پاکستان اور بنگلہ دیش میں بٹے خاندان کو ملنے میں 54 برس کیوں لگے؟

image
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں واقع چکوال شہر سے 30 کلومیٹر دور کوئلے کے قدرتی ذخائر رکھنے والے پہاڑی سلسلے کے دامن میں چوآ گنج علی شاہ نامی گاؤں آباد ہے۔

چند روز قبل اس گاؤں میں مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایک استقبالی ہجوم ’گھر آیا میرا پردیسی‘ گیت کے بول گاتے ہوئے ایک اجنبی کا استقبال کر رہا تھا۔

ہاروں سے لدا ادھیڑ عمر شخص ایک دوسرے ملک کا شہری ہونے کی وجہ سے پاکستان میں اجنبی تھا۔

مگر ایک حوالے سے اس گاؤں کا باشندہ ہونے کے باعث وہ استقبال کرنے والوں کے لیے مانوس بھی تھا۔

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے رہنے والے افتخار حسین لگ بھگ 54 برس بعد آپنے والد کے آبائی گاؤں رشتہ داروں سے ملنے آئے ہیں۔

آزادی ہند کے بعد متحدہ پنجاب کی تقسیم سے بچھڑنے والے خاندانوں کے افراد کے ملنے کی کہانیاں فلموں، ڈراموں، افسانوں اور خبروں کا موضوع بنتی رہتی ہیں۔

مگر پاکستان اور بنگلہ دیش کی علیحدگی کے المیہ کے باعث جدا ہونے والے خاندانوں کے یکجا ہونے کی کہانیاں خال خال ہی منظر عام پہ آتی ہیں۔

افتخار حسین اس گاؤں میں دوسری بار آئے ہیںافتخار حسین چھ برس کی عمر میں پہلی بار جب یہاں آئے تھے، تو تب وہ پاکستان کے شہری تھے۔1971 کے بعد مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی وجہ سے وہ اپنے دیگر بہن بھائیوں اور والدہ کے ساتھ بنگلہ دیش کے باشندے قرار پائے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ عرصے میں بڑھتی قربتوں کا اثر اس کہانی کے کرداروں پر بھی ہوا ہے۔

افتخار حسین کو اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے ملنے میں 54 برس کیوں لگے؟ اپنے تجسس کو تھوڑی دیر کے لیے تھام لیجیے۔

کیوں نہ پہلے ہم یہ جان لیں کہ افتخار حسین کا چوآ گنج علی شاہ سے تعلق کیا ہے اور 1971 میں مغربی پاکستان سے رہائشی تعلق کے باوجود وہ بنگلہ دیش کے شہری بننے پر کیسے مجبور ہوئے؟

مغربی پاکستان کا خاندان بنگلہ دیشی شہری کیسے بنا؟چکوال کے گاؤں چوآ گنج علی شاہ کے عبدالرؤف پاکستانی فوج میں ملازم تھے۔ ان کی تعیناتی آج کے بنگلہ دیش، جو اس وقت مشرقی پاکستان کہلاتا تھا، کے علاقے دیناج پور میں تھی۔

مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک اور خاندان کے توسط سے ان کی شادی دیناج پور کی منورہ بیگم سے ہوئی جن سے ان کے پانچ بچے ہوئے۔ افتخار حسین ان میں سے ایک ہیں۔

شادی کے بعد عبدالرؤف اپنے بیوی بچوں سمیت بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں سے ملنے آبائی علاقے آتے رہتے تھے۔

ان کے بیٹے افتخار حسین پہلی بار جب اپنے والد کے ساتھ چکوال آئے، تو اس وقت ان کی عمر چھ برس تھی۔ ان کے ختنے کی رسم بھی آبائی گھر میں انجام دی گئی۔

بچپن کی دھندلی یادوں میں انہیں گاؤں کے گرد بلند و بالا پہاڑ، رشتہ داروں کے ایک بچے سے لڑائی کا واقعہ اور والد کے گھر کا نقشہ آج بھی یاد ہے۔

