سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے دہلی اسمبلی انتخابات میں شکست تسلیم کر لی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی جماعت کی جیت کو ترقی اور ’گڈ گورننس‘ کی جیت قرار دیا ہے۔
![Getty Images](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/84c8/live/d1defea0-e317-11ef-bd1b-d536627785f2.jpg)
انڈیا کے دارالحکومت دلی کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں ملک کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو 48 نشتسوں کے ساتھ واضح برتری حاصل ہو گئی ہے جبکہ سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی جماعت عام آدمی پارٹی اب تک صرف 22 نسشتیں ہی حاصل کر پائی ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے دلی اسمبلی کے انتخابات میں شکست تسلیم کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’آج دلی انتخابات کے نتائج آ گئے ہیں اور عوام کا جو بھی فیصلہ ہے، ہم اسے پوری عاجزی کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔‘
وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی جماعت کی کامیابی کو ترقی اور ’گڈ گورننس‘ کی جیت قرار دیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’ترقی جیت گئی، اچھی حکمرانی جیت گئی۔‘
واضح رہے کہ انڈیا کے دارالحکومت دلی میں ریاستی اسمبلی انتخابات میں پانچ فروری کو ووٹ ڈالے گئے تھے اور آج (آٹھ فروری) کو ان کے نتائج سامنے آئے جن کے مطابق مودی کی جماعت بی جے پی کو واضح برتری حاصل ہو گئی ہے۔
یاد رہے اس سے قبل میڈیا گروپس کے ذریعے کرائے گئے تقریباً سب ہی ایگزٹ پولز میں بی جے پی کی جیت کی پیشگوئی کی گئی تھی۔
بی جے پی اس انتخاب میں فتح یاب ہونے کے بعد 27 برس کے وقفے کے بعد ایک بار پھر دلی کی ریاستی اسمبلی کا کنٹرول سنبھالے گی۔
![Modi](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/95d2/live/00dbece0-e606-11ef-a319-fb4e7360c4ec.png)
عوام کا فیصلہ قبول ہے، بے جے پی کو مبارک باد دیتا ہوں: کیجریوال
اس موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’بی جے پی کو تاریخی جیت دلانے کے لیے دلی کے میرے تمام بھائیوں اور بہنوں کو سلام اور مبارکباد۔ میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں۔‘
وزیراعظم نے مزید لکھا کہ ’ہم دلی کی ہمہ جہت ترقی کو یقینی بنانے اور اس کے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، یہ ہماری ضمانت ہے۔ اس کے ساتھ، ہم یہ بھی یقینی بنائیں گے کہ دلی ایک ترقی یافتہ انڈیا کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے۔‘
دوسری جانب اروند کیجریوال نے بی جے پی کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’عوام کا فیصلہ ہمیں قبول ہے۔ میں اس جیت کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کو مبارکباد دیتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ وہ ان تمام امیدوں اور توقعات پر پورا اتریں گے جن کے ساتھ عوام نے انھیں ووٹ دیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’گذشتہ دس برس میں عوام نے ہمیں موقع دیا اور ہم نے ان دس برس میں تعلیم، صحت، پانی اور دلی کے انفراسٹرکچر کے لیے بہت کام کیا۔‘
عام آدمی پارٹی کے لیے اس کا مطلب کیا ہو گا؟
عام آدمی پارٹی گزشتہ دس برس سے دلی میں اقتدار میں رہی۔ اروند کیجریوال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی 2015 میں 70 رکنی اسمبلی میں 67 اور 2020 میں 62 سیٹوں کے ساتھ کامیاب ہوئی تھی۔
عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے علاوہ بڑی جماعتوں میں کانگریس بھی انتخابی میدان میں تھی۔
نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے کبھی بھی کسی ریاستی انتخاب میں مسلسل تیسری بار شکست نہیں کھائی۔
![انڈیا، دلی الیکشن](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/bf9f/live/bca8a7d0-e316-11ef-bd1b-d536627785f2.jpg)
بی جے پی نے ماضی کے انتخابات میں بھی عام آدمی پارٹی کو شکست دینے کے لیے پوری طاقت لگائی تھی۔ اس بار بھی وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر جے پی نڈا کے علاوہ وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، آسام، اتر پردیش، مہاراشٹر کے وزرا اعلی اور متعدد مرکزی وزرا نے انتخابی مہم میں حصہ لیا۔
