مراکش کشتی حادثے میں ملنے والی نعشوں کی شناخت کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔ حکام کو 13 نعشیں ملی تھیں، شناخت کے عمل کے دوران ثابت ہوا ہے کہ ان سب کا تعلق پاکستان سے تھا۔ مراکش میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے تیار کی گئی اردو نیوز کو دستیاب فہرست کے مطابق جن 13 پاکستانیوں کی شناخت ہوئی ہے، ان میں سفیان علی ولد جاوید اقبال (پاسپورٹ نمبر VF1812352)، سجاد علی ولد محمد نواز (پاسپورٹ نمبر XX1836111)، رئیس افضل ولد محمد افضل (پاسپورٹ نمبر MJ1516091)، قصنین حیدر ولد محمد بنارس (پاسپورٹ نمبر AA6421773)، محمد وقاص ولد ثناء اللہ (پاسپورٹ نمبر DJ6315471)، محمد اکرم ولد غلام رسول (پاسپورٹ نمبر DN0151754) اور محمد ارسلان خان ولد رمضان خان (پاسپورٹ نمبر LM4153261) شامل ہیں۔اس حادثے میں جان کی بازی ہارنے والوں میں حامد شبیر ولد غلام شبیر (پاسپورٹ نمبر CZ5133683)، قیصر اقبال ولد محمد اقبال (پاسپورٹ نمبر GR1331413)، دانش رحمان ولد محمد نواز (پاسپورٹ نمبر SE9154371)، محمد سجاول ولد رحیم دین (پاسپورٹ نمبر AY5593661)، شہزاد احمد ولد ولایت حسین (پاسپورٹ نمبر GN1162802) اور احتشام ولد طارق محمود (پاسپورٹ نمبر CE1170122) بھی شامل ہیں۔ خیال رہے کہ 15 جنوری کو مغربی افریقہ سے سپین جانے والی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 50 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 44 پاکستانی تھے۔تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’واکنگ بارڈر‘ کی سی ای وا ہیلینا مالینو نے ایکس پر لکھا کہ ’کشتی میں سوار افراد نے 13 دن سمندر میں بڑی مشکل میں گزارے اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا۔‘ان پاکستانیوں کی ہلاکتوں کی تصدیق اسی کشتی میں بچ جانے والوں نے کی تھی تاہم حکام کو صرف 13 لاشیں ہی ملیں جن کی 20 روز گزر جانے کے بعد آج تصدیق ممکن ہوئی ہے۔ میتوں کی شناخت کے لیے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی خدمات حاصل کی گئیں اور نادرا کی جانب سے تصدیقی عمل کے بعد اب نعشوں کی پاکستان منتقلی کا مرحلہ شروع کیا جائے گا۔ ملنے والی نعشیں ناقابل شناخت تھیں جبکہ کسی کے پاس کسی قسم کی کوئی دستاویز بھی موجود نہیں۔ مراکش میں پاکستانی سفارت خانے میں نادرا کا کوئی سیٹ اپ موجود نہیں۔دوسرا جس مقام پر یہ نعشیں موجود ہیں وہ مراکش کے دارالحکومت سے 22 گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ حکام کے مطابق اسی وجہ سے نعشوں کی شناخت کے عمل میں تاخیر ہوئی۔ جب حکام نے بتایا آن لائن پورٹل موجود ہیں جن کے ذریعے فنگر پرنٹ اور تصاویر نادرا کو بھجوائی گئیں۔ نادرا نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے شناخت کا عمل مکمل کیا۔
اس حادثے کے بعد کئی ایف آئی اے اہلکاروں کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا (فائل فوٹو: اردو نیوز)
جب مراکش میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا گیا کہ ابتدا میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 44 بتائی گئی تھی تو پھر ہلاک ہونے والے باقی افراد کی تصدیق کیسے ہو گی؟