افتخار حسین بنگلہ دیش سے اپنے بہن بھائیوں کی تصاویر اور پاکستان سے انہیں لکھے گئے خطوط ساتھ لائے ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

ان کے والد کے بھتیجے راجہ عاشق منہاس جس گھر میں رہائش  پذیر ہیں وہ ان کا خاندانی گھر تھا۔ اسی گھر کے برامدے میں بیٹھے ہوئے انہوں نے اردو نیوز کو آپنی کہانی بیان کی۔

ان کے پنجابی والد اور بنگالی والدہ پر مشتمل خاندان اپنے پانچ بچوں کے ساتھ پرسکون زندگی گزار رہا تھا کہ 1971 کی جنگ نے سب کچھ تہس نہس کر دیا۔

افتخار حسین کے والد عبدالرؤف اس جنگ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جنگ کے ہنگاموں میں ان کی لاش تک نہ مل سکی ۔ان کی والدہ کے خاندان نے بہت تلاش کیا مگر ان کا سراغ نہ ملا۔

1971کی جنگ کے بعد اس وقت کے مشرقی پاکستان کے باشندے تو بنگلہ دیش کے شہری بن گئے، مگر بہت سارے بنگالی خاندانوں نے پاکستان کی شہریت اختیار کرنے کو ترجیح دی ۔البتہ مغربی پاکستان کے رہنے والے کسی خاندان کے بنگلہ دیش میں بس جانے کی مثالیں بہت کم یا نہ ہونے کے  برابر تھیں۔

خاوند کی موت اور ملک کی تقسیم سے جنم لینے والی تلخیوں اور غیریقینی صورتحال کی وجہ سے بنگلہ دیش بننے کے بعد افتخار حسین کی والدہ نے اپنے رشتہ داروں کے پاس رہنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے پانچ بچے وہی پلے بڑھے اور  بنگلہ دیش کے شہری بن گئے۔

افتخار حسین کا خاندان ڈھاکہ منتقل ہو گیا جہاں انہوں نے ایک بینک میں ملازمت اختیار کی اور پچھلے دنوں مدت ملازمت کی تکمیل کے بعد انہیں ریٹائرمنٹ ملی۔

ان کی والدہ 2007 میں فوت ہوئیں جبکہ ان کے ایک بھائی اور ایک بہن کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔

اردو اور بنگالی میں لکھے خطوط کیسے پڑھے جاتے تھے؟بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد وہاں رہ جانے والے مغربی پاکستان کے باشندوں کی واپسی وقفے وقفے سے ہوتی رہی۔ جنگی قیدیوں کے واپسی کے بعد بھی عبدالرؤف کے خاندان کو جب ان کا کوئی سراغ نہ ملا تو ان کے بھائیوں نے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا۔

اپنے بھائی کے خاندان کے بارے میں ان کی دم توڑتی امیدیں برسوں بعد اس وقت پھر سے زندہ ہو گئی، جب انہیں افتخار حسین کا خط ملا، جس سے انہیں معلوم ہوا کہ ان کے مرحوم بھائی کا خاندان ڈھاکہ میں رہ رہا ہے۔

’میری والدہ نے ہمیں پاکستان میں موجود خاندان کا جو ایڈریس دیا اس پر ہمارے خطوط  رشتہ داروں کو کبھی ملتے تھے اور کبھی نہ مل پاتے۔ اس کی ایک وجہ ایڈریس کی غلطی تھی۔ ایک تو پہلے چکوال ضلع جہلم کا حصہ تھا اور دوسرا گاؤں کا نام ہمارے پاس موجود ایڈریس میں چوآ گنج البیر تھا جو بعد میں چوآ گنج علی شاہ ہوا۔‘

افتخار حسین نے آپنے والد کے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ اولین رابطوں کی تفصیل بتائی۔ دونوں خاندانوں کے درمیان خطوط کا تبادلہ تو ہو رہا تھا مگر زبان سے نا آشنائی ایک الگ مسئلہ تھا۔

دونوں خاندانوں کے درمیان واٹس ایپ پر رابطوں کے باوجود افتخار حسین کو پاکستان آنے میں دس برس لگے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

