جڑانوالہ کے ’موچی شاعر‘ جن سے گاہک شاعری سُنانے کی فرمائش کرتے ہیں

image
فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے ایک قصبے روڈالا کے بازار میں جہاں زندگی کی دوڑ اپنا رنگ دکھاتی ہے وہیں ایک چھوٹی سی دکان کے سائے تلے منور شکیل نہ صرف جوتوں کے ٹانکے لگاتے ہیں بلکہ سماج کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو اپنی شاعری کے ذریعے جوڑنے کا فن بھی بخوبی جانتے ہیں۔

وہ تین دہائیوں سے ایک جانب جہاں جوتوں کی مرمت میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ان کا دل الفاظ کے جہاں میں اُس درد کو سلگانے میں مصروف ہے جو انہیں معاشرے کی طرف سے دیے گیے ہیں۔

منور شکیل نے رسمی تعلیم تو حاصل نہیں کی مگر زندگی کے مکتب سے وہ علم حاصل کیا جو کتابوں کے اوراق تک محدود نہیں۔

وہ پیشے کے اعتبار سے موچی ہیں لیکن بچپن سے ہی شعر کہنے کی صلاحیت نے انہیں چھ کتابوں کا مصنف بنا دیا۔

وہ ہر صبح روڈلا کے بازار میں ایک دکان کے کنارے اپنا ساز و سامان رکھ کر جوتوں کی مرمت کرتے ہیں۔ ان کے پاس ایک قلم اور ایک نوٹ بک بھی پڑی ہوتی ہے جس میں وہ اپنے خیالات کو منظوم شکل دیتے ہیں۔

منور شکیل نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’جوتے مرمت کرنے کا پیشہ مجھے وراثت میں ملا ہے۔ میں چاہ کر بھی اس سے الگ نہیں ہو سکتا لیکن خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ کام کرتے ہوئے بھی مجھے شعر و شاعری کے لیے وقت مل جاتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب کوئی جوتا مرمت یا پالش کروانے کے لیے آتا ہے تو ان سے شاعری سنانے کی درخواست بھی کرتا ہے۔‘

’اب کئی لوگ مجھے جان گئے ہیں اس لیے اکثر لوگ تو جوتے مرمت کروانے کے بہانے شاعری بھی سننے آتے ہیں۔ ہر گاہک آتے ہی فرمائش کرتا ہے کہ استاد کوئی نیا کلام ہو تو سنائیے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ان کی ساتویں کتاب لاہور میں زیرِطباعت ہے جو رواں برس شائع ہو جائے گی۔‘

منور شکیل پنجابی زبان کے شاعر ہیں۔ وہ سنہ 1969 میں پیدا ہوئے۔ کم سنی میں والد کے سائے سے محرومی اور رسمی تعلیم حاصل نہ کر سکنے کے باوجود انہوں نے 13 سال کی عمر میں سے ہی شعر و سخن کے سفر کا آغاز کیا۔ جوتے مرمت کرنے اور اخبار فروشی جیسی مشقت بھری زندگی گزارتے ہوئے بھی انہوں نے اپنے ادبی خوابوں کو زندہ رکھا۔

رویل ادبی اکیڈمی اور پنجابی سیوک جیسی ادبی تنظیموں سے وابستہ منور شکیل کو پنجابی زبان کے فروغ پر بھی یقین ہے۔ (فوٹو: منور شکیل)

وہ روزانہ اپنی آمدن کا ایک حصہ کتابیں شائع کروانے کے لیے مختص کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ان کی پہلی کتاب ’سوچ سمندر‘ سنہ 2004 میں منظر عام پر آئی، جس کے بعد ’پردیس دی سنگت‘ سنہ 2005، ’صدیاں دے بھیت‘ سنہ 2009، ’جھورا دُھپ گواچی دا‘ سنہ 2011، اور ’آکھاں مٹی ہو گیئاں‘ سنہ 2013 میں شائع ہوئی۔ ان کی شاعری کا محور معاشرتی ناانصافی، طبقاتی تفاوت اور کمزور طبقے کی کہانیاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میں اُن موضوعات کو شعری لباس پہناتا ہوں جنہیں براہِ راست بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میرے سامنے روزانہ ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جو میرے ذہن پر انمٹ نشان چھوڑ دیتے ہیں۔ جب تک میں اپنے ان خیالات کو لفظوں میں نہ ڈھال لوں تو مجھے سکون نہیں ملتا۔‘

