جی بی ایس: پانی اور مرغی کے گوشت سے پھیلنے والا وائرس جو انسان کو مفلوج کر دیتا ہے

انڈیا میں اعلیٰ تعلیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکز کے طور پر مشہور پونے شہر میں جنوری سے لے کر اب تک ایسے 160 کیسز منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ اس بیماری سے اب تک مبینہ طور پر پانچ اموات بھی ہو چکی ہیں۔
انڈیا
Getty Images
پونے شہر میں جنوری سے لے کر اب تک ایسے 160 کیس منظرِ عام پر آ چکے ہیں

گذشتہ مہینے انڈیا کے مغربی شہر پونے میں ایک سکول ٹیچر کو یوں محسوس ہوا جیسے کہ ان کا چھ برس کا بیٹا اپنے ہوم ورک کو لے کر اُن سے ناراض ہے۔

سکول ٹیچر نے انڈین ایکسپریس اخبار کو بتایا کہ ’میں نے اس کے لکھے کچھ الفاظ مٹا دیے تھے اور اسے انھیں دوبارہ لکھنے کو کہا تھا۔ مجھے لگا کہ شاید وہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے اور اس لیے درست طریقے سے پینسل نہیں پکڑ رہا۔‘

لیکن انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کے بیٹے کا پینسل نہ پکڑ پانا دراصل ایک نایاب بیماری گلین برے سنڈروم (جی بی ایس) کی علامات میں سے ایک تھا۔ یہ ایسی بیماری ہے جو آپ کے جسم کے ٹشوز اور پٹھوں پر حملہ آور ہوتی ہے اور آپ کو کمزور اور کبھی مفلوج بھی کر دیتی ہے۔

کچھ ہی دن بعد چھ سالہ بچہ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں موجود تھا کیونکہ وہ اپنے ہاتھ اور پاؤں نہیں ہلا پا رہا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی طبعیت مزید بگڑی اور وہ حلق سے کچھ نگلنے اور سانس لینے سے بھی قاصر ہو گیا۔

اسی سبب اس بچے کو وینٹیلیٹر پر منتقل کرنا پڑا تھا لیکن اب ان کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔

انڈیا میں اعلیٰ تعلیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکز کے طور پر مشہور پونے شہر میں جنوری سے لے کر اب تک ایسے 160 کیسز منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ اس بیماری سے اب تک مبینہ طور پر پانچ اموات بھی ہو چکی ہیں۔

اس وقت بھی اس بیماری سے متاثرہ 48 افراد انتہائی نگہداشت یونٹ میں زیرِ علاج ہیں جبکہ 21 افراد وینٹیلیٹر پر موجود ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جی بی ایس سے متاثر ہونے والے 38 افراد صحتیات ہو کر اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔

جی بی ایس کی ابتدائی علامات اکثر ہاتھ، پاؤں کا سُن ہو جانا یا ان میں سنسناہٹ ہونا ہوتی ہیں۔ اس کے بعد اکثر مریضوں کو اپنے پٹھوں میں کمزوری محسوس ہوتی ہے جس کے سبب انھیں اپنی ہڈیوں کو حرکت دینے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انڈیا
Getty Images
جی بی ایس کی ابتدائی علامات اکثر ہاتھ، پاؤں کا سُن ہوجانا یا ان میں سنسناہٹ ہونا ہوتی ہیں

یہ بیماری دو سے چار ہفتے کے دوران شدت اختیار کرتی ہے اور ہاتھ، پاؤں پر ہی سب سے زیادہ اثر کرتی ہے۔

دنیا بھر میں اس بیماری سے متاثرہ افراد کی اموات کی شرح تین سے 13 فیصد کے درمیان ہے۔ مریضوں کے صحتیاب ہونے کا انحصار بیماری کی شدت اور انھیں ملنے والے علاج کے معیار پر ہوتا ہے۔

پونے میں جی بی ایس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار کیمپیلوبیکٹر جیجونی نامی جرثومے کو قرار دیا جا رہا ہے جو دنیا بھر میں کھانے کی اشیا سے لوگوں کے جسم میں منتقل ہونے والی بیماری جی بی ایس کا سب سے بڑا سبب ہے۔

اس جرثومے اور جی بی ایس کے درمیان تعلق 1990 کی دہائی میں چین کے دیہی علاقوں میں سامنے آیا تھا۔

کیمپیلوبیکٹر جیجونی دیہی چین میں مرغیوں میں بہت عام تھا اور ملک میں جی بی ایس کے کیسز مون سون کے موسم کے بعد ہی سامنے آتے تھے کیونکہ اس موسم میں بطخیں، مرغیاں اور بچے بارش کے پانی میں ایک ساتھ کھیلا کرتے تھے۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ انڈیا میں جی بی ایس کے کیسز منظرِ عام پر آئے ہوں۔ بنگلور میں واقع نیشنل انسٹٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیوروسائنسز سے منسلک مونوجیت دیبناتھ اور مدھو نگپا نے سنہ 2014 سے لے کر 2019 تک اس بیماری سے متاثر ہونے والے 150 مریضوں پر تحقیق کی۔

