غزہ میں ’ناقابلِ شناخت‘ لاشوں کی ہڈیوں کی مدد سے تلاش کی کہانی: ’میری بیٹی کا جسم قبر سے کیسے باہر آیا اور کتوں نے اُسے کیسے کھا لیا‘

غزہ میں گھروں اور عمارتوں کے ملبے میں موجود مٹی سے اٹی اشیا کو ’پیاروں کی نشانیوں‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور انھیں دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ چیزیں جن افراد کے زیرِ استعمال تھیں اُن کی لاشیں کہیں قریب ہی ملبے تلے دبی ہو سکتی ہیں۔
غزہ
BBC
آیا البدیع کی والدہ اپنی 13 سالہ بیٹی کی تصویر دکھاتے ہوئے

اس تحریر میں شامل تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

یہاں تمام چیزیں گڈمڈ نظر آتی ہیں۔ کہیں کسی بچے کا رنگ برنگا سکول بیگ پڑا ہے، کہیں جوتا، کہیں لوے کا گلدان، کہیں بیڈ یا کرسی کے ٹکڑے، کہیں ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں، کہیں پانی کے گلاس کے ٹکڑے اور کہیں کٹے پھٹے کپڑے۔

یہ مٹی سے اٹی ہوئی اشیا غزہ میں اکثر ’پیاروں کی نشانیوں‘ کے طور پر دیکھی جاتی ہیں اور انھیں دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ چیزیں جن افراد کے زیرِ استعمال تھیں اُن کی لاشیں کہیں قریب ہی ملبے تلے دبی ہو سکتی ہیں۔

رفح میں ایمرجنسی اینڈ ایمبولینس سروسز کے ڈائریکٹر ہشام الحمص کہتے ہیں کہ ’جب سے قابض اسرائیلی فورسز کا رفح سے انخلا ہوا ہے ہمارے پاس لوگوں کی تقریباً 150 فون کالز آ چکی ہیں یہ بتانے کے لیے کہ ان کے رشتہ داروں کی لاشیں گھروں کے ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔‘

فلسطینی حکامِ صحت کا اندازہ ہے کہ وہاں 10 ہزار لوگ تاحال لاپتا ہیں۔ ایمرجسی ٹیمیں کو اکثر کپڑے یا دیگر اشیا دیکھ کر ملبے تلے لاشوں کی موجودگی کا علم ہوتا ہے اور جب یہ نشانیاں نظر نہیں آتیں تو پھر لاپتا افراد کے رشتہ داروں سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں یا پھر ملبے کے پاس خون اور انسانی باقیات کی بُو سونگھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

غزہ
BBC
رفح میں ایمرجنسی اینڈ ایمبولینس سروسز کے ڈائریکٹر ہشام الحمص

اسرائیلی حکومت نے بی بی سی اور دیگر خبر رساں غیرملکی اداروں کے غزہ میں داخلے اور آزادانہ رپورٹنگ کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ایسے میں ہم لاپتا افراد کو ڈھونڈنے والے لوگوں کی کہانیاں دنیا تک پہنچانے کے لیے مستند مقامی صحافیوں کا سہارا لے رہے ہیں۔

ہر دن کے اختتام پر ایمرجنسی اینڈ ایمبولینس سروسز کے ڈائریکٹر ہشام الحمص لاپتا افراد کی فہرستوں میں سے اُن افراد کے نام حذف کر رہے ہوتے ہیں جن کی لاشیں مل جاتی ہیں۔

ہشام کے ادارے کی ٹیمیں بہت محتاط انداز میں ملبے ہٹا رہی ہوتی ہیں کیونکہ انھیں علم ہے کہ اس مٹی اور پتھروں کے ڈھیر کے نیچے وہ ’انسانیت کے پرخچے‘ ڈھونڈ رہے ہیں۔

اکثر انھیں ملبے کے نیچے سے ہڈیوں کے ڈھیر کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ اسرائیلی بموں کے پھٹنے سے یہاں اکثر مردہ افراد کے جسم بھی متعدد ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتے تھے۔ یہاں ملنے والی ہڈیوں اور کپڑوں کے ٹکڑوں کو کفن میں لپیٹ کر رکھا جاتا ہے اور ہشام ان کفن نما تھیلوں پر ’ناقابلِ شناخت‘ کا لیبل لگا رہے ہوتے ہیں۔

