کیا مسلم رہنما میر واعظ عمر فاروق تین دہائیوں قبل وادی چھوڑ جانے والے کشمیری پنڈتوں کو واپس لا سکیں گے؟

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق برسوں کی نظربندی کے بعد نئی دلیّ میں سیاسی ملاقاتیں کر رہے ہیں اور تین دہائیوں قبل وادی چھوڑ چکے کشمیری پنڈتوں کوواپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کشمیر
Getty Images

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند گروپوں کے اتحاد حریت کانفرنس کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق دو ہفتے سے دلیّ میں سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ اُن کی سیاسی ملاقاتوں کے بعد کشمیر کے عوامی حلقوں میں قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ نریندر مودی کی حکومت علیحدگی پسندوں کے ساتھ ’بیک ڈور چینل مذاکرات‘ پر آمادہ نظر آتی ہے۔

ان چہ مگوئیوں کی وجہ یہ ہے کہ سنہ 2019 میں نہ صرف میر واعظ کی حفاظت پر مامور جموں کشمیر پولیس کے گارڈز کو واپس بلا لیا گیا تھا بلکہ انھیں برسوں تک گھر میں نظر بند رکھا گیا، یہاں تک کہ انھیں تاریخی جامع مسجد میں جمعہ کے خطبے سے بھی روکا گیا تھا۔

انھوں نے نئی دلی میں قیام کے دوران انڈین حکومت کی جانب سے مساجد، مدارس اور درگاہوں جیسے مسلمانوں کے مذہبی اور خیراتی اثاثوں کو کنٹرول کرنے والے وقف بورڈ کے قانون کے متنازعہ ترمیمی مسودے پر بی جے پی کے سینئیر رہنما جگدمبِکا پال کی قیادت والی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ طویل مذاکرات کیے۔

یاد رہے کہ گذشتہ برس حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے 1995 کے وقف قانون میں ترمیم کا بل اسمبلی میں متعارف کروایا تھا، جس کی مسلمان اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں مخالفت کر رہی ہیں۔

حکومت کی ان ترامیم کو وقف کے املاک کو ریگولیٹ کرنے کی سمت میں ایک بڑے فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

وقف بورڈ کے قوانین میں کی گئی ترامیم حکومت کو اجازت دیتی ہیں کہ وہ ازخود یہ تعین کرے کہ کوئی جائیداد وقف کی ملکیت کیسے بنے گی یا ریاستوں میں قائم وقف بورڈ کی تشکیل کیسے ہو گی۔

وقف املاک کا معاملہ حالیہ برسوں میں بی جے پی اور دائیں بازو کے ہندو رہنماؤں کے لیے اہم موضوع رہا ہے۔

اس ملاقات میں میر واعظ عمر فاروق نے کمیٹی کو وقف بل میں شامل ایسی شقوں سے متعلق چھ نکاتی یادداشت بھی پیش کیں جن نے انڈیا میں مسلمانوں کے مذہبی مقامات کی نگرانی اور ملکیت کو سرکاری تحویل میں دینے کی تجویز ہے۔

اس کے علاوہ میرواعظ عمر نے 1990 میں مسلح شورش کے دوران ہوئی ہلاکتوں کے بعد وادی چھوڑ جانے والے کشمیری پنڈتوں کے ساتھ بھی بات چیت کے کئی ادوار کئے ہیں۔

انھوں نے کشمیری پنڈتوں کے وفود کو تجویز دی کہ جموں کشمیر کی تمام اقلیتوں اور اکثریتی مسلمانوں کے نمائندوں کی ایک ’انٹر فیتھ‘ کمیٹی بنائی جائے جو کشمیر چھوڑ جانے والے پنڈتوں کی واپسی کے لیے مہم چلائے گی۔

پنڈتوں نے کشمیر کیوں چھوڑا؟

1990 کی دہائی میں مسلح شورش شروع ہوتے ہی عسکریت پسندوں نے درجنوں کشمیریوں کے قتل کا سلسلہ شروع کیا تھا، جس میں کشمیری بولنے والے ہندو یعنی کشمیری پنڈت بھی تھے۔

اُس وقت کی سرگرم مسلح تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا دعویٰ تھا کہ وہ صرف ایسے لوگوں کو نشانہ بناتی ہے جو انڈین خفیہ اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ’تحریک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔‘

اس دوران کئی بیانات میں پنڈتوں کو وادی چھوڑ کر جانے کی دھمکیاں بھی شائع ہوئیں، جن کی بعد میں تردید کی گئی۔

