ایک لڑکے کی تلاش میں کراچی پہنچنے والی امریکی خاتون جنھیں تضحیک آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑا

اونیجا کی کہانی سے متعلق ناصرف پاکستان کے سوشل میڈیا پر بحث مباحثہ جاری ہے بلکہ سیاست دان بھی اس سے متعلق کچھ 'غیرحساس' گفتگو کرتے پائے گئے ہیں۔

'عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا رنگ، رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ہائےہائے۔۔۔' راحت فتح علی خان کی آواز میں گائی گئی مرزا غالب کی یہ غزل کراچی میں موجود امریکی شہری اونیجا اینڈریو کے ٹِک ٹاک پیج پر لگائی گئی ہے۔

ٹک ٹاک پر پوسٹ کی گئی اس ویڈیو میں انھوں نے سر پر سفید رنگ کا سکارف پہنا ہوا ہے جبکہ اُن کے ہاتھوں پر مہندی لگی ہوئی ہے۔

پاکستان میں مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر اونیجا کی یہ ویڈیو وائرل ہے جسے ہزاروں مرتبہ شیئر کیا گیا ہے۔

اونیجا اینڈریو رابنس نامی یہ امریکی خاتون گذشتہ کئی دنوں سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں موجود ہیں اور اُن کی موجودگی خبروں اور تبصروں کی زینت بن رہی ہے۔

ویزا کی معیاد پوری ہونے اور پاکستانی اور امریکی حکام کی متعدد کوششوں کے باوجود وہ واپس امریکہ جانے سے انکاری ہیں۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ کراچی میں ایک پاکستانی نوجوان کی محبت کا شکار ہو کر اور اُس کی تلاش میں پہنچی تھیں۔

کراچی پولیس کے مطابق جس لڑکے کے حوالے سے یہ خاتون بات کر رہی ہیں وہ اپنے اہلخانہ سمیت کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہو چکا ہے۔

مگر اس کہانی کی ابتدا کیسے ہوئی؟

کراچی میں پولیس حکام کے مطابق نیویارک کی رہائشی اونیجا اینڈریو سیاحتی ویزا پر پاکستان آئی تھیں۔ ویزے کی معیاد ختم ہونے کے بعد وہ کراچی ایئرپورٹ میں مقیم تھیں اور چند روز قبل جب گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا ایئرپورٹ پر جانا ہوا تو ایس ایچ او ایئرپورٹ کلیم خان نے انھیں بتایا کہ ایک امریکی خاتون یہاں مقیم ہیں اور اُن کے پاس واپسی کا ٹکٹ نہیں ہے۔

پولیس حکام کے مطابق اس کے بعد اونیجا کی کہانی منظر عام پر آئی۔

ایس ایچ او ایئرپورٹ کلیم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکی خاتون کب سے یہاں مقیم تھیں وہ اس بات سے لاعلم ہیں تاہم جیسے ہی خاتون کی موجودگی ان کی علم میں لائی گئی تو انھوں نے اس بابت گورنر کو بتا دیا۔

گورنر کامران ٹیسوری کے پریس ترجمان فیصل فاروقی نے بی بی سی کو بتایا کہ گورنر نے متعلقہ حکام کو خاتون کے ویزا میں توسیع کے سفارش کی تھی اور اُن کے واپسی کے ٹکٹ کی یقین دہانی کروائی تھی۔

فلاحی تنظیم 'جے ڈی سی' کی جانب سے اونیجا کے واپسی کا ٹکٹ کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس تنظیم کی جانب سے اس ضمن میں ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کیا جس میں وہ ٹکٹ متعلقہ ایس ایچ او کے حوالے کر رہے ہیں۔ اس ویڈیو میں اونیجا بھی موجود ہیں جو ہاتھ میں انہیلیر اٹھائے ہوئے ہی ہیں۔

