کئی سالوں تک موٹاپے کا شکار رہنے کے بعد 23 سالہ قدرت اللہ نے اپنے جسم کا آدھے سے زیادہ وزن کم کر لیا اور یوں ان کی زندگی کی نئی شروعات ہوئیں جس کا آغاز ان کی یونیورسٹی سے ہوا۔
جب افغانستان کے شہر جلال آباد کے رہائشی قدرت اللہ نے سکول کی پڑھائی مکمل کی تو اُن کے متعدد دوستوں نے یونیورسٹی جانے کی تیاریاں شروع کر دیں لیکن قدرت کچھ ایسا نہیں سوچ رہے تھے اور اس کی وجہ ان کا بےتحاشہ حد تک بڑھا ہوا وزن تھا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں سوچتا رہا کہ میں اس وزن کے ساتھ یونیورسٹی کیسے جاؤں گا؟ اور اگر میں چلا بھی گیا تو اس کا مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘
اُس وقت قدرت اللہ کا وزن 216 کلوگرام تھا۔ اُن کا قد پانچ فٹ نو انچ تھا لیکن اُن کی کمر کی پیمائش 147 سینٹی میٹر تھی جبکہ اُن کا باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) 67 تھا۔ یاد رہے کہ اگر بی ایم آئی 30 سے زیادہ ہو تو ایسے فرد کو موٹاپے کا شکار سمجھا جاتا ہے۔
مگر پھر قدرت اللہ نے چیزیں بدلنے کی کوشش شروع کی۔ ایک برس قبل انھوں نے وزن کم کرنا شروع کیا اور صرف 10 ماہ کی محنت کے بعد آج وہ ایک تندرست، توانا اور صحت مند نوجوان ہیں۔
زیادہ وزن کے باعث پریشانی کا سامنا
قدرت اللہ کا وزن چھوٹی عمر میں ہی بڑھنا شروع ہو گیا تھا لیکن اس میں تیزی سے اضافہ تین سال قبل ہوا جب انھوں نے سکول کی تعلیم مکمل کر لی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے کبھی کوئی اتنا موٹا شخص نہیں دیکھا جتنا میں خود تھا۔ میری زندگی دوسروں سے مختلف تھی۔ میں اپنے روزمرہ کے کام نہیں کر پاتا تھا لیکن دوسروں کو سب کچھ معمول کے مطابق لگتا تھا۔‘
افغانستان میں ہر آٹھ میں سے ایک مرد کا بی ایم آئی 30 سے زیادہ ہے۔ قدرت اللہ کے وزن کے باعث وہ انتہائی موٹے افراد کی فہرست میں داخل ہو چکے تھے اور انھیں حرکت کرنے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں بھی مشکلات کا سامنا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں ہائیکنگ کرنے (پہاڑوں پر چڑھنے) کے لیے بھی نہیں جاتا تھا، اور نہ ہی سوئمنگ کرتا تھا۔ میں کوئی اور کام بھی نہیں کر پاتا تھا۔ یہاں تک کہ پیدل چلنا بھی ایک مسئلہ بن چکا تھا۔‘
وہ تھوڑے سے فاصلے تک بھی جانے کے لیے رکشوں پر انحصار کرتے تھے۔ کیونکہ وہ رکشے میں زیادہ جگہ گھیرتے تھے اس لیے ان سے زیادہ کرایہ وصول کیا جاتا تھا۔ ان کے سائز کے جوتے اور کپڑے ڈھونڈنا بھی ان کے گھر والوں کے لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے پاؤں میں جوتے زیادہ دیر نہیں چلتے تھے کیونکہ وہ میرا وزن برداشت نہیں کر پاتے تھے اور اسی طرح میرے کپڑے سلنے میں زیادہ کپڑا استعمال ہونے لگا تھا۔ میرے کپڑے بنانے کے لیے نوے میٹر کا کپڑا استعمال ہوتا تھا۔‘
انھیں اس دوران طرح طرح کی باتیں بھی سننے کو ملتیں اور انھیں ان کے وزن کی وجہ سے شرمندہ کیا جاتا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں زیادہ باہر جانے کی کوشش نہیں کرتا تھا کیونکہ لوگ مجھ پر ہنستے تھے اور میرے پیچھے میرے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے تھے۔‘
اس وزن کے باعث قدرت اللہ کی صحت بھی خراب ہونے لگی۔ انھیں ذیابیطس، کولسٹرول میں اضافے اور ہائی بلڈ پریشر کی شکایت ہونے لگی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اپنے سر کے نیچے دو بڑے تکیے رکھنے پڑتے تھے اور اکثر میں بیٹھے بیٹھے ہی سو جایا کرتا تھا۔‘
یہ بگڑتی صورتحال دیکھتے ہوئے انھیں ڈاکٹروں کی جانب سے فوری طور پر وزن کم کرنے کا مشورہ دیا گیا۔
گھر سے ملنے والی سپورٹ
قدرت اللہ کے بڑے بھائی حود خان بھی ماضی میں وزن میں زیادتی کا شکار رہ چکے تھے لیکن انھوں نے اپنا وزن 110 کلو گرام سے کم کر کے 70 کلوگرام کیا تھا۔ قدرت اللہ نے سوچا کہ وہ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔
انھوں نے ایک جم میں داخلہ لیا اور ایک ٹرینر کی خدمات حاصل کیں جنھوں نے انھیں ڈائٹ پلان دیا۔
قدرت اللہ نے تلی ہوئی اشیا، چاول، سافٹ ڈرنکس اور گوشت کھانا بند کر دیا اور انڈے کی سفیدی، سلاد، ابلا ہوا گوشت، مچھلی اور جو کی روٹی کھانا شروع کر دی۔
’شروعات میں میرے لیے یہ کھانا کھانا مشکل تھا کیونکہ میں بہت زیادہ کھایا کرتا تھا۔ لیکن میں نے اس ڈائٹ پلان پر سختی سے عمل کیا اور بالآخر میں اس کا عادی ہو گیا۔ میں بہت زیادہ پانی بھی پینے لگا۔‘
وہ جم میں پانچ گھنٹے گزار رہے تھے اور جلد ہی ان کے اثرات سامنے آنے لگے۔ دس ماہ میں قدرت اللہ کا وزن 216 کلوگرام سے 91 کلوگرام تک پہنچ گیا اور یوں وہ اپنے وزن کا آدھے سے زیادہ کم کر چکے تھے۔
یعنی انھوں نے کل 125 کلوگرام وزن کم کیا یعنی ہر روز لگ بھگ 400 گرام۔ اب ان کی کمر کی پیمائش 86 سینٹی میٹر ہے جبکہ ان کا بی ایم آئی 29 ہو چکا ہے۔
اب بھی اپنے قد کے لحاظ سے ان کا وزن زیادہ ہے لیکن وہ موٹاپے کا شکار نہیں ہیں۔
موٹاپے کا مسئلہ
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا میں ہر آٹھ میں سے ایک شخص موٹاپے کا شکار ہے۔ وزن کا بڑھنا ٹائپ ٹو ذیابیطس اور دل کی بیماری کا خطرہ بڑھانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ ہڈیوں کی صحت کو نقصان پہنچانے اور بعض کیسز میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ طبی ماہرین موٹاپے کے باعث بعض قسم کے کینسر کے خطرے سے بھی خبردار کرتے ہیں۔
موٹاپا ہمارے سونے یا حرکت کرنے کی صلاحیت سمیت ہمارے معیار زندگی کو بھی متاثر کرنے کا سبب بنتا ہے۔
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کی تجاویز کے مطابق موٹے لوگ وزن کم کرنے کے لیے کھانا پینا نہ چھوڑیں اور ہفتے میں ایک کلو سے زیادہ وزن کم کرنے کی جانب نہ جائیں یعنی بےاعتدال انداز میں اور اچانک زیادہ وزن کم کرنا درست نہیں ہے۔
برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر ابراہیم دلیلی کہتے ہیں کہ قدرت اللہ کا وزن بہت زیادہ تھا اور ایسے افراد کے لیے کم کیلوریز کا استعمال طویل مدت میں صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
’زیادہ وزن کے زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس سے بچنے کے لیے وزن کم کرنا اُن کے لیے ضروری تھا۔ قدرت اللہ نے ایک ایسی خوراک کو زندگی کا حصہ بنایا جس سے انھیں مطلوبہ پروٹین، کیلوریز اور وٹامنز ملے۔ اس لیے ان کی خوراک اور ورزش کے منصوبے نے وزن کم کرنے کے عمل کو تیز کر دیا۔‘
خوداعتمادی کی بحالی
قدرت اللہ کے والدین اور چھ بہن بھائی اس تبدیلی پر خوش ہیں۔
’اب میں اپنے والدین کے لیے ایک بالکل مختلف قدرت اللہ ہوں۔ وہ میرے لیے بہت پریشان رہتے تھے کہ میرے وزن کی وجہ سے اتنی کم عمری میں مجھے اتنی بیماریاں ہو گئیں، لیکن اب وہ بہت خوش ہیں۔‘
قدرت اللہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے دوبارہ لطف اندوز ہونے لگے ہیں۔ اب وہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کر سکتے ہیں، آرام سے رکشہ (ٹک ٹک) میں بیٹھ سکتے ہیں یہاں تک کہ کرکٹ بھی کھیلتے ہیں۔
’اب میری زندگی بہت نارمل ہے اور میں اس سے بہت خوش ہوں۔ پاؤں میں فٹ آنے والے جوتے تلاش کرنا بھی اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘
وہ نرسنگ کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ننگرھار میں والد کے دوا سازی کے بزنس میں بھی ہاتھ بٹانا چاہتے ہیں۔
یونیورسٹی شروع کرنے سے پہلے قدرت اللہ کو اب اپنے کپڑوں کی الماری کو دوبارہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرے تمام پرانے کپڑے اب نہ صرف میرے لیے بیکار ہیں بلکہ وہ کسی اور کو بھی فٹ نہیں آتے۔‘