19 جنوری 1990 کو وادی سے پنڈتوں کا انخلا شروع ہوا اور چند ماہ کے اندر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنڈتوں کے 77 ہزار خاندان وادی کشمیر سے انڈیا کے دیگر علاقوں کی جانب نقل مکانی کر گئے۔

تب سے کئی حکومتوں نے کشمیری پنڈتوں کو واپس لانے کے لیے کئی سرکاری سکیموں کا اعلان کیا لیکن یہ واپسی نوکریوں تک ہی محدود رہی کیونکہ پنڈت خاندانوں کی اکثریت اپنے گھر فروخت کرکے کشمیر سے باہر مقیم ہو چکے ہیں۔

سنہ 2008 میں اُس وقت کے انڈین وزیر اعظم منموہن سنگھ نے پنڈتوں کو کشمیر میں ملازمتیں اور رہائش دینے کے لیے 1168 کروڑ روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا، جس کے بعد پنڈتوں نے یہاں نوکریاں کر کے سکیورٹی حصار والے سرکاری کوارٹرز میں رہنا شروع کیا۔

گذشتہ برسوں میں تقریباً چھ ہزار کشمیری پنڈت ان کیمپوں میں رہنے لگے۔

جن پنڈت وفود نے نئی دلّی میں میر واعظ عمر فاروق سے ملاقات کی اُن میں پنڈتوں کے ایک معروف رہنما ستیش محلدار بھی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اپنے ہی وطن میں مہمانوں کی طرح رہنے کو واپسی نہیں کہیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اکثریتی آبادی اور پنڈتوں کے درمیان بھروسہ پھر سے بحال ہو اور ہم سب پہلے کی طرح گھل مل کر رہیں۔‘

کشمیر
Getty Images

’35 سال سے جب بھی دلّی آتا ہوں کشمیری پنڈت کے گھر رہتا ہوں‘

ستیش محلدار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ میر واعظ عمر فاروق کشمیر کے روحانی لیڈر ہیں، وہ صرف مسلمانوں کے ہی نہیں ہم سب کے لیڈر ہیں۔ اب یہ طے ہوا ہے کہ ماضی کی تلخ باتوں کو بھول کر ہماری وطن واپسی کا ایک روڈ میپ بنایا جائے اور اس پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔‘

میر واعظ عمر فاروق نے پنڈت لیڈروں کے ساتھ مذاکرات کے دوران ’انٹرفیتھ‘ کمیٹی کے قیام کی تجویز پیش کی جس پر سب نے اتفاق کیا۔

اس کمیٹی میں پنڈتوں کے ساتھ ساتھ مسلم، سکھ، بودھ، عیسائی مذہب کے نمائندے بھی ہوں گے۔

میر واعظ کشمیری پنڈتوں کو کیسے واپسی پر آمادہ کر سکیں گے؟

ماضی میں سرکاری سطح پر کشمیری پنڈتوں کو وادی واپس بلانے کی کوششیں ناکام ہوئیں تو میر واعظ ایسا کیا کریں گے جس سے ساڑھے تین دہائیوں بعد پنڈت وطن واپس آجائیں گے؟

اس سوال کے جواب میں میر واعظ عمر فاروق نے نئی دلیّ سے بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس حقیقت کے اعتراف کا وقت آ گیا ہے کہ دونوں مذاہب کے افراد کے درمیان اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ اس اعتماد کو بحال کرنے کے لیے دونوں مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان پہلے مرحلے میں رابطوں اور بات چیت کو بحال کرنا ہے۔‘

اس مہم میں حکومت کے کردار سے متعلق میر واعظ کہتے ہیں کہ ’پنڈتوں کا وادی سے انخلا کوئی سیاسی نہیں بلکہ انسانی مسئلہ ہے۔ کوئی حرج نہیں اگر ان کی واپسی اور بحالی کے لیے ہمیں حکومت کے ساتھ بھی رابطہ کرنا پڑے۔‘

میر واعظ عمر نے مزید بتایا کہ فریقوں کو اس بارے میں حساس رہنا ہو گا کہ وہ کسی بھی سیاست کا حصہ نہ بنیں۔

’ماضی کی تلخیاں بھلا کر ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ میں نے وفود کو بتایا کہ پچھلے 30 سال سے میں جب بھی دلیّ آتا ہوں کشمیری پنڈت کے گھر میں رہتا ہوں۔ دونوں فرقے شیر و شکر تھے، میرے دادا جی کے پنڈت مُرید بھی تھے، یہی وجہ ہے پنڈت لیڈروں نے میر واعظ کے منصب کو سبھی مذاہب کا روحانی مرجع کہا۔‘