آفتاب حسین ان کے چچا زاد بھائی اور چکوال میں ان کے میزبان ہیں۔ انہوں نے افتخار حسین کے خاندان سے موصول ہونے والے خطوط سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ اردو نیوز کو یہ خطوط دکھاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہمیں کبھی کبھار ہی ان کے خطوط ملتے تھے۔ جب بنگلہ دیش سے خط آتا تو سارے خاندان کے لیے بڑا جذباتی لمحہ ہوتا۔

’بعض اوقات افتخار حسین کے خط کو آنسوؤں بھری آنکھوں سے پڑھنے کی کوشش کرتے تو خط ہمارے ہاتھوں میں ہی بھیگ جاتے۔ زیادہ تکلیف اس وقت ہوتی جب بنگلہ زبان نہ سمجھنے کی وجہ سے ہم پڑھ بھی نہ سکتے کہ اس میں لکھا ہوا کیا ہے۔‘

آفتاب حسین بتاتے ہیں کہ ہم نے اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ چکوال میں ہمارے والد کے ایک گھڑی ساز دوست جو بنگال میں رہنے کی وجہ سے بنگالی جانتے تھے کے پاس جا کر خطوط پڑھواتے۔

دوسری جانب ڈھاکہ میں افتخار حسین بھی اردو رسم الخط سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے اسی طرح کی الجھن اور اذیت کا شکار تھے۔

وہ بنگلہ دیش سے اپنے بہن بھائیوں کی تصاویر اور پاکستان سے انہیں لکھے گئے خطوط بھی ساتھ لائے ہیں۔

ہمیں خطوط اور تصاویر دکھاتے ہوئے بتانے لگے کہ مجھے معلوم ہوا کہ مقامی مسجد کے امام اردو لکھنا پڑھنا جانتے ہیں۔ ہم پاکستان سے اپنے رشتہ داروں کے لکھے خطوط کی عبارت سمجھنے کے لیے ان کے پاس جانے لگے۔ یہی امام صاحب ہمیں خطوط کے جواب بھی لکھ کر دیتے تھے۔

سوشل میڈیا نے ملاقات آسان بنا دیچکوال کے رہائشی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ارشد محمود نے فیس بک پر چکوال کے کلچر اور تہذیب کے بارے میں ایک پیج بنا رکھا ہے۔

دونوں خاندانوں کے درمیان خطوط کے ذریعے مشکل اور صبر آزما رابطوں کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے انہوں نے ہی آسان بنایا جو بالاخر ان کی ملاقات کا سبب بن گیا۔

افتخار حسین بتاتے ہیں کہ میرے بھائی نے 10 برس قبل فیس بک پر اپنے والد کی تصویریں اپلوڈ کی اور ساتھ ہی چکوال کا حوالہ دے کر اپنے خاندان سے رابطہ کروانے کی اپیل بھی کی۔ اتفاق سے یہ اپیل ارشد محمود کی نظر سے گزری۔

افتخار حسین اپنے والدین اور بھائی بہنوں کی تصاویر ساتھ لائے ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

اردو نیوز کو افتخار حسین کے رشتہ داروں سے رابطے کی تفصیل بتاتے ہوئے ارشد محمود  کہتے ہیں کہ فیس بک پر دیا گیا ایڈریس واضح نہیں تھا۔ میں نے مشرقی پاکستان میں رہ جانے والے فوجی کا حوالہ دے کر مختلف علاقوں میں رابطے کیے۔ اسی تلاش میں میرا رابطہ راجہ آفتاب حسین اور ان کے بھائیوں سے ہوا۔

دونوں خاندانوں کے درمیان واٹس ایپ پر رابطوں کے باوجود افتخار حسین کو پاکستان آنے میں دس برس کیوں لگے؟

’پاکستان جاتا تو ملازمت چلی جاتی‘افتخار حسین کے لیے پاکستان نہ آ سکنے کی وجوہات میں بینک کی ملازمت کے علاوہ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت کی پاکستان مخالف پالیسیاں بھی حائل تھیں۔