رفح کے رہائشی اُسامہ صالح جنگ بندی کے بعد جب اپنے گھر لوٹے تو انھیں اندر ایک ڈھانچہ ملا جس کی کھوپڑی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اُسامہ کے خیال میں یہ لاش وہاں تقریباً چار، پانچ مہینوں سے پڑی ہوئی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم انسان ہیں اور جذبات رکھتے ہیں۔ میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ یہ کتنا بے بس کر دینے والا المیہ ہے۔‘

یہاں واپس آنے والے لوگ بتاتے ہیں کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں اُن کے نتھنوں سے لاشوں کے سڑنے کی بُو ٹکراتی ہے۔

اُسامہ کہتے ہیں کہ 'یہ لاشیں خوفناک ہیں، ہم دہشت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔'

’میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ایک دردناک احساس ہے اور میں اس سب کو محسوس کر کے روتا ہوں۔‘

غزہ
BBC
رفح میں ملبے کے تلے ملنے والی ہڈیاں

رفح کے ہسپتالوں میں بھی لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں جو اکثر اپنے اہلخانہ کی لاشوں کی باقیات وصول کرنے آتے ہیں۔ جنوبی غزہ کے یورپین ہسپتال کے صحن میں کپڑوں کے تھیلوں میں ہڈیوں کا مجموعہ اور کپڑے رکھے ہوئے ہیں۔

19 سالہ عبدالسلام رفح کے رہائشی تھے۔ اُن کے انکل ذکی کے مطابق وہ شبورا کے علاقے میں لاپتہ ہوئے تھے اور یہ وہ مقام تھا جہاں دورانِ جنگ زندہ بچنا بہت مشکل تھا۔

ذکی کہتے ہیں کہ ’اسی لیے ہم عبدالسلام کو وہاں ڈھونڈنے نہیں گئے کیونکہ پھر وہاں سے ہم زندہ واپس نہیں آ سکتے تھے۔‘

ذکی کا ماننا ہے کہ ان کے سامنے پڑی ہڈیاں اور کپڑے لاپتہ ہونے والے عبدالسلام کے ہیں۔ وہ یہاں ہسپتال کے ایک کارکن جہاد ابو خریس کے ساتھ کھڑے ہیں اور عبدالسلام کے بھائی کا انتظار کر رہے ہیں۔

جہاد کہتے ہیں کہ ’ہمیں 99 فیصد یقین ہے کہ یہ لاش عبدالسلام کی ہی ہے لیکن ہم پھر بھی حتمی تصدیق کے لیے ان کے بھائی کے منتظر ہیں کیونکہ وہ ان کے سب سے قریبی عزیز ہیں اور وہ حتمی طور پر بتا سکیں گے کہ یہ جوتے اور پینٹ ان کے بھائی کے ہیں۔‘

پھر جنوبی غزہ میں ہی واقع پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں رہائش پزیر عبدالسلام کے بھائی ہسپتال پہنچ گئے۔ ان کے موبائل میں اپنے لاپتہ بھائی کی ایک تصویر تھی جس میں ان کے جوتے بھی نظر آ رہے تھے۔

غزہ
BBC
ذکی کا ماننا ہے کہ ان کے سامنے پڑی ہڈیاں اور کپڑے لاپتہ ہونے والے عبدالسلام کے ہیں

وہ وہاں موجود لاش کے سامنے جھک گئے اور اس پر سے پردہ ہٹایا۔ انھوں نے کھوپڑی اور کپڑوں کو چھوا اور پھر جوتوں کو دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اس کے ساتھ ہی ایک اور لاش کا شناختی عمل مکمل ہو چکا تھا۔

یہاں ہی موجود ایک اور خاندان کفن نما تھیلوں کو ٹٹول رہا تھا۔ ان میں ایک بوڑھی دادی تھیں، ایک بیٹا تھا، ایک بیٹی تھی اور ایک شیرخوار بچہ۔

اس گروہ میں بچے کو سب سے پیچھے رکھا گیا تھا اور بزرگ خاتون اور ان کا بیٹا ایک کفن نما تھیلے کو دیکھ رہے تھے۔ وہ اس تھیلے کو کچھ لمحوں تک دیکھتے رہے اور پھر دکھ میں ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگے۔

