’یہ دونوں میرے بڑے بیٹے کے بچے ہیں۔ ان کے چہرے دیکھیں۔ ان کی آنکھیں کیوں نم ہیں؟ انہیں تو اب تک موت اور زندگی کا بھی نہیں معلوم لیکن پھر بھی یہ دونوں بہت روئے ہیں۔‘پاکستان کے دور دراز شمالی پہاڑی ضلع شانگلہ کی تحصیل الپوری کے گاؤں باسی کے محمد یونس نے جب یہ کہتے ہوئے ایک آٹھ سالہ بچی اور چھ برس کے بچے کو سامنے کیا تو ان کی اپنی آواز گُلو گیر تھی اور گماں ہوتا تھا کہ وہ خود بھی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں گے۔بچے آگے بڑھے تو ڈرے ہوئے تھے، وہ سہمے سہمے سامنے چارپائی پر بیٹھ گئے۔ ان کے چہرے ٹھنڈ اور مسلسل رونے کی وجہ سے سرخ ہو گئے تھے۔ایسے دل شکن مناظر باسی گاؤں کے ایک بلند پہاڑ پر واقع محمد یونس کے مٹی سے بنے کچے گھر میں گذشتہ کئی دنوں سے دیکھے جا رہے ہیں۔ جہاں پر اردگرد کے لوگ ان کے دو جوان بھتیجوں کی موت پر افسوس کرنے آ رہے ہیں، جو 9 جنوری کو صوبہ بلوچستان کے علاقے سنجدی میں کوئلے کی کان میں ایک دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
اس واقعے میں کل 12 مزدور ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے 10 کا تعلق شانگلہ سے تھا۔
یہ پہلا واقعہ نہیں جب شانگلہ کے غریب مزدور بلوچستان یا ملک کے کسی دوسرے علاقے کی کسی کان میں حادثے کا شکار ہوئے ہوں بلکہ اس علاقے کے بیشتر گھروں میں کان کنی کے دوران زخمی یا ہلاک ہونے والا شخص ضرور موجود ہے۔سنہ 2011 میں بلوچستان کی پاکستان مائن ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کی کان میں دھماکہ ہونے سے ایک ہی دن شانگلہ کے علاقے پیر آباد میں 42 مزدروں کی لاشیں لائی گئی تھیں۔لیکن اب یہاں کان بیٹھ جانے، اس میں دھماکے ہو جانے یا کسی اور حادثے میں مقامی لوگوں کے ہلاک ہونے کی خبریں معمول بن چکی ہیں اور آئے روز ایسے سانحوں کی اطلاعات یہاں کسی نہ کسی گھر میں صف ماتم کا باعث بن جاتی ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق ضلع شانگلہ کی آبادی ساڑھے آٹھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ کوئلہ کان میں مزدوروں کی ہلاکت کے علاوہ یہاں بڑی تعداد میں بیوائیں، یتیم، اور معذور بھی ہیں۔اس کے باوجود شانگلہ کے ہزاروں لوگ آج بھی بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں کان کنی کرتے ہیں، کیونکہ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے کوئی اور کام میسر نہیں ہے۔محمد یونس اپنے کچے گھر کی چھت پر رکھی چارپائیوں پر بیٹھے افسوس کے لیے آنے والے لوگوں کو اپنے بھتیجوں 32 سالہ واحد زمان اور 21 سالہ ناظم اللہ کی افسوسناک کہانی سنا رہے ہیں۔ وہ آنے والوں سے تھوڑی دیر بات کرتے ہیں، ان کا غم ذرا ہلکا ہوتا ہے اور پھر کچھ ہی دیر بعد واحد زمان اور ناظم اللہ کی کوئی ذکر چھڑتا ہے اور وہ دوبارہ غمگین ہو جاتے ہیں۔یہاں واحد زمان اور ناظم اللہ کے بھائی سمیع اللہ بھی موجود ہیں جو خود بھی بلوچستان کی ایک کوئلے کی کان میں کام کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ 32 برس کے واحد زمان اور 21 برس کے ناظم اللہ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن کوئی اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے وہ سب کانوں میں کام کرنے پر مجبور ہوئے۔ اور پھر جب حادثے کے بعد وہ کان میں پھنس گئے تو ان کے اہل خانہ پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔
شانگلہ کے ہزاروں لوگ آج بھی بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں کان کنی کرتے ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)