ماضی میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہے، مگر گذشتہ 15 برسوں میں عوامی اور حکومتی سطح پر تعلقات پر سرد مہری غالب تھی۔

عوامی لیگ کی حکومت اور اس کے حامیوں کی پاکستان بیزاری کا اثر افتخار حسین کے پاکستان جانے کی خواہش پر بھی پڑا۔

’میرے لیے بینک کی نوکری بھی مجبوری تھی کہ میں چھوڑ کر پاکستان نہیں جا سکتا تھا۔ ساتھ ہی عوامی لیگ کے لوگ پاکستان کا ذکر کرنے اور وہاں جانے کی خواہش کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی وجہ ہم کسی کو اپنے دل کی بات کہہ بھی نہیں سکتے تھے۔ میں نے ملازمت سے ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا۔ ساتھ ہی حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے نے میرے لیے اپنے والد کے دیس جانے کے راستے میں حائل مشکل ختم کر دی۔ میں اگر پہلے آتا تو ملازمت چلی جاتی۔‘

افتخار حسین سے ملنے کے لیے میں اسلام آباد سے چوآ گنج علی شاہ پہنچا تو ابتدائی بات چیت میں وہ تحفظات اور ہچکچاٹ کا شکار تھے۔ یہاں ان کے ایک ہم وطن ٹور وی لاگر میرے کام آئے۔

بنگلہ دیش کے رہنے والے مہدی حسن قمرو اس سفر میں میرے ساتھ تھے۔ انہوں نے بنگالی زبان میں افتخار حسین کا اعتماد بحال کیا اور اپنی کہانی کھل کر بیان کرنے پر آمادہ کیا۔

بچپن کی دھندلی یادوں میں افتخار حیسن کو گاؤں کے گرد پہاڑیاں، رشتہ داروں کے ایک بچے سے لڑائی اور والد کے گھر کا نقشہ آج بھی یاد ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

پاکستان کے مختلف علاقوں کی سیر وسیاحت کو ولاگ کے ذریعے بنگالی زبان میں اپنے یوٹیوب چینل پر دنیا کو دکھانے والے مہدی حسن پانچ اگست 2024 کو حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیشی شہریوں کے بڑی تعداد میں پاکستان آنے کو دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے تعلقات کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔

ان کے خیال میں افتخار حسین کا اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے سفر آسان ہونے کی ایک وجہ ڈھاکہ میں پاکستان دوست حکومت کا قیام بھی ہے۔

پاکستان جانے کے فیصلے پر اپنے خاندان کے ردعمل کے بارے میں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ پہلے تو میرے بچوں نے روکنے کی کوشش کی کہ کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے۔ مگر میرے یہاں باآسانی پہنچنے اور لوگوں کی طرف سے بے پناہ پیار کی وجہ سے انہیں اطمینان ہو گیا کہ میرا جانا کسی مشکل کا باعث نہیں بنے گا۔

ایئرپورٹ اور اپنے آبائی گاؤں پہنچنے پر استقبال کے بارے میں بات کرتے ہوئے افتخار حسین کی آنکھیں مسرت اور اطمینان سے چمک رہی تھیں۔ ’یہاں میرا کسی  وی وی آئی پی کی طرح استقبال کیا گیا۔ سارا گاؤں راستے میں کھڑا تھا اور لوگوں نے مجھے ہاروں سے لاد دیا تھا۔‘

’میں واپس جاؤں گا تو میرے دیگر بہن بھائی اور بچے بھی اپنے خاندان سے ملنے پاکستان آنا چاہیں گے۔‘

ہماری موجودگی میں انہوں نے بنگلہ دیش میں اپنے خاندان کے لوگوں سے بات کی۔

میں نے ان کی بیٹی اسویٰ حسین سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے دادا کا ملک دیکھنا چاہیں گی؟ ان کا جواب تھا کہ ’میں یقینا آنا پسند کروں گی۔ مگر اب بنگلہ دیش ہمارا ملک ہے۔ ہر ملک کے شہری کو اپنے ہی وطن سے محبت ہوتی ہے۔‘

