اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے گزشتہ روز دی جانے والی آبزرویشن پر وضاحت دی۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے دلائل دیئے گئے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آج میں اپنے دلائل ختم کرلوں گا۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے گزشتہ روز آبزرویشن پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز خبر چلی کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 ججز غلط کہہ دیتے ہیں۔ اور گزشتہ روز کی خبر پر بہت سے ریٹائرڈ ججز نے مجھ سے رابطہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے میڈیا کی پرواہ نہیں لیکن درستگی ضروری ہے۔ ججز اور لوگ والی بات میں نے عام تاثر میں کی تھی۔ اور کہا تھا کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 لوگ کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ غلط ہے۔ کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم سے وزیر داخلہ کی ملاقات ، امن و امان کی صورتحال اور دورہ امریکا پر بریفنگ
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے۔ اور فوجی عدالتوں کا آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام میں ذکر نہیں ہے۔ فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں۔ اور مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے دلائل مکمل کیے گئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا رہے ہیں۔ جس کے بعد بلوچستان حکومت کے وکیل نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ بلوچستان حکومت کی وکالت کیسے کر سکتے ہیں؟ اور اگر نجی وکیل ہی کرنے ہیں تو ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بند کر دیں۔ پہلے تو بلوچستان حکومت کو اپنا حق دعویٰ ثابت کرنا ہوگا۔ جبکہ صوبائی حکومت کا اس معاملے سے کیا لینا دینا ہے۔ پہلے یہ بتانا ہو گا۔
وکیل خواجہ احمد حسین نے مؤقف اختیار کیا کہ کہا گیا فوجی عدالت سے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ کی گنجائش ہے۔ اور رٹ دائر کرنے کی گنجائش بنیادی حقوق سلب کرنے کا جواز نہیں بن سکتی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا سول اور فورسز سے وابستہ ملزم میں فرق نہیں ہونا چاہیے؟۔ ایک سویلین کو آئین بنیادی حقوق کا تحفظ دیتا ہے۔
وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ایک عام شہری کا معاملہ اس سے الگ ہوتا ہے۔ اور ممبرز کا ذکر آنے سے طے ہو گیا کہ عام شہریوں کا وہاں ٹرائل نہیں ہو گا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آرٹیکل آٹھ تین میں ممبرز آف آرمڈ فورسز کے بجائے صرف آرمڈ فورسز ہوتا؟
جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