منور شکیل کے سات بچے ہیں۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ اُن کی تین بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’انہیں اب تک 25 سے زائد ایوارڈز مل چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کام کرنا مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ اس بے روزگاری کے دور میں گھر کی ضروریات پوری کرنا اور بچوں کا پیٹ پالنا بھی تو ضروری ہے اس لیے صرف جوتے مرمت کرنے سے یہ ممکن نہیں۔ حکومت کی جانب سے مجھے صرف 13 ہزار 500 روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔‘

منور شکیل رویل ادبی اکیڈمی جڑانوالہ اور پنجابی تنظیم نقیبی کاروان ادب کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ آشنائے ساندل بار، پاکستان رائٹرز گلڈ اور پنجابی سیوک جیسی ادبی تنظیموں سے اب تک کئی ایوارڈز اپنے نام کر چُکے ہیں۔

جڑانوالہ کی مقامی تنظیم رویل ادبی اکیڈمی اور پنجابی سیوک جیسی ادبی تنظیموں سے وابستہ منور شکیل کو پنجابی زبان کے فروغ پر بھی یقین ہے۔

منور شکیل دن میں چار گھنٹے مطالعہ کرتے ہیں۔ (فوٹو: منور شکیل)

اُن کا کہنا ہے کہ ’پنجابی ہماری ماں بولی ہے اور اس میں تعلیم کا حصول ہر پنجابی کا بنیادی حق ہے۔ میں اس زبان میں اپنے خیالات اور احساسات با آسانی بیان کر سکتا ہوں اس لیے میں نے شاعری کے لیے پنجابی زبان کا انتخاب کیا۔‘

منور شکیل کی چھٹی کتاب ’تانگھاں‘ 112 غزلوں پر مشتمل ہے۔ ان کے مطابق ان کی اب تک شائع ہونے والی تمام کتابوں کو مختلف ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔

منور شکیل کی ’سوچ سمندر‘ سے لے کر ’تانگھاں‘ تک ہر کتاب ایک ایسا آئینہ ہے جو معاشرے کے اُس چہرے کو بے نقاب کرتا ہے جسے ہم اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ وہ نہ صرف شاعر ہیں بلکہ ایک مصلح بھی ہیں جو اپنے قلم سے سماج کی زخم بھری رگوں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وہ اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں:

’اینوں کنے پانی دِتا، اینوں کنے بویا اے،

پتھر دے جو سینے اتے، بُوٹا اُگیا ہویا اے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ میرے وجود کی داستان ہے۔ ایک ایسا پودا جو کنکریٹ کے جنگل میں بھی اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ بچپن سے خواہش رہی کہ پڑھ لکھ کر نام کماؤں لیکن والد کے جانے کے بعد سب کچھ بدل گیا اس لیے مجھے خاندانی پیشہ ہی اختیار کرنا پڑا لیکن دیکھیں کہ میں نے اس میں بھی نام بنا لیا ہے۔ آج بھی لوگ مجھے موچی شاعر کہتے ہیں اور ادبی محفلوں میں مدعو کرتے ہیں۔‘

وہ پہلے اخبار تقسیم کرتے ہیں جس کے بعد اُن کا پورا دن جوتے مرمت کرنے میں گزر جاتا ہے مگر وہ مطالعہ کرنے کے لیے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔

اُن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’اخبار تقسیم کرنے کا کام کبھی کبھار بچے بھی کر لیتے ہیں میں جوتے مرمت کرتا رہتا ہوں۔ چند پیسے آ جائیں تو دن اچھا گزر جاتا ہے۔ چار گھنٹے مطالعہ ضرور کرتا ہوں۔‘

’مجھے یوں لگتا ہے کہ مجھے مطالعے نے ہی زندہ رکھا ہوا ہے۔‘

حال ہی میں ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر) ندیم ناصر نے انہیں دفتر بلا کر نقد انعام اور ڈی سی آفس کی یادگاری شیلڈ بھی پیش کی۔ (فوٹو: منور شکیل)

منور شکیل نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’انہیں یہ کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔ یہ میرا خاندانی کام ہے۔ میں ایمانداری سے یہ کام کرتا آ رہا ہوں اور اس کی وجہ سے میرا کام متاثر بھی نہیں ہوا اور لوگ عزت بھی دیتے ہیں۔‘

’یہ کام میرے لیے اس لیے بھی موزوں ہے کہ یہ میرا روزگار ہے تو دوسری طرف سڑک کنارے بیٹھ کر ذہن میں انوکھے خیالات بھی وارد ہوتے رہتے ہیں۔‘

یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ حال ہی میں ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر) ندیم ناصر نے ان کے دو بیٹوں کو ڈیلی ویجز ملازم بھرتی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے انہیں دفتر بلا کر نقد انعام اور ڈی سی آفس کی یادگاری شیلڈ بھی پیش کی۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.