براہ راست پروازیں ہوں تو اور لوگ بھی آئیں گےبنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ڈاکٹر محمد یونس کی عبوری حکومت میں پاکستان کے ساتھ برسوں سے منجمند تعلقات میں غیرمعمولی گرم جوشی پیدا ہوئی ہے۔

افتخار کے والد عبدالرؤف پاکستانی فوج میں ملازم تھے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

دفاع، تجارت، تعلیم ،کلچر اور دیگر شعبہ جات میں دونوں ملکوں کے درمیان وفود کی آمد و رفت طویل عرصے بعد دو طرفہ سرگرمی کا پتہ دیتی ہے۔

افتخار حسین نے فلپائن کے راستے پاکستان کا سفر کیا ہے۔ اس لیے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ابھی تک براہ راست پروازیں شروع نہیں ہوئی۔ تاہم دونوں اطراف ویزے کا حصول ماضی کی نسبت آسان اور بروقت ہو چکا ہے۔

’میں نے پاکستان آنے کے لیے آن لائن ویزا اپلائی کیا جو بغیر کسی رکاوٹ اور تاخیر کے مل گیا۔ مجھے یہاں سب کچھ اپنا اپنا سا لگتا ہے۔ ہمارے درمیان بہت ساری چیزیں مشترک ہیں۔ ایک جیسے رسم و رواج، کھانا پینا اور لوگوں کی عادات بھی ملتی جلتی ہیں۔‘

انہوں نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ بہت سارے خاندان ایسے ہیں جن کے رشتہ دار دونوں ملکوں میں موجود ہیں۔ پہلے رابطے میں مشکلات ہوتی تھی مگر سوشل میڈیا نے اسے آسان بنا دیا ہے۔ اب اگر حکومتیں سفر کو آسان اور سستا بنا دیں تو میری طرح بہت سارے بچھڑے خاندان اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے دونوں طرف آ جا سکتے ہیں۔

اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کے اسلام آباد ہائی کمیشن کے قو نصلر سردار محمد نعمان الزمان نے بتایا کہ ’بنگلہ دیش کی طرف سے تجارت، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں پاکستانیوں کے لیے ویزہ بلا کسی تعطل اور تاخیر کے جاری کیا جاتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ آپ کے پاس بنگلہ دیش سے سپانسر لیٹر موجود ہو۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس جو ویزہ درخواستیں آتی ہیں ہم انہیں پراسیس کے لیے ڈھاکہ بھیج دیتے ہیں۔ وہاں سے کلیئرنس کے بعد ہم ویزا جاری کر دیتے ہیں۔ اس سارے عمل میں دو ہفتے سے زیادہ وقت نہیں لگتا۔‘

افتخار حسین پہلی بار جب اپنے والد کے ساتھ چکوال آئے تو اس وقت ان کی عمر چھ برس تھی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

بنگلہ دیشی قونصلر کا کہنا تھا کہ دونوں حکومتوں نے آنے والے دنوں میں براہ راست ہوائی سفر کے امکانات کا جائزہ لے کر جلد از جلد شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی قربتوں سے ماضی کے تلخ تجربات اور المناک یادوں کے اثرات شاید بتدریج کم ہو جائیں۔ کیونکہ بنگلہ دیش کی اگلی نسلیں ماضی کا اسیر بننے کے بجائے مستقبل کے امکانات پر نگاہیں مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1974 میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے دوران تلخیوں کو فراموش کرکے دونوں قوموں میں برادرانہ تعلقات پروان  چڑھانے پر اتفاق ہوا تھا۔

اس دورے میں معروف ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض بھی ان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے ’ڈھاکہ سے واپسی پر‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی، جس میں دونوں دیسوں کے باسیوں کے درمیان المیوں کے بعد الفت کے امکانات کا جائزہ لیا گیا تھا۔

اس نظم کا یہ شعر دو ملکوں میں منقسم افتخار حسین اور ان جیسے دیگر خاندانوں کے احساسات کی غمازی کرتا ہے۔

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.