کراچی میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے واقعات، اصل مسئلہ کہاں ہے؟

image
کراچی کے علاقے گارڈن کے ایک فلیٹ میں غم اور پریشانی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ کمرے میں کچھ خواتین جمع ہیں، جو ایک دوسری خاتون کو تسلی دے رہی ہیں۔

یہ خاتون زینب یونس ہیں، جن کا پانچ سالہ بیٹا علیان جنوری کے دوسرے ہفتے سے لاپتہ ہے۔

 سیاہ لباس میں ملبوس زینب سر پر نیلے رنگ کی چادر اوڑھے پرنم آنکھوں کے ساتھ بیٹے کی تصویر پر ہاتھ پھیر رہی ہیں، اور بے بسی سے اپنے گھر کے دروازے کی طرف دیکھ رہی ہیں۔

زینب کے لیے ہر لمحہ امید کا ایک نیا رنگ لے کر آتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے بیٹے کی گمشدگی کا سانحہ کراچی میں بچوں کے اغوا کے مسلسل بڑھتے ہوئے واقعات کا حصہ بن چکا ہے، جو شہر کے کئی حصوں میں رونما ہو رہے ہیں۔

کراچی میں حالیہ مہینوں میں بچوں کے اغوا کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

جنوری کے دوسرے ہفتے سے گارڈن کے علاقے میں علیان اور علی رضا نام کے دو بچے لاپتہ ہو گئے۔ ان کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کے مالی حالات ایسے نہیں ہیں کہ کسی اغواء کار کو ان کے بچوں کو تاوان کے لیے اغوا کرنے کی ضرورت پڑے۔ لیکن یہ حادثہ ایک اور اہم سوال کھڑا کرتا ہے کہ اگر اغوا تاوان کے لیے نہیں، تو پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

پاکستان میں بچوں کی گمشدگی کا مسئلہ صرف کراچی تک محدود نہیں ہے، بلکہ ملک بھر میں اس کی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔

گمشدہ بچوں کے لیے کام کرنے والی ایک فلاحی تنظیم روشنی ویلفیئر کی رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں ملک بھر میں 3,070 بچوں کی گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے 2,941 بچوں کو تلاش کر لیا گیا ہے، مگر 95 بچے ابھی تک لاپتہ ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گمشدگی کے زیادہ واقعات پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ریکارڈ کیے گئے ہیں، اس کے علاوہ سندھ میں بھی 9 سو سے زائد بچوں کے گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

قابل غور بات یہ ہے کہ ان گمشدہ بچوں میں اکثریت لڑکوں کی ہے۔

سندھ پولیس کے مطابق سال 2024 میں یکم جنوری سے 30 ستمبر تک اغوا کے 54 واقعات رپورٹ ہوئے، جبکہ گزشتہ برس یعنی 2023 کے اسی حصے کے دوران ان واقعات کی تعداد 29 تھی۔

اغوا برائے تاوان یا جنسی زیادتی کا معاملہ؟

کراچی کے ایک اور علاقے نارتھ کراچی سے اغوا ہونے والے 11 سالہ بچے صارم کے والدین سے اس کے غائب ہونے کے بعد ابتدا میں تاوان طلب کیا گیا، مگر کچھ دن بعد اس کی لاش ان کی ہی رہائشی عمارت کے پانی کے ٹینک سے ملی۔

پولیس کو اس کیس کی تحقیقات کے دوران یہ معلوم ہوا کہ صارم کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی اور پھر اسے قتل کر کے پانی کے ٹینک میں پھینک دیا گیا تھا۔

اس واقعے نے کراچی میں بچوں کے تحفظ کے مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا۔

 بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک اور غیرسرکاری تنظیم ساحل کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2024 کے پہلے چھ ماہ کے دوران ملک بھر میں بچوں کے خلاف تشدد کے 1,630 کیسز رپورٹ ہوئے۔

ان کیسز میں 862 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، 668 اغوا، 82 لاپتہ اور 18 کم عمری کی شادیوں کے واقعات شامل ہیں۔

سندھ پولیس کی موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے بھی گمشدہ بچوں کے متعلق اطلاع فراہم کی جا سکتی ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)

روشنی ویلفیئیر کے سربراہ محمد علی کے مطابق کراچی کے تمام بچوں کو تاوان کے لیے اغوا نہیں کیا جاتا بلکہ کئی بچے جنسی زیادتی کے بعد قتل کیے جاتے ہیں اور کئی دوسرے محض لاپروائی کی وجہ سے گم جاتے ہیں اور پھر والدین کو نہیں ملتے۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی کے علاقے میڑوویل سے 14 جنوری کو لاپتہ ہونے والے دو بھائی 10 سالہ شیراز اور 7 سالہ ارباز پولیس کو شکایت درج کروانے کے 24 گھنٹے بعد کیماڑی کے مقام پر اپنی خالہ کے گھر سے مل گئے تھے۔

’اسی طرح اورنگی ٹاؤن اور فرنٹیئر کالونی سے لاپتہ ہونے والے دو بچے 10 سالہ ایان ولد شمس الرحمان 17 جنوری کو لاپتہ ہوئے اور20 تاریخ کو کلفٹن کے علاقے سے لاوارث حالت میں ملے، جنہیں اس کے والدین کے حوالے کر دیا گیا۔‘

محمد علی کے مطابق 11 جنوری کو لاپتہ ہونے والا محمد ساجد 21 جنوری کو لیاری آگرہ تاج سے مل گیا، جبکہ 20 جنوری کو اپنے گھر کے سامنے سے لاپتہ ہونے والا 10 سالہ عبدالرحمان 25 جنوری کو ملا۔

انہوں نے کہا کہ ’بچوں کی حفاظت کے لیے ان کے والدین کو زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے اور ان پر ہر وقت نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔‘

پولیس کے مطابق کئی بچے محض لاپروائی کی وجہ سے گم جاتے ہیں اور پھر والدین کو نہیں ملتے (فائل فوٹو: پکسابے)

بچوں کی بازیابی کے لیے حکومتی کارروائیاں

پولیس کے مطابق وہ گمشدہ بچوں جن میں گارڈن کے علاقے سے علیان اور علی رضا بھی شامل ہیں، کی بازیابی کے لیے آپریشن مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اس مقصد کے لیے تحقیقاتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گمشدہ بچوں سے متعلق اطلاع دینے پر تین لاکھ روپے کی انعامی رقم بھی مختص کی گئی ہے۔

دوسری طرف حکومت سندھ گمشدہ بچوں کی درست تعداد کا تعین کرنے اور ان کی بازیابی کے لیے مربوط حکمت عملی طے کرنے کے لیے متعلقہ سرکاری و غیرسرکاری اداروں کے ساتھ باقاعدہ اجلاس کر رہی ہے۔

بچوں کے اغوا سے متعلق عوام میں آگاہی کی ضرورت

سندھ پولیس کا ماننا ہے کہ بچوں اور ان کے والدین میں اغوا کے جرائم کے متعلق حساسیت پیدا کر کے اس طرح کے بہت سے واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو راستہ بھٹکنے یا گم ہونے کی صورت میں فوراً پولیس سے رابطہ کرنے کی تعلیم دیں تاکہ جلد از جلد بچہ واپس اپنے خاندان کے پاس آ سکے۔

اس سلسلے میں پولیس کی موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے بھی گمشدہ بچوں کے متعلق اطلاع فراہم کی جا سکتی ہے اور ان کی بازیابی کے لیے مزید معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.