’امید تھی تینوں مل کر قرض اتاریں گے اور اچھی زندگی گزاریں گے‘سمیع اللہ نے سنجدی کان میں دھماکے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے متعلق اردو نیوز کو بتایا کہ ’میرے چھوٹے بھائی ناظم اللہ کو 19 گھنٹوں بعد ریسکیو کیا گیا جبکہ دوسرے بھائی واحد زمان کو 65 گھنٹوں بعد نکالا گیا۔ ہم رات کے 12 بجے وہاں پہنچے۔ مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ریسکیو آپریشن کر رہے تھے لیکن یہ آپریشن ہاتھوں سے ممکن نہیں تھا۔ بعد میں بڑی مشینیں آئیں تو تین گھنٹوں تک ایکسویٹرز کی مدد سے صرف کان کی سطح تک پہنچنے میں کامیابی ملی۔‘
سمیع اللہ کے مطابق ان کے بھائی واحد زمان پر 13 لاکھ کا قرضہ تھا، اس لیے انہوں نے کوئلے کی کان میں کام کرنے کا سوچا۔’میرا پورا خاندان کوئلے کی کان میں مزدوری کرتا ہے۔ سہولیات کی عدم موجودگی اور بے روزگاری کی وجہ سے ہم کوئلے کی کان میں اترنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ میرے بھائی کی مجبوری تھی۔ اسے کان میں جانے کے علاوہ کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہمیں امید تھی کہ ہم تینوں مل کر قرض ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا پورا خاندان سنبھال لیں گے اور ایک اچھی زندگی بسر کریں گے لیکن ہمارا تو خاندان ہی ٹوٹ گیا ہے۔‘’گھر کا خرچ چلانے کے لیے اسے مجبوراً کان میں جانا پڑا‘سنجدی کوئلہ کان میں 27 سالہ شفیع الرحمان بھی ہلاک ہوئے۔ ان کے والد اپنی بیٹھک کے ایک کونے میں چادر اوڑھ کر افسردہ بیٹھے ہیں۔ وہ کسی سے بات نہیں کر پا رہے۔انہوں نے اردو نیوز کو ہاتھ کے اشاروں سے سمجھایا کہ وہ اس موقع پر کچھ نہیں بتا پا رہے، ان کے منہ سے بات نہیں نکل رہی۔
ضلع شانگلہ میں ایک بڑی تعداد میں بیوائیں، یتیم، اور معذور ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)
شفیع الرحمان کے بھائی عمر محمد نے بتایا کہ ’ان کے بھائی نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ بیرون ملک مزدوری کے لیے گئے تھے لیکن بدقسمتی سے ان پر تین سال کی پابندی لگ گئی اور وہ واپس آ گیا۔ گھر کا خرچ چلانے کے لیے انہیں مجبوراً بلوچستان کی کان میں جانا پڑا۔‘
’وہ کوئلہ کان میں گیا لیکن برے وقت کا کبھی بھی پتا نہیں چلتا۔ اس نے قانونی پابندیوں کی وجہ سے تین سال پاکستان میں گزار کر واپس بیرون ملک جانا تھا، لیکن آج وہ ہم میں نہیں ہے۔‘بلوچستان ریلوے لائن اور شانگلہ کے مزدورضلع شانگلہ کے سماجی کارکن اور پاکستان سینٹرل مائن لیبر فیڈریشن خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر علی باش خان کان کنوں کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ شانگلہ کے نوجوانوں کی بلوچستان میں مزدوری کے لیے جانے کی روایت بہت پرانی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’سنہ 1879 میں انگریز حکمرانوں نے بلوچستان میں 1400 کلومیٹر سے زائد ریلوے لائن بچھانے کا کام شروع کیا۔ اس وقت وسائل کی کمی تھی اور ٹیکنالوجی کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ اس لیے اس وقت زیادہ تر کام مزدوروں نے کیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ضلع شانگلہ سے دو بھائی بلوچستان کی اسی ریلوے لائن میں پہلی بار مزدوری کرنے کے لیے گئے اور یہ سلسلہ آج کوئلے کی کانوں میں شانگلہ کے نوجوانوں کے کام کرنے تک پہنچ چکا ہے۔‘کوئلہ کان اور مزدوروں کی حالت زارسنجدی سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کا شکوہ ہے کہ ریسکیو آپریشن میں تاخیر کی گئی لیکن بلوچستان میں کام کرنے والے کان کنوں کے مطابق وہاں مجموعی طور پر حفاظتی اقدامات کی کمی ہے۔
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے 40 کلومیٹر دور واقع شانگلہ کی پانچ تحصیلوں کے لوگوں کی اکثریت کان کنوں پر مشتمل ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)
