یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب امریکن ایئر لائنز کا طیارہ واشنگٹن کے رونلڈ ریگن نیشنل ایئر پورٹ کے قریب امریکی فوج کے ایک ہیلی کاپٹر سے ٹکرایا۔
’ہیلی کاپٹر کافی دیر تک سیدھا مسافر طیارے کی جانب جاتا رہا۔ موسم بلکل صاف تھا، طیارے کی لائٹیں جل رہی تھیں۔ ہیلی کاپٹر نیچے یا اوپر کیوں نہیں ہوا، مڑا کیوں نہیں؟‘
’کنٹرول ٹاور نے ہیلی کاپٹر کو بتایا کیوں نہیں کہ کیا کرنا ہے بجائے اس کے کہ سوال کرے کہ کیا انھوں نے جہاز کو دیکھا؟‘
یہ سوالات امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ایک مسافر بردار طیارے اور فوجی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر کے فضا میں تصادم کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اٹھائے ہیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر جاری بیان میں لکھا کہ ’یہ ایک بری صورت حال ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس سے بچا جا سکتا تھا۔‘
واضح رہے کہ مسافر بردار طیارے میں عملے سمیت 64 افراد سوار تھے جو تصادم کے بعد واشنگٹن کے پوٹومیک دریا میں جا گرا۔ ریسکیو حکام کے مطابق اب تک 19 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جبکہ ریسکیو کا عمل جاری ہے۔ تاہم اب تک کسی کے زندہ بچ جانے کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔
یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب امریکن ایئر لائنز کا طیارہ واشنگٹن کے رونلڈ ریگن نیشنل ایئر پورٹ کے قریب امریکی فوج کے ایک ہیلی کاپٹر سے ٹکرایا۔ امریکی محکمہ دفاع، پنٹاگون، کے مطابق فوجی ہیلی کاپٹر ورجینیا کے فورٹ بیلوائر سے اڑا تھا جس میں تین فوجی سوار تھے۔
امریکی میڈیا کی خبروں کے مطابق مسافر بردار طیارے دو ٹکڑوں میں دریا میں دیکھا گیا۔ یاد رہے کہ واشنگٹن میں جما دینے والی سردی کی لہر ہے اور ایسے میں پولیس اور دیگر ریسکیو ادارے دریا کے یخ بستہ پانی میں آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔
’بیوی نے کہا 20 منٹ میں اتر رہے ہیں‘
حامد رضا ریگن واشنگٹن انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر انتظار کر رہے تھے کہ کب ریاست کنساس میں وچیٹا سے اڑنے والی پرواز اترے گی۔
اس جہاز میں ان کی اہلیہ بھی سوار تھیں۔ حادثے کی خبر آنے کے بعد بی بی سی کے امریکہ میں پارٹنر سی بی ایس نیوز کے ایک مقامی پارٹنر سے بات کرتے ہوئے حامد رضا نے بتایا کہ ان کی اہلیہ نے فون پر ٹیکسٹ پیغام بھیج کر بتایا تھا کہ ’میں 20 منٹ میں پہنچنے والی ہوں۔‘
اور طیارہ ایئر پورٹ کے قریب پہنچ بھی چکا تھا جب ایری شلمین کی اس پر نظر پڑی۔
وہ ایئر پورٹ سے ملحقہ جارج واشنگٹن پارک وے پر گاڑی چلا رہے تھے جب پہلی نظر میں ان کو سب کچھ ٹھیک لگا۔ انھوں نے این بی سی واشنگٹن سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’طیارہ بلکل ٹھیک اڑ رہا تھا جب اچانک دائیں جانب مڑا تو اس کے نیچے سے جیسے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔‘
اس وقت ان کو احساس ہو گیا تھا کہ ’کچھ بہت غلط ہونے والا ہے۔‘ ایری کے مطابق ایئر پورٹ کے قریب رہنے کی وجہ سے وہ اکثر طیاروں کو لینڈ ہوتے دیکھتے ہیں اور اس تجربے کی بنیاد پر ان کو معلوم ہے کہ رات کے وقت طیارے کا نچلا حصہ روشن نہیں ہونا چاہیے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ چنگاریاں ’کسی بڑی موم بتی جیسی‘ تھیں جو طیارے کے ’اگلے حصے سے پچھلے حصے تک جا رہی تھیں۔‘
ایری کا کہنا تھا کہ انھوں نے مڑ کر سڑک کی جانب دیکھا کہ شاید انھیں دھماکہ یا کریش کے کوئی ثبوت دکھائی دیں لیکں انھیں کسی دھماکے کی آواز نہیں سنائی دی۔ ’مجھے کچھ نہیں دکھا، سب کچھ ایک دم نارمل تھا۔‘
آسمان پر ’سفید شعلہ‘
ایری نے این بی سی کو بتایا کہ انھیں شک ہوا کہ کہیں انھوں نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا۔ ’اگر یہ اتنا ہی خوفناک حادثہ تھا تو مجھے بعد میں کچھ دکھائی کیوں نہیں دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب وہ آگے گئے تو انھیں امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے والے جاتے دکھائی دیے۔
جمی مازیو ایئر پورٹ کے قریب ہی موجود ایک پارک میں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ رات کا کھانا کھا رہے تھے جب انھوں نے فضا میں ایک ’سفید شعلہ‘ دیکھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کو اس وقت تک کچھ سمجھ نہیں آیا جب تک ایمرجنسی حکام نے موقع پر پہنچ کر کام شروع نہیں کیا۔