محافظوں اور دیگر قیدیوں کے لیے یہ شخص توماز سرافیسکی تھے، قیدی نمبر859، ایک یہودی جو غلط وقت پر غلط جگہ پر تھا لیکن نازی جرمنی کے خلاف خفیہ مزاحمتی گروپ کے لیے ان کا نام وٹولڈ پائلیکی تھا، جو فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ، انٹیلیجنس ایجنٹ، ایک شوہر اور دو بچوں کا باپ اور ایک کیتھولک تھا۔
ایک شخص کی جانب سے آشوٹز میں جانے کے جرات مندانہ مشن نے دنیا کے سامنے یہاں ہونے والے مظالم کا انکشاف کیا۔ یہ ان ہی کی کہانی ہے۔
اس سال دنیا کے سب سے بدنام زمانہ جنگی حراستی کیمپ کے خاتمے کی 80 ویں سالگرہ ہے، جہاں 11 لاکھ سے زیادہ افراد، جن میں زیادہ تر یہودی تھے، انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔
آشوٹز کا حراستی مرکز 1940 میں اس وقت قائم کیا گیا تھا جب نازی جرمنی نے قیدیوں کو رکھنے کے لیے جنوبی پولینڈ کے اوسویسیم میں ایک نیا کیمپ کمپلیکس کھولا تھا۔
پولینڈ کے شہریوں کی ایک سیاسی جیل کے طور پر شروع ہونے والا یہ نام یورپ کے یہودیوں کی موت کی فیکٹری میں تبدیل ہو گیا اور آشوٹز کا نام جلد ہی نسل کشی اور ہولوکاسٹ کا مترادف بن گیا۔
آپریشن کے پہلے سال کے دوران کیمپ کی سرگرمیوں کے بارے میں اس وقت تک بہت کم معلومات تھیں جب تک کہ ایک شخص نے پتہ لگانے کے لیے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا فیصلہ نہیں کیا۔
محافظوں اور دیگر قیدیوں کے لیے یہ شخص توماز سرافیسکی تھے، قیدی نمبر859، ایک یہودی جو غلط وقت پر غلط جگہ پر تھا۔
لیکن نازی جرمنی کے خلاف خفیہ مزاحمتی گروپ کے لیے ان کا نام وٹولڈ پائلیکی تھا، جو فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ، ایک انٹیلیجنس ایجنٹ، ایک شوہر اور دو بچوں کا باپ اور ایک کیتھولک تھا۔
آشوٹز برکینو میموریل اینڈ میوزیم کے مؤرخ ڈاکٹر پیوٹر سیٹکیویز نے کہا کہ ’وٹولڈ پائلیکی مزاحمتی تحریک کی تنظیم کے بانیوں میں سے ایک تھے جسے سیکرٹ پولش آرمی – ٹی اے پی کہا جاتا ہے۔‘
’جب ٹی اے پی کو نئے آشوٹز کیمپ کی خبر ملی، تو کسی کو وہاں بھیجنے کے بارے میں بات چیت شروع ہو گئی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ پائلیکی نے یہ کام کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔‘
واضح رہے کہ اس وقت ٹی اے پی میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ آشوٹز کیا ہے۔
مؤرخ ڈاکٹر پیوٹر سیٹکیویز نے مزید بتایا کہ ’اس کے بعد ہی وارسا سے جلاوطن کیے گئے لوگوں کی موت کے بارے میں اطلاع دینے والے پہلے ٹیلی گرام آنا شروع ہوئے۔‘
تاہم پائلیکی کو اندر جانے کے لیے ایک منصوبے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ ستمبر 1940 کے ایک دن انھوں نے وارسا کے علاقے سولیبورز میں اپنی بھابھی کے اپارٹمنٹ میں پولیس چھاپے کے دوران رہنے کا انتظام کیا اور ایک مر جانے والے پولش فوجی کی یہودی شناخت کا استعمال کرتے ہوئے گرفتار ہوئے۔
تین دن بعد پائلیکی اس بدنام زمانہ کیمپ میں داخل ہوئے جہاں انھوں نے اگلے ڈھائی سال دنیا کو اس کی سرگرمیوں کے بارے میں متنبہ کرنے کے لیے ثبوت بھیجنے میں گزارے، اس دورانانھیں کسی بھی دوسرے قیدی کی طرح سخت محنت، بھوک اور موت کے خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔
انھوں نے ایسی رپورٹس لکھیں جو کیمپ سے سمگل کی گئیں، جن میں حالات، تشدد اور اموات کے بارے میں معلومات شامل تھیں۔
اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک خفیہ تحریک کی حوصلہ افزائی کی جس نے ملک میں تنصیبات کو سبوتاژ کیا اور ایس ایس افسران کو قتل کیا جبکہ ممنوعہ خوراک اور ادویات لانے کا انتظام کیا۔
ان کی بھابھی کے علاوہ، ان کے خاندان کو ان کی فوجی سرگرمی کے بارے میں بہت کم علم تھا۔