پنڈت خاندان جو وادی چھوڑ کر نہیں گئے

کشمیر
Getty Images

واضح رہے مسلح شورش کے دوران کشمیر میں ہی رہنے کو ترجیح دینے والے پنڈتوں کی تعداد 2500 ہے جو کشمیر کے 272 مقامات پر آباد ہیں۔

ان ہی پانچ سو خاندانوں کے رہنما سنجے تِکو حکومتوں کے اعلانات سے اکثر چِڑ جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جو لوگ یہیں پر دو دو بندوقوں کے سائے میں خوف کی زندگی بسر کرتے رہے اُن پر کوئی سرکار توجہ نہیں دے رہی تو یہاں سے جانے والے پنڈتوں کا کیا بھلا کیا جائے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اکثریتی آبادی کو اس سلسلے میں عملی طور پر دیکھنا ہو گا کہ اگر پنڈت واپس آجائیں تو رہیں گے کہاں؟

’ان کے گھر مسلمانوں نے خرید لیے ہیں۔ حکومت صرف کیمپ بنانے کی بات کرتی ہے۔ ہم بھی کشمیری بولتے ہیں، مسلمان بھی کشمیری بولتے ہیں۔ ہمارا رہن سہن، کلچر، پسند ناپسند ایک ہے۔ کوئی متبادل پہلے لوگوں کو ڈھونڈنا ہو گا، پھر کوئی تجویز حکومت کو دی جاسکتی ہے۔‘

میرواعظ کی نئی مہم سے متعلق سنجے تکو کہتے ہیں کہ فریقوں کے درمیان اعتبار بحال کرنے کی کوششوں میں کوئی حرج نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حالات بالکل ٹھیک ہوگئے ہیں؟

’ابھی کل ہی کٹھوعہ میں ہلاکت ہوئی اور بارہ مولہ میں فوج نے ٹرک ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کیا۔ یہاں کوئی حالات کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ البتہ جو پنڈت کشمیری یہاں پر ہی مقیم ہیں ان کی معاشی حالت پر کسی نے ابھی دھیان نہیں دیا۔‘

میر واعظ عمر فاروق کون ہیں؟

کشمیر
Getty Images

سنہ 1990 میں پنڈتوں کے انخلا کے پانچ ماہ بعد 21 مئی کے روز میر واعظ مولوی محمد فاروق کو مسلح افراد نے ان کے گھر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد عمر فاروق محض 16 سال کی عمر میں کشمیر کے چودہویں میر واعظ بنے تھے اور تین سال بعد صرف 19 سال کی عمر میں مختلف علیحدگی پسند جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس کے چیئرمین منتخب ہوئے۔

انھوں نے کشمیر سے متعلق انڈیا کے سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ کے ساتھ 2004 سے 2007 تک مذاکرات کے کئی ادوار میں حصہ لیا تاہم ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

لیکن انڈیا کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کے معاملے پر حریت کانفرنس تقسیم ہو گئی۔

سید علی گیلانی، جو مذاکرات کے خلاف تھے، نے الگ دھڑے کی قیادت کی جبکہ میر واعظ مذاکرات کے حامی علیحدگی پسند گروپوں کے سربراہ بنے۔ نئی دلّی کے ساتھ مذاکرات پر گیلانی گروپ نے میر واعظ پر سخت تنقید بھی کی تھی۔

مسلح گروپ بھی ان کی اعتدال پسندی سے ناخوش تھے۔ نامعلوم مسلح افراد نے 2004 میں میر واعظ کے قریبی رشتہ دار مولوی مشتاق کو سرینگر کی ایکمسجد میں گولی مار جس کے چند روز بعد ہسپتال میں ان کی موت ہو گئی تھی۔

لیکن میر واعظ کی قیادت والی حریت نے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف، سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری، سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور دوسرے رہنماوں سے بھی مذاکرات کر چکے ہیں۔

میر واعظ کشمیر کے علیٰحدگی پسندوں میں واحد رہنما ہیں جنھیں 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد باقی لیڈروں کی طرح جیل میں قید نہیں کیا گیا۔

وہ برسوں تک اپنے ہی گھر میں نظر بند رہے۔ میر واعظ کی ابتدائی تعلیم مسیحی مشنری سکول برن ہال میں ہوئی۔ انھوں نے اسلامِک سٹڈیز میں ماسٹرز کیا اور شام کی یونیورسٹی سے مسلم ثقافت سے متعلق موضوعات پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔

انھیں تین مرتبہ اُردن میں مقیم رائل اسلامِک سٹریٹجک سٹڈیز کے سالانہ سروے میں دنیا کے 500 بااثر مسلم رہنماوں اور 10 باثر مسلم سیاسی لیڈروں میں شمار کیا گیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.