اسلام آباد ہائی کورٹ کے سات ججز نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی اور صدر آصف علی زرداری کو ایک خط لکھا ہے جس میں کسی دوسری ہائی کورٹ سے ججز کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعیناتی کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
خط میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ کسی دوسری ہائی کورٹ سے جج لانے کے بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہی تین سینیئر ججز میں سے کسی کو چیف جسٹس نامزد کیا جائے۔
جمعہ کو سامنے آنے والے خط میں اسلام ہائی کورٹ کے سات ججز کے نام شامل ہیں جبکہ خط پر پانچ ججز نے دستخط کیے ہیں۔
مشترکہ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس محمد طارق جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا ہے۔
یہ خط صدر آصف علی زرداری اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیٰی آفریدی سمیت اسلام آباد ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کو لکھا گیا ہے۔
ماہرین قانون ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں ججز کی منتقلی کے معاملے پر مختلف آراء رکھتے ہیں۔بعض متعلقہ جج کی رضامندی پر اسے جائز عمل قرار دے رہے ہیں جبکہ کچھ اس اقدام کو آئین کی صریحاً خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔
ہائی کورٹ کے ججز کے خط میں مزید کیا کہا گیا ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سات ججز نے اپنے خط میں کسی دوسری ہائی کورٹ سے جج لانے کے لیے بامعنی مشاورت کو ضروری قرار دیا ہے۔
اُن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دوسری ہائی کورٹ سے جج لانے کے لیے وجوہات دینا بھی ضروری ہیں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی نسبت لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا کیسز کی تعداد بھی زیادہ ہے۔
ججز کے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ میڈیا میں لاہور ہائی کورٹ سے جج اسلام آباد ہائی کورٹ لانے کی خبریں رپورٹ ہوئی ہیں۔
بار ایسوسی اِیشنز کی جانب سے بھی کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے ایک جج کو ٹرانسفر کیا جانا ہے اور ٹرانسفر کیے گئے جج کو پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر زیرغور لایا جائے گا۔
’سندھ ہائی کورٹ سے بھی ایک جج کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کی تجویز زیرغور ہونے کی اطلاعات ہیں۔‘ ججز نے سوال اٹھایا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری سینیارٹی کیسے تبدیل ہو سکتی ہے؟‘
خط کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ تبادلے کا عمل آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہوتا ہے۔ ہم زور دیتے ہیں کہ صدر کو ججز کے ٹرانسفر کی ایڈوائس نہ دیں کیونکہ 26 ویں آئینی ترمیم میں قانون سازوں نے مستقل تبادلے کی اجازت نہیں دی۔
ججزکے تبادلے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 200 میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ٹرانسفر ہونے والے جج کو آئین کے آرٹیکل 194 کے تحت نیا حلف اٹھانا ہو گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ٹرانسفر ہونے والے جج کی سینیارٹی کا تعین اس تاریخ سے کیا جائے جس دن وہ حلف اٹھائے گا۔
لاہور ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ جج کو چیف جسٹس بنانے کے لیے لایا گیا تو یہ آئین کے ساتھ فراڈ ہوگا۔نئے آرٹیکل 175 کے تحت ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کا تقرر اس ہائی کورٹ کے تین سینیئر جج سے ہوگا۔
قانونی ماہرین کی رائے
آئینی ماہر حافظ احسان احمد کھوکھر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کے معاملے پر اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 200 جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کے پورے طریقہ کار کی تفصیلی وضاحت کرتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ یہ آرٹیکل صدر پاکستان کو ہائی کورٹ کے جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
’تاہم ہائی کورٹ کے کسی جج کی رضامندی حاصل کیے بغیر اُسے ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل نہیں کیا جا سکتا۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’اس سے قبل جسٹس سردار محمد اسلم کا فروری 2008 میں لاہور ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ کیا گیا تھا اور بعد میں وہ چیف جسٹس بھی بنے تھے۔‘
’آئین میں جج کی پیشگی رضامندی کے بعد صدر، چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کے درمیان اہم مشاورت ضروری قرار دی گئی ہے۔‘
حافظ احسان احمد کھوکھر کے مطابق ’اگر ہائی کورٹ کے جج کو جس عدالت میں منتقل کیا جاتا ہے اور وہاں چیف جسٹس کا عہدہ خالی ہے تو اہلیت اور سنیارٹی کی بنیاد پر ٹرانسفر کیے گئے جج کو اُس ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بھی لگایا جا سکتا ہے۔‘
دوسری جانب اسلام ہائی کورٹ بار کے صدر ریاست علی آزاد نے ہائی کورٹ کے ججز کے تحفظات کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایک ہائی کورٹ کے جج کو کسی دوسری ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کرنا آزاد عدلیہ پر حملہ ہے۔‘
اُنہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومت اس اقدام سے اپنے من پسند جج کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں لانا چاہتی ہے جس کے لیے آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔‘
اُنہوں اس خدشے کا اظہار کیا کہ ’اگر حکومت کوئی ایسا فیصلہ کرتی ہے تو اس سے عدلیہ کی ساکھ بُری طرح متاثر ہو گی اور آزاد عدلیہ کا کردار ختم ہو جائے گا۔‘