پائلیکی کی بیٹی زوفیا پائلیکا آپٹووچکا کہنا ہے کہ ’ہمیں تھوڑا بہت اندازہ تھا کہ والد کچھ اہم کام کر رہے ہیں لیکن یقینی طور پر ہم بچپن میں نہیں جانتے تھے کہ کس قسمکا کام۔ پتا نہیں ماں کو کچھ معلوم تھا یا نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ بھی والد کے کاموں کی تفصیلات نہیں جانتی تھیں۔‘
اپنی رپورٹوں میں پائلیکی نے آشوٹز کی حقیقت پر روشنی ڈالی اور درخواست کی کہ اتحادی افواج کیمپ پر حملہ کریں۔
اگرچہ دستاویزات کچھ اعلی کمانڈروں تک پہنچی تھیں لیکن انھیں زیادہ تر نظر انداز کردیا گیا کیونکہ پولینڈ عسکریترجیح نہیں تھا۔
یہاں تک کہ کیمپ کے حتمی خاتمے کے دن بھی سوویت کمانڈ میں یوکرینی فوج کو قریبی شہر کراکو کو آزاد کرنے کے بعد ہی اتفاق سے کیمپ کے بارے میں پتہ چلا۔
اگرچہ پائلیکی کے ثبوت براہ راست کیمپ کی آزادی کا باعث نہیں بنے لیکن انھوں نے وہاں کے حالات کا انکشاف کرنے کے لیے پہلی اجتماعی کوششں کی۔
اتحادی کمانڈروں کی جانب سے کیمپ کے وجود کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے تین سال قبل ہی وہ قیدیوں پر ہونے والے تشدد اور ہلاکتوں کے بارے میں براہ راست معلومات دنیا کے سامنے لانے والے پہلے شخص تھے۔
ان کے فرار ہونے کے بعد آشوٹز کے زندہ بچ جانے والے قیدیوں کو بچانے میں مزید دو سال لگے۔
اس وقت تک کیمپ میں لائے گئے تقریبا11 لاکھ افراد میں سے صرف 7،000 نے آزادی دیکھی۔
پائلیکی کو ’آشوٹز کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے شخص‘ کے طور پر جانا جاتا تھا حالانکہ ان کی کہانی کئی سال تک وسیع پیمانے پر بیان نہیں کی گئی تھی۔
جنگ کے بعد پولینڈ سوویت حکمرانی کے تحت آ گیا اور پائلیکی اور ان کا خفیہ یونٹ وارسا بغاوت میں پولینڈ کی آزادی کے لیے لڑتا رہا۔
بلآخر انھیں گرفتار کر لیا گیا، غدار کے طور پر اعتراف جرم پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا اور 1948 میں خفیہ طور پر جیل میں پھانسی دے دی گئی۔
وٹولڈ پائلیکی کا ذکر ممنوع تھا اور ان کے اعمال کی رپورٹس اور دستاویزات کو تباہ کر دیا گیا تھا۔
پائلیکا آپٹولوویز اور ان کے بھائی آندریج نے ریڈیو پر پائلیکی کے مقدمے اور پھانسی کی خبریں سنیں، وہ یہ سنتے ہوئے بڑے ہوئے کہ ان کے والد غدار اور ریاست کے دشمن تھے۔
سنہ 1990 کی دہائی تک انھیں پتہ چلا کہ ان کے والد ہمیشہ ہیرو رہے ہیں۔
پائلیکا آپٹولوویز کے پاس اپنے والد کی یادیں ہیں جو ایک مہربان لیکن سخت آدمی تھے۔ ایک اصول پسند شخص جو اپنے خاندان سے محبت کرتے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اپنے والد کے ساتھ فطرت کے بارے میں ہونے والی بات چیت اچھی طرح یاد ہے کہ زندگی کی زنجیر کیسے کام کرتی ہے، اس سلسلے میں شامل تمام جاندار کتنے اہم ہیں۔ انھوں نے مجھے دوستانہ اور محبت بھرے انداز میں دنیا دکھائی اور مجھے بتایا کہ مختلف حالات میں کیسے برتاؤ کرنا ہے۔‘
’انھوں نے ہم میں یہ احساس پیدا کیا کہ وقت کی پابندی اور صداقت خاص طور پر اہم ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی ان اسباق پر عمل کیا۔‘
سنہ 1989 میں پولینڈ میں سوویت کمیونزم کا خاتمہ ہوا اور بالآخر پائلیکی کی اصل کہانی بتائی گئی۔
اس کے بارے میں کتابیں شائع ہوئیں، سڑکوں کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا اور پولینڈ کے سکولوں میں ان کی کہانی پڑھائی گئی۔
20 ویں صدی کی پولش سیاسی تاریخ پر تحقیق کرنے اور مشکل وقت میں پولش شہریوں کی مدد کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک پائلیکی انسٹیٹیوٹ قائم کیا گیا تھا اور پائلیکی کی کہانی آشوٹز برکینو میموریل اور میوزیم کی نمائش کا حصہ ہے۔