس بل کا دفاع کر رہی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس قانون پر عملدرآمد ہونے سے ملک میں فیک نیوز کا خاتمہ ہو گا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی میں چیف وہپ طارق فضل چوہدری کا کہنا ہے کہ ’حکومت اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتی ہے۔ ہر شخص کو رائے دینے کی آزادی ہے اور وہ اس کا اظہار اخبار، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر بھی کر سکتا ہے۔ تاہم ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ریاست مخالف پراپیگنڈے کی اجازت نہیں ہوتی اور جہاں ریاست کے تحفظ کی بات آتی ہے تو وہاں ایسے عناصر کو ضرور روکا جائے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’معاشرے میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور سوشل میڈیا پر ہر کسی کی پگڑی اچھالی جا رہی ہے اور یہ چیز کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔‘
’بولنے کی آزادی اورانفارمیشن پر کنٹرول‘
ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی کارکن فریحہ عزیز نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پیکا ترمیمی بِل قومی اسمبلی میں انتہائی جلدبازی میں لایا گیا اور اب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بُلا لیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس آج (جمعہ) پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہو گا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’لگتا ایسا ہی ہے جیسے آئندہ ایک، دو روز میں یہ بِل قانون بن جائے گا۔ پہلا مسئلہ تو یہی ہے کہ ایسے مجوزہ قوانین کے مسودے (سٹیک ہولڈرز کے ساتھ) شیئر نہیں کیے جاتے اور پھر ایوان میں اکثریت کے زور پر انھیں قانون بنا دیا جاتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ پیکا کے قانون میں کچھ چیزیں پہلے سے بھی موجود تھیں لیکن اب حکومت نے اس میں فیک نیوز یا کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کو جُرم قرار دیا ہے اور اس کے لیے انھوں نے ’غیرواضح‘ زبان کا استعمال کیا ہے۔
’وفاقی حکومت کے اختیارات وسیع کر دیے گئے ہیں۔ جو ریگولیٹری اتھارٹی بنائی، ٹربیونل بنایا ہے اور جو کمیٹی بنائی ہے اس میں حکومت کی مداخلت تو ہو گی۔‘
فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ ’جو یہ بند کروانا چاہیں گے، سوشل میڈیا سے ہٹانا چاہیں گے، وہ یہ اپنے اختیارات کا استعمال کر کے ہٹوائیں گے اور لوگوں پر جُرمانے لگائیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وفاقی حکومت سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ آف کوم کے ماڈل پر کام کر رہے ہیں، لیکن آف کوم تو آزاد ادارہ ہے اور یہاں جو اتھارٹی بنائی جا رہی ہے وہ تو حکومت کے کنٹرول میں ہو گی۔‘
’اس سب کے نیتجے میں بولنے کی آزادی اور انفارمیشن پر کنٹرول رکھا جائے گا۔‘
صحافی تنظیمیں کیوں نالاں ہیں؟
صحافی تنظیموں کی جوائنٹ ا یکشن کمیٹی نے متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے اور احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پی ایف یو جے، پی بی اے،سی پی ا ین ا ی و دیگر صحافی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اپنے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ ’اس بل کا محور صرف سوشل میڈیا نہیں بلکہ اس کا ہدف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈ یا کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز بھی ہیں اور اس کا مقصد اختلاف رائے کو جرم بنا دینا ہے۔‘
اعلامیے میں کہا گیا کہ اب بھی حکومت اگر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنا چاہتی ہے تو سینیٹ میں اس متنازع بل کی منظوری کو مؤخر کیا جائے، بصورت دیگر احتجاجی لائحہ عمل پر عملدرآمد شروع کردیا جائے گا اور ملک بھر میں مظاہرے کیے جائیں گے۔
پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کی طرف سے اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ اس بل کو پیش کرنے سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے گا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پی ایف یو جے کے علاوہ پاکستان براڈ کاسٹ ایسوسی ایشن، اے پی این ایس اور سی پی این ای نے بھی اس بل کی مخالفت کی ہے۔‘
افضل بٹ کا کہنا تھا کہ ’جس جلد بازی میں اس ترمیمی ایکٹ کو منظور کروایا جا رہا ہے اس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ بااثر افراد حکومت مخالف آوازوں کو خاموش کروانے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔‘