بِل گیٹس: ’پوری پینسل چبا جانے والا‘ بچہ جس نے 100 ارب ڈالر فلاحی کاموں پر خرچ کر دیے

ایک زمانے میں بِل گیٹس دنیا کے امیر ترین شخص تھے اور وہ ہمیں بتا رہے تھے کہ ان کے فلاحی ادارے نے اب تک بیماریوں کی روک تھام اور غربت سے لڑنے کے لیے 100 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں
بل گیٹس
Getty Images
بِل گیٹس کا کہنا ہے کہ انسان دوستی ان کی پرورش میں شامل ہے

’ہم اب تک 100 ارب ڈالر کی رقم عطیہ کر چکے ہیں اور میرے پاس اب بھی بہت کچھ دینے کے لیے ہے۔‘

ایک زمانے میں بِل گیٹس دنیا کے سب سے امیر شخص تھے اور وہ ہمیں بتا رہے تھے کہ ان کے فلاحی ادارے نے اب تک بیماریوں کی روک تھام اور غربت سے لڑنے کے لیے 100 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔

100 ارب امریکی ڈالر ایک خطیر رقم ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ بلغاریہ جیسے ملک کی پوری معیشت 100 ڈالر کی ہے یا ہائی سپیڈ ٹرین 2 جو لندن سے ویسٹ مڈلینڈ جاتی ہے اس کی پوری پٹریاں اتنی بڑی رقم سے تیار ہو سکتی ہیں۔

یا یوں کہہ لیجیے کہ بِل گیٹس کی جانب سے عطیہ کی جانے والی رقم کاریں بنانے والی کمپنی ٹیسلا کے ایک سال کی فروخت کے برابر ہے۔ ٹیسلا کے مالک ایلون مسک اب دنیا کے سب سے امیر آدمی ہیں۔

معروف ٹیکنالوجی کمپنی مائیکرو سافٹ کے شریک بانی اور وارین بفیٹ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر گیٹس فاؤنڈیشن کے ذریعے فلاحی کاموں کے لیے پیسے جمع کر رہے ہیں۔ اس فاؤنڈیشن کو بل گیٹس اور ان کی اہلیہ میلنڈا نے مل کر قائم کیا تھا لیکن اب دونوں میں علیحدگی ہو چکی ہے۔

بِل گیٹس کا کہنا ہے کہ انسان دوستی ان کی پرورش میں شامل ہے کیونکہ ان کی والدہ انھیں باقاعدگی سے بتاتی تھیں کہ ’دولت کے ساتھ ساتھ اسے تقسیم کرنے کی ذمہ داری بھی آتی ہے۔‘

ان کی فاؤنڈیشن کی 25 ویں سالگرہ رواں برس مئی میں ہے۔ بِل گیٹس کا کہنا ہے کہ انھیں فلاحی کاموں میں اپنا ذاتی پیسہ خرچ کرنے سے خوشی حاصل ہوتی ہے اور اب تک وہ ذاتی حیثیت میں 60 ارب ڈالر فاؤنڈیشن میں جمع کروا چکے ہیں۔

جہاں تک بِل گیٹس کی طرزِ زندگی کا سوال ہے تو ان کے مطابق اربوں ڈالر فلاحی کاموں میں خرچ کرنے کے باوجود بھی ان کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے ذاتی طور پر کوئي قربانی نہیں دی۔ (اس کے لیے) میں نے ہیم برگرمیں بھی کوئی کمی نہیں کی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی اپنے ذاتی جہاز اور بڑے بڑے گھروں کے اخراجات باآسانی اُٹھا لیتے ہیں۔

بل گیٹس
Getty Images
بل گیٹس اور ان کی اہلیہ میلنڈا میں علیحدگی ہو چکی ہے

وہ اب بھی اپنی دولت کا ’بڑا حصہ‘ عطیہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے تین بچوں سے اس حوالے سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ ان تینوں کے لیے کتنی رقم پیچھے چھوڑی جائے جس سے ان کی زندگی بغیر کسی پریشانی کے گزر سکے۔

بِل گیٹس کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بچوں سے پوچھا کہ کیا وہ ان اقدامات کے نتیجے میں غریب ہو جائیں گے۔ ان کے بچوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’ہم غریب نہیں ہوں گے بلکہ اس کے برعکس ہماری کارکردگی میں مزید بہتری آئے گی۔‘

بِل گیٹس ایک ماہر ریاضی دان بھی ہیں اور یہ ان کی کارکردگی سے ظاہر ہوتا ہے۔ جب وہ سیئٹل کے لیکسائیڈ سکول میں آٹھویں جماعت میں تھے تو انھوں نے چار ریاستوں کے ریاضی کے امتحان میں حصہ لیا تھا اور صرف 13 سال کی عمر میں ان کا شمار ریاضی کے بہترین طلبا میں ہونے لگا تھا۔

اگر ان کی دولت کا تھوڑا حصہ بھی ان کے بچوں کو ملا تب بھی وہ کافی امیر ہوں گے۔ بلومبرگ کے مطابق ابھی بھی ان کے پاس موجود دولت کی مالیت 160 ارب ڈالر ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بلومبرگ کے مطابق ’میں کرہ ارض پر صرف ان 15 لوگوں میں سے ایک ہوں جو کھرب پتی (100 ارب ڈالر سے زیادہ کے مالک) ہیں۔‘

ہم سیئٹل میں ان کے بچپن کے گھر میں موجود ہیں۔ یہ گذشتہ صدی کے وسط میں تعمیر کیا گیا ایک جدید چار بیڈ روم پر مشتمل مکان ہے جو ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ ہم ان سے اس لیے مل رہے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنی ابتدائی زندگی سے متعلق ایک کتاب ’سورس کوڈ: مائی بیگننگز‘ لکھی ہے۔

میں نے ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کس طرح چیلنج پر پورے اُترنے والے ایک پُرعزم بچے بنے جو موجودہ دور کے ٹیکنالوجی کے علمبرداروں میں فٹ نہیں بیٹھتے۔

وہ اپنی بہنوں، کرسٹی اور لیبی کے ساتھ اس گھر پر آئے ہیں اور وہ تینوں یہیں بڑے ہوئے تھے۔ وہ کچھ سال سے وہاں نہیں آئے تھے لیکن موجودہ مالکان نے کی جانب سے اس گھر میں کی گئی تبدیلیوں پر بھی وہ خوش نظر آتے ہیں۔

لیکن یہاں آمد کے بعد قدم قدم پر بِل گیٹس کو اپنا ماضی یاد آ رہا ہے۔ باورچی خانے میں وہ یہ یاد کرتے ہیں کہ وہاں کمرے میں انٹرکام ہوتا تھا جو ان کی والدہ کو بہت پسند تھا۔

بِل گیٹس بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ انٹرکام کو ’صبح کے وقت ہمارے لیے گانے‘ کے لیے استعمال کرتی تھیں تاکہ ہم اٹھ کر ناشتے کی میز پر آ جائيں۔

ان کی والدہ میری گیٹس اپنی ذاتی اور گھر کی گھڑیاں وقت سے آٹھ منٹ آگے رکھتی تھیں تاکہ خاندان والے ان کے حساب سے وقت پر کام کر سکیں۔ ان کے بیٹے یعنی بل گيٹس اکثر اپنی ماں کے ان اقدامات پر احتجاج کرتے تھے لیکن اب وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’اس رشتے نے میرے حوصلوں کو بلند رکھا۔‘

وہ اپنے مسابقتی جذبے کا سہرا اپنی دادیکے سر باندھتے ہیں جو اکثر اس گھر میں خاندان کے ساتھ رہتی تھیں اور جنھوں نے انھیں تاش کے کھیل کے ساتھ مقابلے میں آگے نکلنا سکھایا تھا۔

میں بِل گیٹس کے پیچھے پیچھے لکڑی کی سیڑھیوں کے ذریعے نیچے تہہ خانے میں اترا جہاں وہ اپنے بچپن کے پرانے بیڈ روم کی تلاش میں تھے۔ یہ اب ایک صاف ستھرا گیسٹ روم ہے لیکن ان کی بہنیں کہتی ہیں کہ نوجوان بل گیٹس کبھی یہاں ’سوچنے‘ میں گھنٹوں یا کبھی کبھی تو پورا دن گزار دیتے تھے۔