شانگلہ ہی کے پیر محمد خان جو دو دہائیوں سے بلوچستان کی ایک کوئلہ کان میں بطور جمعدار کام کر رہے ہیں، نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئلے کے کاروبار میں سب سے بڑا مسئلہ حفاظتی تدابیر کا نہ ہونا ہے۔ اس کے بعد مینیجرز، کمپنی، ٹھیکے دار اور انسپکٹر کی نااہلی آتی ہے۔ جو کانیں سرکاری طور پر بند ہوتی ہیں، انسپکٹر انہیں غیرقانونی طور پر کھول دیتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’یہ کانیں حفاظتی اقدامات نہ ہونے اور خطرات کی وجہ سے غیرقانونی ہیں لیکن لوگ مجبوری کی وجہ سے یہاں کام کرتے ہیں۔‘پیر محمد خان کا کہنا تھا کہ ’مرنے والوں میں 20 برس سے کم عمر کے نوجوان بھی تھے۔ کئی نوجوانوں کا شناختی کارڈ بھی نہیں بنا لیکن وہ کوئلہ کان میں مزدوری کرتے ہیں۔‘’شانگلہ ایک ہوٹل ہے‘جمعدار پیر محمد خان ضلع شانگلہ کو ایک ہوٹل قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’شانگلہ کی مثال ایک ہوٹل کی ہے۔ بلوچستان، درہ آدم خیل، سندھ، پنجاب اور دیگر علاقوں میں ہم مزدوری کرتے ہیں اور پھر اس ہوٹل میں آ کر کھاتے ہیں۔ یہاں ہماری جائیداد نہیں ہے، ہم صرف اپنوں کے لیے یہاں ہیں۔ یہاں ہمارے لیے صرف رہنے کی جگہ ہے۔ ہم اتنا کماتے ہیں کہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں اور اپنے اخراجات پورے کر سکیں۔‘سمیع اللہ کا کہنا تھا کہ شانگلہ میں بے روزگاری کی وجہ سے لوگ کوئلہ کان میں مزدوری کرنے جاتے ہیں۔’شانگلہ میں غربت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ یہاں کوئی کارخانہ ہے اور نہ ہی کوئی اور سہولت۔ ہمارے حکمرانوں نے موٹرویز اور سی پیک پر توجہ دی ہے اور شانگلہ کے لوگ (روزگار نہ ہونے کی وجہ سے) خوار ہو رہے ہیں۔‘
عابد یار کے مطابق مزدوروں کی عمر 50 برس سے اوپر ہو جانے کے بعد ان میں بے شمار بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں (فوٹو: اردو نیوز)
80 فیصد مزدور شانگلہ سے ہیںسوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے 40 کلومیٹر دور واقع شانگلہ کی پانچ تحصیلوں کے لوگوں کی اکثریت کان کنوں پر مشتمل ہے۔
مقامی تنظیم شانگلہ مائینز ورکررز ویلفئیر ایسوسی ایشن (سموا) کے جنرل سیکریٹری عابد یار بتاتے ہیں کہ ’کوئلے کی کان کا مزدور باقاعدہ طور پر کسی بھی تنظیم یا سرکاری محکمے کے ساتھ رجسٹر نہیں اسی لیے ان کی اصل تعداد سے متعلق اندازے ہی لگائے جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تین سے لے کر ساڑھے تین لاکھ تک مزدور پاکستان کے کوئلہ کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان میں 80 فیصد کا تعلق ضلع شانگلہ سے ہے۔ شانگلہ میں تحصیل الپوری اور تحصیل پورن کے لوگ زیادہ متاثر ہیں۔‘علی باش خان اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ تحصیل الپوری کی 10 یونین کونسلز کی زیادہ تر آبادی مائنز کے کام سے منسلک ہے۔’شانگلہ کے لوگ جفاکش اور محنت کش ہیں۔ یہ پانچ اور چھ ہزار فٹ زیرِزمین سے سونا نکالتے ہیں لیکن خود کوئلہ بن جاتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ضلع شانگلہ میں مائنز میں کام کرنے کی وجہ سے اب تک 8700 سے زائد افراد معذور ہو چکے ہیں۔’50 برس کی عمر میں بیماریاں گھیر لیتی ہیں‘عابد یار کے مطابق ’ان مزدوروں کی عمر جب 50 برس سے اوپر ہو جاتی ہے تو ان میں بے شمار بیماریوں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان کے گردے خراب ہو جاتے ہیں۔ الپوری کے سرکاری ہسپتال کے ٹی بی وارڈ میں اب تک 7500 سے زائد مریض رجسٹر ہو چکے ہیں۔ یہاں ایسا کوئی گھر نہیں جہاں کوئی زخمی نہ ہو یا مرا نہ ہو۔‘انہوں نے کہا کہ ’کوئلے میں پیسے زیادہ نہیں ہیں۔ بہت ہی مضبوط مزدور بھی سال میں 5 ماہ یہ کام کر سکتا ہے کیونکہ یہ مشکل کام ہے۔ پھر وہ گھر ہوتا ہے۔ وہ ایک ماہ میں 50 سے 70 ہزار تک کما سکتا ہے۔ حساب وہی بنتا ہے لیکن یہ ایک دوڑ ہے۔‘