بلوچستان میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر اراکین اسمبلی کو خصوصی اور خفیہ بریفنگ دی گئی۔ پیر کو چار گھنٹے تک جاری رہنے والی اس بریفنگ میں ارکان اسمبلی کو امن وامان سے متعلق خطرات، حکومتی اقدامات سمیت مجموعی صورتحال پر اعتماد میں لیا گیا۔قائد حزب اختلاف یونس عزیز زہری کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن اراکین بریفنگ سے مطمئن ہیں، صوبے میں آپریشن سے متعلق نہ کوئی فیصلہ ہوا ہے نہ ہم اس کی حمایت کریں گے۔‘ذرائع کے مطابق یہ بریفنگ پیر کی سہ پہر ساڑھے تین بجے شروع ہوئی جو ساڑھے سات بجے تک جاری رہی۔ اجلاس کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور ارکان اسمبلی اور اہم سرکاری افسران کے علاوہ کسی کو بھی اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ارکان کو پہلے ہی ذاتی سٹاف اور محافظوں کو ساتھ نہ لانے کی ہدایت جاری کی گئی تھی۔ اسمبلی کے عملے کے بیشتر ارکان کو بھی حاضری لگانے کے بعد باہر نکال دیا گیا۔ میڈیا کے نمائندوں کے اسمبلی کے احاطے میں داخلے پر ہی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ذرائع کے مطابق ارکان اسمبلی کے موبائل فون بھی باہر جمع کر لیے گئے اور بریفنگ شروع ہوتے ہی انہیں سختی سے ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ ان کیمرہ بریفنگ سے متعلق میڈیا پر کوئی بات نہ کریں۔اس سے پہلے پیر کی سہ پہر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے صوبائی اسمبلی کے قواعد و ضوابط 1974 کے قاعدہ نمبر 170 ڈی کے تحت صوبائی اسمبلی کے ہال کو کل ایوان کی مجلس قرار دینے کی تحریک پیش کی جسے منظور کرلیا گیا۔ اس کے بعد صوبائی اسمبلی کا اجلاس 12 فروری تک ملتوی کر دیا گیا۔اس قاعدے کے تحت کسی معاملے پر مشاورت کے لیے پورے ایوان کو ایک مکمل کمیٹی بنایا جا سکتا ہے۔اس کے بعد ان کیمرہ بریفنگ شروع ہوئی جو تقریباً چار گھنٹے جاری رہی۔ صوبے کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ شہاب الدین اور انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری نے امن وامان کی صورتحال پر ارکان اسمبلی کو بریفنگ دی۔ اس موقع پر چیف سیکریٹری شکیل قادر خان بھی موجود تھے۔ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران وزیراعلٰی بلوچستان سرفراز احمد بگٹی نے بھی ارکان کے سوالات کے جوابات دیے۔ ان کیمرہ اجلاس میں حکومتی ارکان کے علاوہ قائد حزب اختلاف یونس عزیز لہڑی، اپوزیشن جماعتوں جمعیت علمائے اسلام، نیشنل پارٹی اور حق دو تحریک کے ارکان نے بھی شرکت کی، تاہم نصف سے زائد حکومتی و اپوزیشن ارکان غیر حاضر رہے۔
وزیراعلٰی سرفراز بگٹی نے ارکان اسمبلی کو صوبے کی صورتحال سے متعلق آگاہ کیا۔ (فوٹو: بلوچستان حکومت)
ذرائع نے کہا کہ سابق وزرائے اعلٰی نواب اسلم رئیسانی، نواب ثناء اللہ زہری بھی بریفنگ میں شریک نہیں تھے۔
اجلاس کے بعد بیشتر اراکین اسمبلی کے باہر کھڑے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کیے بغیر واپس چلے گئے۔ اپوزیشن لیڈر یونس عزیز زہری نے میڈیا کے نمائندوں کے سوالات کا مختصر جواب دیا۔ ’ان کیمرہ بریفنگ میں بہت ساری باتیں خفیہ ہوتی ہیں اس لیے ان پر بات نہیں کرسکتا تاہم میں بریفنگ سے مطمئن ہوں۔‘انہوں نے کہا کہ ’تقریباً تمام اپوزیشن ارکان آئے ہوئے تھے سب نے اپنی اپنی بات رکھی۔ ہم اپوزیشن بریفنگ سے مطمئن ہیں۔‘ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ آپریشن سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی۔ ایک صحافی نے سوال کیا کہ بلوچستان میں آپریشن ہونے جا رہا ہے؟ یا مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔ ایسا کیا ہونے جا رہا ہےجس سے حالات بہتر ہوں گے؟ جس پر اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ’آپ عجیب باتیں کر رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آ رہیں ان کیمرہ میں جو باتیں ہوتی ہیں اس میں بہت ساری باتیں خفیہ باتیں ہوتی ہیں۔ میں نے کسی آپریشن کی حمایت کی ہے اور نہ کروں گا۔‘ذرائع کے مطابق اجلاس میں سرکاری اور سکیورٹی حکام نے ارکان اسمبلی کو دہشتگردی کے واقعات میں اضافے کے محرکات اور اس میں ملوث مختلف عناصر سے متعلق آگاہ کیا۔ ارکان کو مستقبل کے خطرات، امن وامان کے قیام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اور درپیش چیلنجز سے بھی آگاہ کیا گیا۔بریفنگ کے دوران اراکین اسمبلی نے امن و امان کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کیں۔ بعض ارکان نے حکومتی اقدامات کے مؤثر ہونے پر بھی سوال اٹھایا۔یہ دوسرا موقع ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کو کسی معاملے پر خفیہ بریفنگ دی گئی۔ اس سے پہلے دسمبر 2021 میں عبدالقدوس بزنجو کی حکومت نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں سونے اور چاندی کی کان ریکوڈک کے حوالے سے کینیڈین کمپنی کے ساتھ معاہدے پر خفیہ بریفنگ دی گئی تھی۔