'جے ڈی سی' سے تعلق رکھنے والے ظفر عباس اس ویڈیو میں کہتے ہیں کہ یہ خاتون آٹھ روز قبل آئی تھیں اور ایئرپورٹ کے ہوٹل میں مقیم تھیں۔ 'ان کا ویزا بھی ایکسپائر ہو گیا تھا۔ ایک 19 سالہ نوجوان نے انھیں امریکہ سے یہاں بلایا تھا اور کہا تھا کہ شادی کروں گا۔ مگر جب یہ خاتون کراچی آئیں تو لڑکے کی جانب سے انھیں قبول نہیں کیا گیا اور کہا کہ فیملی نے منع کر دیا ہے۔'

'لڑکے کے گھر کے باہر دھرنا'

چند روز قبل اونیجا کو واپس بھیجنے کا انتظام مکمل کر لیا گیا تھا۔ پولیس حکام کے مطابق قطر ایئر ویز کی پرواز کا واپسی کا ٹکٹ بھی جاری کر دیا گیا تھا اور بورڈنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد انھوں نے دوبارہ واپس جانے سے انکار کر دیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ایئرپورٹ سے نکلنے کے بعد وہ ٹیکسی لے کر اس عمارت کے سامنے پہنچ گئیں جہاں مبینہ طور پر اس نوجوان کی رہائش گاہ ہے۔ اس مقام پر میڈیا بھی بڑی تعداد میں موجود رہا ہے۔

ابتدائی طور پر کراچیپولیس حکام نے ایس پی فائزہ سوڈھڑ کو خاتون سے ملاقات کے لیے بھیجا تھا لیکن ان سے مذاکرات میں کامیابی نہیں ہو سکی۔ ایس پی فائزہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہاں بڑا رش لگ چکا تھا اور خاتون بھی کافی ڈسٹرب تھیں۔

'جو نوجوان تھا وہ وہاں موجود نہیں تھا، اُن کی پوری فیملی گھر خالی کرکے نامعلوم مقام پر منتقل ہو چکی ہے۔ اس لیے مکمل حقائق سامنے نہیں آ سکے۔'

کراچی سے سیینئر صحافی ثمر عباس کہتے ہیں کہ پولیس کی تفتیش کے مطابق خاتون جس لڑکے کی بات کر رہی ہیں اس کی عمر 22 سال کے لگ بھگ ہے اور وہ مقامی کال سینٹر میں کام کرتا تھا۔

کراچی
Getty Images

اونیجا کے مطالبات کیا ہیں؟

اونیجا نے پولیس اور حکام سے ملاقات میں واضح کیا تھا کہ وہ اپنے مبینہ 'شوہر' کے بغیر واپس امریکہ نہیں جائیں گی تاہم بعدازاں مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مالی نوعیت کے چند مطالبات بھی کیے ہیں۔

لڑکے کے گھر کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان انھیں ہر ہفتے پانچ ہزار ڈالر ادا کرے، اس کے علاوہ اُن کو زمین اور مقامی شہریت بھی دی جائے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ وہ نیویارک میں اپنی ملازمت اور کپڑوں کا کاروبار چھوڑ کر آئی ہیں، اب وہ پاکستانی ہیں۔ وہ اس ملک کی تعمیر نو کرانا چاہتی ہیں۔ ’حکومت یہاں سڑکیں بنائے اور بجلی کی فراہمی یقینی بنائے۔‘

پولیس حکام کی جانب سے گذشتہ دنوں اونیجا کو فلاحی ادارے چھیپا کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

دوسری جانب امریکی خاتون نے فی الحال پولیس کو لڑکے کے خلاف کوئی تحریری شکایت نہیں دی ہے جبکہ کراچی میں امریکی قونصل خانے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مشن اس تمام تر صورتحال سے آگاہ ہے لیکن رازداری کے قوانین کی وجہ سے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔

’خاتون کو تضحیک کا نشانہ بنانا ایک شرمناک رویہ ہے‘

اونیجا کی کہانی سے متعلق ناصرف پاکستان کے سوشل میڈیا پر بحث مباحثہ جاری ہے بلکہ سیاست دان بھی اس سے متعلق کچھ 'غیرحساس' گفتگو کرتے پائے گئے ہیں۔

گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے گذشتہ دنوں ایک تقریب میں مزاحیہ انداز میں اس معاملے پر بات کی۔ انھوں نے کراچی کے لڑکے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'یہ ٹیلنٹ ہے۔ پورے شہر کی ڈیمانڈ ہے کہ وہ لڑکا تو دکھاؤ جس نے امریکی خاتون کو بلایا۔ دیکھیں یہ ٹیلنٹ کی بات۔ لوگ امریکی پاسپورٹ لینے کے لیے وہاں جاتے ہیں اور ہمارے اس ٹیلنٹ کو دیکھیں اس نے امریکی پاسپورٹ سمیت فٹ پاتھ پر لاکر بٹھادیا اس کو۔'

اسی طرح ایک اور تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ 'کراچی والے دل والے ہیں ماشااللہ، یہاں سے ہمارے لوگ امریکہ جاتے ہیں اور وہ امریکہ سے خاتون کو یہاں لے کر آ گئے۔۔۔'

تاہم اس نوعیت کے تبصروں پر بہت سے صارفین اپنے غصے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ ایک خاتون جو پردیس میں ہیں اور پریشان ہیں، ان کی پریشانی کا ازالہ کرنے کے بجائے ان کی صورتحال کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔

صحافی عالیہ چغتائی نے اس معاملے پر اپنے رائے دیتے ہوئے لکھا کہ 'مقامی یوٹیوبرز اور مقامی میڈیا اداروں کو ایسا تماشہ بناتے ہوئے واقعی شرم آنی چاہیے۔ اس عورت کی حالتِ زار کو کلک بیٹ ویڈیوز میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ کوئی کھوج کیوں نہیں لگاتا کہ اس کا ذمہ دار 19 سالہ نوجوان کون ہے؟ اس خاتون کے چہرے کو ہر جگہ کیوں دکھایا جا رہا ہے۔ شرم آنی چاہیے۔'

https://twitter.com/AliaChughtai/status/1885026513176977483

ایک اور صارف نے اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ 'مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سب اس امریکی خاتون کا مذاق کیوں اڑا رہے ہیں۔ کیا تم لوگ پاگل ہو؟ ہوسکتا ہے کہ وہ خوبصورتی کے بارے میں آپ کے خیال سے مطابقت نہ رکھتی ہو لیکن اس نے رنگت سے آگے جانے کی کوشش کی ہے؟

’میں اس کے لیے اداس اور افسوس محسوس کرتا ہوں لیکن اس کے عزم سے حیران بھی ہوں۔ وہ کہتی ہے کہ اس نے لڑکے سے شادی کی اور یہاں آئی!'

https://twitter.com/_rsk910/status/1885043757864935704

تاہم اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ 'اس تقریب میں اس معاملے پر بات کرتے ہوئے میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ خاتون کی مشکلات آسان کرے۔۔۔ میڈیا کو کراچی اور ملک میں دیگر ایشوز بھی ہیں اس پر بھی بات کرنی چاہیے۔'

دوسری جانب گورنر کامران ٹیسوری کے خاتون سے متعلق تبصرے پر اُن کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تاہم ان کا کوئی بھی ردعمل سامنے نہیں آ سکا۔

عکس ریسرچ کی بانی اور ڈائریکٹر تسنیم احمد کہتی ہیں کہ میڈیا اور سیاستدانوں کی جانب سے خاتون کے معاملے سے متعلق اپنایا گیا رویہ انتہائی غیرحساس ہے۔

'یہ رویہ بہت ہی زیادہ غیر حساس ہے اور متاثرہ خاتون کی تضحیک کے مترادف ہے۔ اور جب اس نوعیت کے تبصرے ذمہ دار حکام کی طرف سے آتے ہیں، جو اعلی عہدوں پر فائز ہیں، تو اس سے عام لوگوں کے پاس تو یہ ہی پیغام جاتا ہے کہ خواتین چاہے وہ کسی بھی ملک کی ہوں، بہت آسان ٹارگٹ ہوتی ہیں۔'

انھوں نے کہا کہ یہ قابل مذمت رویہ ہے جس سے اجتناب کرنا چاہیے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.