تجزیہ کار آشوتوش نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ماضی کے مقابلے اس بار بی جے پی کے لیے انتخاب جیتنے کا سب سے بہترین موقع ہے۔‘
’عام آدمی پارٹی کی حکومت کے بارے میں عوام میں بیزاری ہے۔ ان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ہیں۔ اس لیے یہ بی جے پی کے لیے اچھا موقع ہے لیکن اگر پھر بھی اروند کیجریوال انتخاب جیتتے ہیں تو یہ بہت تاریخی لمحہ ہو گا، اس سے ذاتی طور پر کیجریوال کا سیاسی قد بڑھے گا اور عام آدمی پارٹی کا سیاسی اثر قومی سطح پر بڑھ جائے گا۔‘
آشوتوش کہتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی، کانگریس اور بی جے پی کی طرح پچاس برس پرانی پارٹی نہیں اور اس کی جڑیں ابھی اتنی مضبوط نہیں۔
’آپ پارٹی کے بارے میں جو خدشات ہیں وہ بے بنیاد نہیں کیونکہ اس کی جڑیں پرانی جماعتوں کی طرح مضبوط نہیں۔ اس کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے یہ پارٹی ایک فرد واحد کے گرد جمع ہو گئی۔ اس کے اندر دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح کا تنظیمی ڈھانچہ نہیں۔‘
’اس کا کام کرنے کا طرز الگ ہے۔ دلی عام آدمی پارٹی کا گڑھ ہے۔ اگر وہ یہاں ہارتی ہے اور اقتدار سے باہر ہو جاتی ہے تو ایک طرح سے ان کے لیے اپنے وجود کو زندہ رکھنے کا بحران پیدا ہو جائے گا۔‘
یاد رہے کہ عام آدمی پارٹی سیاست میں بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک کے طور پر اروند کیجریوال کی قیادت میں وجود میں آئی تھی۔
اپنے اقتدار کے پہلےپانچ برس میں پارٹی نے دلی میں سرکاری سکولوں کو بہتر بنایا، نئے سکول کھولے، بہترین ہسپتال قائم کیے، غریب اور کچی بستیوں میں رہنے والے لاکھوں باشندوں کے لیے مفت بجلی اور پانی کی سپلائی کا انتظام کیا۔
لیکن 2020 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد کیجریوال کی حکومت تقریباً مفلوج ہو کر رہ گئی۔ ان کی حکومت پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے بعض مخصوص کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے شراب کی فروخت کے لائسنس کی پالیسی میں گھپلے کیے۔
اس الزام میں وزیر اعلی اروند کیجریوال کو جیل بھیجا گیا اور انھیں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔
بی جے پی نے ماضی میں بھی عام آدمی پارٹی کو شکست دینے کے لیے پوری طاقت لگائی تھی۔ اس بار بھی وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہوزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی انتخابی مہم میں حصہ لیاعام آدمی پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ الزامات فرضی ہیں اور بی جے پی انھیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے یہ حربے استعمال کر رہی ہے۔ کیجریوال اور پارٹی کے کئی بڑے رہنماؤں کے جیل میں ہونے کے سبب عام آدمی پارٹی کی حکومت کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی۔
تجزیہ کار آرتی جے رتھ کہتی ہیں کہ ’عام آدمی پارٹی کو غریب طبقے اور دلت آبادی کے ساتھ مڈل کلاس کے لوگوں کی زبردست حمایت حاصل تھی لیکن گزشتہ دو، تین برس میں حکومت کچھ خاص کام نہیں کر سکی، دارالحکومت کی سڑکیں بری حالت میں ہیں، فضائی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے، شہر میں کوئی بڑا تعلیمی ادارہ نہیں کھولا گیا۔ ان وجوہات کی بنا پر مڈل کلاس عام آدمی پارٹی سے بہت حد تک بدظن ہوئی۔‘
اروند کیجریوال نے دلی کی انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام عائد کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیشن بی جے پی کو جتوانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان کے الزام کو بے بنیاد قرار دے کر رد کر دیا۔
بی جے پی ترجمان شازیہ علمی کا کہنا ہے کہ ’عام آدمی پارٹی ملک کے جمہوری اداروں کا احترام نہیں کرتی۔ وہ سبھی اداروں کو بدنام کرتی ہے۔ اس نے الیکشن کمیشن پر بھی الزام عائد کیا اور یہ اس کی شکست کی علامت ہے۔‘
تاہم اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ حکمران جماعت بی جے پی دلی میں جیت چکی ہے جبکہ کیجریوال کو شکست ہوئی ہے اور اس شکست کو اب سابق وزیر اعلیٰ نے کھلے دل سے تسلیم بھی کر لیا ہے۔