ان کی تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ جی بی ایس سے متاثر ہونے والے 79 فیصد مریض اس سے قبل بھی دیگر انفیکشنز میں مبتلا رہ چکے تھے اور ان میں ایک تہائی افراد کے جسموں میں کیمپیلوبیکٹر جیجونی نامی جرثومہ بھی موجود تھا۔

حالیہ دنوں میں اس جرثومے سے تعلق رکھنے والے وائرسز دنیا بھر میں پھیلتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ سنہ 2023 کے پہلے سات ماہ میں پیرو میں جی بی ایس سے 200 افراد متاثر اور چار افراد ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد وہاں کی حکومت نے ملک میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔

ماہرین کے مطابق جن ممالک میں صفائی ستھرائی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے وہاں کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے سبب جی بی ایس کی وبا کم ہی پھیلتی ہے۔ ان ممالک میں اس وائرس کے پھیلنے کا سبب دیگر سانس کی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔

سنہ 2015 میں برازیل میں بھی جی بی ایس کے کیسز سامنے آئے تھے۔ سنڈروم سے متاثر ہونے والے افراد کی اکثریت پہلے ہی زیکا وائرس کی لپیٹ میں تھے۔

ایسا بہت ہی کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی ویکسین کے سبب جی بی ایس پھیلا ہو لیکن سنہ 2021 میں جی بی ایس کے کچھ کیسز کورونا وائرس کی ویکسین کی وجہ سے پھیلے تھے۔

یونیورسٹی آف گلاسگو سے منسلک نیورولوجی کے پروفیسر ہیو ولسن کہتے ہیں کہ ’کیمپیلوبیکٹر جیجونی ایک وبا کی صورت اختیا کر گیا اور اس کے ہزاروں کیسز ہر بار سامنے آتے ہیں۔ یہ جرثومہ ہمیشہ ہمارے اطراف کے ماحول میں موجود رہتا ہے۔‘

تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کو جی بی ایس آسانی سے نہیں لگتا۔ کیمپیلوبیکٹر جیجونی کی الگ قسم ہے جو انسانی جسم میں موجود خلیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

جب انسان کا قوت مدافعت اس جرثومے سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے تو اکثر اس وقت جسم کے پٹھے جی بی ایس کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن محققین کا کہنا ہے کہ کیمپیلوبیکٹر جیجونی کی یہ قسم ہمارے ماحول میں بہت کم پائی جاتی ہے۔

پروفیسر ولسن کہتے ہیں کہ ’امکان یہی ہے کہ پونے میں کیمپیلوبیکٹر جیجونی کی یہ قسم گردش کر رہی ہے اور اسی سبب جی بی ایس کے کیسز بڑے پیمانے پر سامنے آ رہے ہیں۔‘

ماہرین صحت کی اکثریت کا کہنا ہے کہ کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے 100 جراثیم میں سے کسی ایک کے اندر جی بی ایس پھیلانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

یہاں پریشانی کی بات یہ ہے کہ اب تک دنیا میں جی بی ایس کا کوئی علاج موجود نہیں۔

انڈیا
Getty Images
دنیا بھر میں جی بی ایس کے سامنے آنے والے کیسز کی اکثریت کا تعلق بغیر پکے مرغی کے گوشت سے جوڑا جاتا ہے

جی بی ایس میں مبتلا مریضوں کے جسم کیمپیلوبیکٹر جیجونی جرثومے کو روکنے کے لیے اینٹی باڈیز پیدا کرتے ہیں۔ ڈاکٹرز اکثر اس بیماری کی شدت کو کم کرنے کے لیے ’پلازما ایکسچینج‘ کا سہارا لیتے ہیں، اس کا مقصد خون سے منفی جراثیموں سے پاک کرنا ہوتا ہے۔

ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جی بی ایس کی تشخیص کسی ایک ٹیسٹ کے ذریعے ممکن نہیں۔

پروفیسر ولسن کہتے ہیں کہ ’اس کی تشخیص مختلف مرحلوں میں ہوتی ہے۔ کبھی اس سنڈروم کی غلط تشخیص ہوتی ہے، کبھی درست اور اکثر اس کی تشخیص میں تاخیر ہو جاتی ہے۔‘

انڈیا میں نظامِ صحت کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے اور اکثر دیہی علاقوں میں ڈاکٹر اس بیماری کی درست تشخیص نہیں کر پاتے۔ یہی سبب ہے کہ عالمی ادارہ صحت بھی پونے میں جی بی ایس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

انڈیا میں حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے پونے میں 60 ہزار گھروں کا معائنہ کیا، 160 مقامات سے پانی کے نمونے لیے اور لوگوں سے کہا کہ وہ پانی اُبال کر پییں، تازہ کھانا کھائیں اور ’باسی اور ادھ پکا مرغی اور بکرے کا گوشت نہ کھائیں۔‘

دنیا بھر میں جی بی ایس کے سامنے آنے والے کیسز کی اکثریت کا تعلق بغیر پکے مرغی کے گوشت سے جوڑا جاتا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس پانی کے ذریعے بھی پھیلتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.