ایک موقع پر ان کی ماں ان کے کمرے میں پھیلی گندگی سے اتنی تنگ آ گئیں کہ انھوں نے فرش پر ملنے والے تمام کپڑے اور بقیہ چیزیں بھی ضبط کر لیں اور ان کو واپس حاصل کرنے کے لیے ضدی بیٹے سے 25 سینٹ وصول کیے۔

بِل گیٹس بتاتے ہیں کہ اس کے بعد سے ’میں نے کم کپڑے پہننے شروع کر دیے تھے۔‘

اس وقت وہ کمپیوٹر کوڈنگ میں اپنا زیادہ تر وقت صرف کرتے تھے۔ انھیں اپنے دوستوں کی مدد کرنے کے بدلے میں ایک مقامی کمپنی میں موجود کمپیوٹر تک رسائی دی گئی تھی۔

اور انھیں اپنے کچھ ٹیک سیوی سکول کے دوستوں کے ساتھ کسی بھی مسائل کی اطلاع دینے کے بدلے میں مقامی فرم کے ایک کمپیوٹر تک رسائی دی گئی تھی۔

ٹیکنالوجی کے انقلاب کے ان ابتدائی دنوں میں بِل گیٹس پروگرامنگ سیکھنے کے جنون میں مبتلا تھے۔ وہ رات کو اپنے کمرے کی کھڑکی سے کود کر چھپ کر باہر نکل جاتے تھے تاکہ کمپیوٹر پر زیادہ وقت گزار سکیں۔

میں نے ان سے پوچھا کہ ’کیا آپ اب بھی ایسا کر سکتے ہیں؟‘

وہ کُنڈی کو گھمانے لگتے ہیں، کھڑکی کھولتے ہیں اور مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ اتنا مشکل بھی نہیں‘ اور پھر کھڑکی سے باہر قدم رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ بالکل بھی مشکل نہیں۔‘

بل گیٹس
Getty Images
بِل گیٹس کی نوجوانی میں لی گئی ایک تصویر

بِل گیٹس کا ایک بہت پُرانا اور مشہور ویڈیو کلپ ہے جس میں ایک ٹی وی چینل کے میزبان ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ وہ کھڑے کھڑے کرسی پر چھلانگ لگا سکتے ہیں؟ بِل گیٹس نے وہ وہیں سٹوڈیو میں کھڑے کھڑے اس کرتب کا مظاہرہ کرکے بھی دکھا دیا تھا۔

بِل گیٹس اب بہت مطمئن ہیں اور پہلی مرتبہ اپنی کتاب کے ذریعے لوگوں کو اپنی زندگی میں جھانکنے کا موقع دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق اگر وہ موجودہ دور میں بڑے ہو رہے ہوتے تو ان کا شمار شاید آٹزم کے شکار بچوں میں کیا جاتا۔

اس سے پہلے میں ان سے 2012 میں صرف ایک بار ملا تھا۔ انھوں نے بمشکل میری آنکھوں میں دیکھا اور ہم نے بچوں کو جان لیوا بیماریوں سے بچانے کے ان کے مقصد کے بارے میں ایک مختصر سا انٹرویو ریکارڈ کیا تھا۔

انٹرویو سے پہلے ہماری کبھی بھی باتنہیں ہوئی تھی۔ میں نے ہماری بات چیت کے بعد سوچا تھا کہ کیا بِل گیٹس آٹزم کا شکار ہیں۔

کتاب میں اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ یہ ان کی اپنے پسندیدہ مضامین پر حد سے زیادہ توجہ، ان کی جنونی فطرت اور سماجی بیداری کی کمی سے ظاہر ہوتا ہے۔

ان کی بہنیں مجھے بتاتی ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ بِل گیٹس شروع سے ہی مختلف تھے۔ بڑی بہن کرسٹی کہتی ہیں کہ وہ اپنے بھائی کو والدین سے بچاتی رہتی تھیں۔

’وہ کوئی عام بچہ نہیں تھا۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر پوری پینسل تک چبا جاتا تھا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.