اس کے بعد ہسپتال کے کارکنان کی مدد سے یہ خاندان ایک لاش کی باقیات اپنے ساتھ لے گیا۔ ان سب کی سسکیاں سُنی جا سکتی تھیں لیکن وہ باآواز بلند نہیں رو رہے تھے۔

13 سالہ آیا الدبیح غزہ کے شمال میں اپنے خاندان اور دیگر ہزاروں پناہ گزینوں کے ساتھ ایک سکول میں رہائش پزیر تھیں۔ وہ اپنے والدین کے نو بچوں میں سے ایک تھیں۔

غزہ
BBC
13 سالہ آیا الدبیح غزہ کے شمال میں اپنے خاندان اور دیگر ہزاروں پناہ گزینوں کے ساتھ ایک سکول میں رہائش پزیر تھیں

ان کے خاندان کے مطابق غزہ میں جنگ کے ابتدائی دنوں میں آیا سکول کی اوپری منزل پر بنے باتھ روم گئیں اور انھیں ایک اسرائیلی سنائپر نے سینے پر گولی مار دی۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ عام شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے اور ان کا الزام ہے کہ حماس کے جنگجو ان پر شہری علاقوں سے حملہ کرتے تھے۔

تاہم اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق جنگ کے دوران ’اسرائیلی فوج کی جانب سے گنجان آباد علاقوں میں شدید فائرنگ کی جاتی تھی جس کے نتیجے میں یہاں غیر قانونی ہلاکتیں ہوتی تھی جس میں غیر مسلح راہگیر بھی شامل ہوتے تھے۔‘

آیا کے خاندان نے انھیں سکول کے پاس ہی دفنا دیا۔ ان کی 43 سالہ والدہ لینا الدبیح نے انھیں ایک کمبل میں لپیٹ دیا تھا تاکہ اگر ان کی قبر کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کرے تو ان کی لاش ’بارش اور سورج کی روشنی سے محفوظ رہ سکے۔‘

جب اسرائیلی فوج نے سکول کا کنٹرول سنبھالا تو لینا الدبیع وہاں سے غزہ کے جنوبی علاقے میں منتقل ہو گئیں۔ ان کے پاس اپنی بیٹی کی قبر سے دور جانے کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا، تاہم ان کو یہ امید تھی کہ وہ بعد میں یہاں دوبارہ آ کر اپنی بیٹی کو باقیات کو دوبارہ ڈھونڈیں گی اور باقاعدہ ان کے کفن دفن کا انتظام کریں گی۔

لینا الدبیع اپنی بیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ: ’آیا ایک بہت مہربان لڑکی تھی، ہر کوئی اس سے محبت کرتا تھا اور وہ سب سے محبت کرتی تھی۔ وہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی اور ہمیشہ سب کا بھا چاہتی تھی۔‘

جب اس علاقے میں جنگ بندی ہوئی تو لینا الدبیع وہاں موجود اپنے رہشتہ داروں کو اپنی بیٹی کی قبر دیکھنے کو کہا اور وہاں سے انھیں جو خبر ملی وہ دِل دہلا دینے والی تھی۔

’ہمیں بتایا گیا کہ اس کا سر کہیں اور ہے، دھڑ کہیں دوسری جگہ اور پسلیاں کہیں اور۔ جو عزیز اس کی قبر دیکھنے گئے تھے انھوں نے ہمیں یہ سب چیزیں تصویروں میں دکھائیں۔‘

’جب میں نے اسے دیکھا تو میں سمجھ ہینہیں پائی کہ اس کا جسم قبر سے کیسے باہر آیا اور کتوں نے اُسے کیسے کھا لیا؟ میں اپنے حواس پر قابو نہیں پا سکتی۔‘

غزہ
BBC
رفح کے رہائشی اُسامہ صالح جنگ بندی کے بعد جب اپنے گھر لوٹے تو انہیں اندر ایک ڈھانچہ ملا

لینا البدیح کے خاندان والوں نے ان کی بیٹی کی ہڈیاں سمیٹ لی ہیں اور اب آیا کی باقیات کو باقاعدہ ایک قبر میں دفن کیا جائے گا۔

غزہ میں جنگ بندی تو ہو گئی ہے لیکن لینا البدیح کے دکھ کا کوئی اختتام نہیں نظر آتا۔

ان کا کہنا ہے کہ: ’میں اس کی لاش کو قبر سے نکال کر اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتی تھی۔ بتاؤ میں اُسے کہاں لے کر جاتی؟‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.