اس پر حکام کا کہنا تھا سمندر میں موجود ہونے والے افراد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تاہم زندہ بچ جانے والوں میں سے کچھ نے ان کے اہل خانہ کو زبانی تصدیق کی ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ جب ان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے تو سرکاری طور پر ان کی ہلاکت کی تصدیق کرنا بھی ممکن نہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ سفارت خانے کی جانب سے شناخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد فہرست وزارت خارجہ کو بھی دی جائے گی جو باضابطہ طور اس کا اعلان کرے گی۔ واضح رہے کہ اس کشتی میں بچ جانے والوں نے انکشاف کیا ہے کہ کشتی کو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا بلکہ افریقی ایجنٹوں نے پاکستانی ایجنٹوں کے ساتھ لین دین کا وعدہ پورا نہ ہونے پر ان پاکستانیوں کو تشدد کر کے، سروں میں ہتھوڑے مار کر اور ہاتھ پاؤں توڑ کر قتل کیا تھا۔ اس حوالے سے اردو نیوز نے 16 جنوری کی رات کو ہی ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے اہل خانہ سے بات کی تھی جنہوں نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے بچوں کو قتل کیا گیا ہے۔لواحقین نے بچ جانے والے گجرات کے ایک نوجوان علی سے ہونے والی گفتگو کی آڈیو بھی اردو نیوز کے ساتھ شیئر کی تھی جس میں علی مارے جانے اور بچ جانے والوں کی تفصیل بتا رہے ہیں۔ اس آڈیو میں علی نے بتایا ہے کہ ’انہوں نے ہتھوڑوں سے مارا۔ چار بندے پکڑتے اور ایک مارتا تھا۔ زیادہ تر لوگ بے ہوش تھے اور جو لڑ سکتے تھے وہ لڑے بھی۔ جب یقین ہو گیا کہ نہیں چھوڑیں گے پھر منتیں اور ترلے بھی کیے، مزید پیسوں کی پیش کش بھی کی لیکن وہ کسی کی نہیں سننے والے تھے۔‘اس کے علاوہ بھی بچ جانے والے کئی دیگر افراد کی آڈیوز بھی وائرل ہیں اور وہ بھی اسی طرح کے مظالم کی داستان سنا رہے ہیں۔
اردو نیوز نے 16 جنوری کی رات کو ہی ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے اہل خانہ سے بات کی تھی (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
تاہم دفترخارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے اب تک کے دو بیانات میں اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
رابطہ کرنے پر حکام دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کے اندھے واقعات پر عموماً محتاط رویہ ہی اپنایا جاتا ہے اور سفارتی سطح پر فوری ردعمل دینے کے بجائے متعلقہ ممالک سے باضابطہ رابطہ کر کے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اس صورتحال کو دیکھیں۔ تحقیقات کروائیں اور ملزمان کے خلاف کارروائی کریں۔‘ حکام نے بتایا ہے کہ اس سلسلے میں مراکش اور موریطانیہ سے رابطہ کر لیا گیا ہے۔ تاہم کسی ملک سے اس معاملے پر احتجاج اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں کوئی حکومت ملوث نہیں ہے بلکہ یہ جرائم پیشہ عناصر کا کام ہے جس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے اور تحقیقات سے قبل ازخود کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے قبل پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں مراکش کی داخلہ بندرگاہ کے قریب حالیہ سمندری حادثے میں 22 پاکستانیوں کے بچ جانے کی تصدیق کی تھی، جن کی واپسی کا عمل جاری ہے۔
مراکش کشتی حادثے کے بعد سے ملک کے کئی شہروں میں انسانی سمگلرز کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں (فائل فوٹو: اے پی پی)
اس حادثے کے بعد جہاں ڈی جی ایف آئی اے کو او ایس ٹی بنا دیا گیا ہے، وہیں کئی ایف آئی اے اہلکاروں کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کریک ڈاؤن میں کئی ایک انسانی سمگلروں کی گرفتاری بھی عمل لائی گئی ہے۔
دوسری جانب انسانی سمگلنگ، ٹریفکنگ اور غیرقانونی امیگریشن کے خلاف کارروائی کو مزید سخت کرنے کے لیے حکومت نے تین اہم ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کرکے کمیٹی کے سپرد کیے ہیں۔ان ترمیمی بلز میں امیگریشن ترمیمی بل، انسانی ٹریفکنگ کی روک تھام کا ترمیمی بل اور مہاجرین کی سمگلنگ کی روک تھام کا ترمیمی بل شامل ہیں۔اُردو نیوز کو دستیاب بِلز کے تحت سمگلنگ اور غیرقانونی امیگریشن کے خلاف سخت سزاؤں اور بھاری جرمانوں کا تعین کیا گیا ہے۔