9 نومبر کو کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر دھماکے میں کم سے کم 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں تشدد وعسکریت پسندی اور اس کے نتیجے میں ہلاکتوں میں حالیہ عرصے میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی (PIPS) کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ سال کے مقابلے میں حملوں میں 84 فیصد اضافہ ہوا اور دہشت گردی کے 202 واقعات میں 322 افراد ہلاک اور 534 زخمی ہوئے۔ اس کے برعکس، 2023 میں صوبے میں اس طرح کے حملوں میں 229 افراد ہلاک ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق مسلح بلوچ تنظیموں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف ) کے حملوں میں حیران کن طور پر 119 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔گزشتہ ہفتے پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف اور افواج پاکستان کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے قلات میں کالعدم بلوچ مسلح تنظیم کے حملے میں 18 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد کوئٹہ کا خصوصی دورہ کیا تھا اور امن وامان کی صورتحال پر اجلاس کی صدارت کی۔وزیراعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی نے گزشتہ اجلاس میں اپوزیشن کو امن وامان کی صورتحال پر خفیہ بریفنگ دینے کی پیشکش کی تھی اور کہا کہ ’ان کیمرہ سیشن ہونا چاہیے تاکہ ہم تمام ارکان کو اصل حالت بتا سکیں کہ صوبے میں کیا ہو رہا ہے، علیحدگی کی ایک سنجیدہ قسم کی تحریک یہاں چل رہی ہے اس کا سدباب کیا ہے؟ اس کے سوشل موبائلزر کون ہیں اور اس کے سوشل میڈیا کے ہینڈلرز کون ہیں۔ پرتشدد گروپس کون سے ہیں۔ کس گروپ کے ساتھ کیا کیا جاسکتا ہے اور پھر اس بحث کے بعد کوئی لائحہ عمل بھی سامنے آئے۔ کوئی تجاویز بھی آئیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہم امن وامان پر بحث تو کرتے ہیں لیکن اس کا حل کیا ہے اس کا روڈ میپ (لائحہ عمل ) تو اس اعلٰی اور قابل احترام ایوان نے دینا ہے۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ بامقصد بحث ہو۔‘بلوچستان اسمبلی کے ارکان کو خفیہ بریفنگ دینے کی ضرورت کیوں پڑی اس بارے میں گزشتہ اجلاس میں وزیراعلٰی سرفراز احمد بگٹی نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ بلوچستان کی سکیورٹی صورتحال بہت خطرناک ہوچکی ہے۔ عام اجلاس میں بعض ارکان کھل کر بات نہیں کر سکتے۔ ان کے بقول ’بریفنگ کو ان کیمرہ اس لیے کیا گیا کہ ہم کھل پر اس صورتحال پر بحث کریں۔ ارکان ہمیں تجاویز دیں ہم معاملات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے۔‘
تین فروری کو وزیراعظم شہباز شریف نے کوئٹہ کا دورہ کیا تھا۔ (فوٹو: اے پی پی)
ان کا کہنا تھا کہ ’ان کیمرہ سیشن کی ایک وجہ ہے کہ ہم سب خائف ہیں۔ اپنے سیاسی سرمایے کو کھونے کے ڈر سے ہم سچ نہیں بولتے۔ ہمیں سچ بولنا چاہیے۔ میرا سیاسی مفاد ریاست سے زیادہ اہم نہیں۔ اس لیے یہ ان کیمرہ سیشن ہو تاکہ ہم سامعین کو خوش کرنے یا شام کو فیس بک پر اپنے سٹیٹس لگانے کے لیے جذباتی تقریریں نہ کرتے پھریں۔‘
بلوچستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عرفان سعید کہتے ہیں کہ امن وامان اس وقت بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ صوبے میں گزشتہ سالوں کی نسبت صورتحال بہت خراب ہو چکی ہے اور صوبے کے ان علاقوں میں بھی دہشتگردی کے واقعات پیش آرہے ہیں، جو پہلے پُرامن سمجھے جاتے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ مسلح تنظیموں کی جانب سے حملوں اور اس کی شدت میں تیزی آئی ہے جس پر سب کو تشویش ہے۔ اس پر اپوزیشن حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی تھی۔ اب حکومت اپوزیشن ارکان کو حکومتی اقدامات پر اعتماد میں لینا چاہتی ہے کہ وہ کیا کر رہی ہے۔عرفان سعید کا کہنا تھا کہ ’میڈیا کو خفیہ بریفنگ کے دوران اندر جانے کی اجازت نہیں تھی، مگر ہماری اطلاعات ہیں کہ 65 میں تقریباً آدھے ارکان اس اہم اجلاس سے غیر حاضر تھے۔ اس سے ان کی دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال میں وزیراعلٰی تو خود پیش پیش ہیں تاہم باقی حکومتی ارکان اور اتحادی سامنے آتے ہیں اور نہ حساس موضوعات پر لب کشائی کرتے ہیں۔ وزیراعلٰی کے پاس کوئی ٹیم بھی نہیں اس لیے ہر بار انہیں ہی تنقید اور سوالات کا جواب دینا پڑتا ہے۔‘بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ ان کیمرہ بریفنگ کا مقصد اپوزیشن سمیت صوبائی اسمبلی کے ارکان کو امن وامان کی صورتحال اور حکومتی اقدامات پر اعتماد میں لینا تھا۔