جرمنی میں ہجوم پر گاڑی چڑھانے کے واقعے میں 28 افراد زخمی: 24 سالہ مشتبہ افغان ملزم کے بارے میں اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟

وزیر داخلہ یوآخم ہیرمن نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ مشتبہ شخص نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی جو کہ مسترد کر دی گئی تھی تاہم افغانستان میں موجودہ حالات اور سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اُسے درخواست مسترد کیے جانے کے بعد جرمنی چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر
Getty Images
مشتبہ حملے میں استعمال کی گئی کار

جرمنی کے شہر میونخ میں ایک 24 سالہ افغان پناہ گزین نے لوگوں کے مجمع پر گاڑی چڑھا دوڑی ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 30 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔

جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کو ’مشتبہ حملے‘ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

مگر اس حملے اور مبینہ حملہ آور کے بارے میں ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟

واقعہ کیسے پیش آیا؟

پولیس کے مطابق یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب جرمنی کے شہر میونخ میں جمعرات کو ٹریڈ یونین سے منسلک کارکنوں کی ریلی جاری تھی۔ اس دوران ایک تیز رفتار کار ریلی کے عقب سے شرکا پر چڑھ دوڑی۔ مقامی وقت کے مطابق یہ واقعہ صبج ساڑھ دس بجے پیش آیا۔

جرمنی میں ڈے کیئر سینٹرز، ہسپتالوں اور صفائی کے محکمے سے تعلق رکھنے والے ملازمین اس احتجاجی ریلی میں شریک تھے۔ یہ ملازمین تنخواہیں بڑھانے اور چھٹیوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

حکام کے مطابق اس احتجاجی ریلی میں لگ بھگ 1500 ملازمین شریک تھے اور وہ ریلی کے پہلے سے طے شدہ آخری مقام سے کچھ ہی دور تھے۔

ڈرائیور کو جائے وقوعہ سے حراست میں لینے سے قبل پولیس کی جانب سے گاڑی پر ایک گولی بھی چلائی گئی۔

پولیس کے مطابق ملازمین کے احتجاج کے پیش نظر اس علاقے میں پہلے ہی ایمرجنسی اور سکیورٹی محکموں کے اہلکار موجود تھے اور یہی وجہ ہے کہ ناصرف مشتبہ شخص کو جلد گرفتار کر لیا گیا بلکہ زخمی افراد کو موقع پر ہی ابتدائی طبی امداد بھی فراہم کی گئی۔

پولیس نے بتایا کہ ریلی کے باعث مشتبہ شخص کو جلد گرفتار کرنے اور زخمیوں کے علاج کے لیے ہنگامی خدمات علاقے میں موجود تھیں۔

فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس واقعے میں مشتبہ شخص زخمی ہوا ہے یا نہیں۔

پولیس کے ایک ترجمان نے مقامی نشریاتی ادارے ’بی آر‘ کو بتایا کہ پولیس اس بات کی بھی تفتیش کر رہی ہے کہ آیا مظاہرے اور اس واقعے کے درمیان کوئی تعلق تھا۔

یہ حادثہ امریکی نائب صدر اور یوکرئنی صدر کی سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کے لیے میونخ شہر پہنچنے سے چند گھنٹے قبل پیش آیا ہے، تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں یقین نہیں ہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد کا اس واقعے کا کوئی تعلق ہے یا نہیں۔

جرمنی
Getty Images
زخمی ہونے والے افراد کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے

کتنے افراد زخمی ہوئے؟

جرمن پولیس نے جمعرات کو بتایا کہ اس واقعے میں کم از کم 30 افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے دو کی حالت تشویشناک ہے۔

مقامی فائر سروس کے مطابق زخمی ہونے والوں میں سے کچھ افراد کی حالت ’نازک‘ ہے۔ میونخ کے میئر ڈائیٹر رائٹر کے مطابق زخمیوں میں بچے بھی شامل ہیں۔

مقامی چینل ’بی آر 24‘ کے مطابق زخمی افراد کا علاج میونخ ریڈ کراس کلینک سمیت شہر کے متعدد ہسپتالوں میں کیا جا رہا ہے۔

میونخ کے ڈپٹی میئر ڈومینک کراؤس نے ’بی آر 24‘ کو بتایا کہ زخمیوں میں شہری انتظامیہ اور دیگر محکموں کے ملازمین بھی شامل ہیں۔

میئر کا کہنا ہے کہ ریلی کے چند شرکا اپنے بچوں کو بھی اس احتجاج میں لائے تھے۔

تصویر
Getty Images
پولیس جائے وقوعہ پر تفتیش کر رہی ہے

مشتبہ ملزم کون ہے؟

مشتبہ ملزم کی شناحت 24 سالہ ’فرہاد‘ نامی شخص کے طور پر ہوئی ہے جس کا تعلق افغانستان سے ہے اور وہ جرمنی میں سیاسی پناہ کا متلاشی ہے۔ جرمن کے پرائیویسی قوانین کی وجہ سے پولیس نے مشتبہ ملزم کا مکمل نام ظاہر نہیں کیا ہے۔

جرمن پولیس نے کہا کہ مشتبہ حملہ آور میونخ میں رہتا ہے اور فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے ذریعے وہ کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔

ریاستی وزیر اعظم مارکس سوڈر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’شاید یہ ایک حملہ تھا۔‘

وزیر داخلہ یوآخم ہیرمن نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ مشتبہ شخص نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی جو کہ مسترد کر دی گئی تھی تاہم افغانستان میں موجودہ حالات اور سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اُسے درخواست مسترد کیے جانے کے بعد جرمنی چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا۔

جرمن پریس ایجنسی کے مطابق مشتبہ شخص سنہ 2016 میں جرمنی آیا تھا اور اس وقت اس کی عمر 18 سال سے کم تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مشتبہ شخص کے کام سے متعلق پولیس آگاہ تھی کیونکہ ماضی میں وہ سٹور ڈیٹیکٹیو کے طور پر کام کر چکا ہے۔

ملزم کو اب تک عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے جبکہ پولیس اس سے تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے۔

Getty Images
Getty Images

عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

جائے وقوعہ پر موجود متعدد عینی شاہدین نے بی بی سی کے نامہ نگار ڈینیئل وٹن برگ کو بتایا تھا کہ حملے کے چند لمحوں بعد لوگ اپنی جان بچانے کے لیے یہاں وہاں بھاگ رہے تھے۔

الیکسا نامی ایک عینی شاہد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’منی کوپر گاڑی میں سوار فرد نے گاڑی کو انتہائی تیز رفتاری سے ہجوم کی جانب بڑھایا۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’گاڑی کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ اُس نے 10 سے 15 لوگوں ٹکر ماری اور اسی دوران دو گولیاں چلنے کی آواز بھی آئی۔‘ جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ گولیاں پولیس کی جانب سے گاڑی پر چلائی گئیں تھیں۔

بی بی سی کے میونخ میں نامہ نگار ڈینیئل وٹن برگ کے مطابق اس واقعے کے بعد جائے وقوعہ پر لوگوں کے جوتے، نصف درجن چھتریاں اور جیکٹیں بکھری پڑی تھیں۔

ان کے مطابق جائے وقوعہ پر ایک تباہ شدہ سفید منی کوپر گاڑی بھی موجود ہے جو اس واقعے کا باعث بنی اور جسے اب پولیس اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔

جس سڑک پر یہ واقعہ پیش آیا وہاں واقع ایک دکان پر کام کرنے والی ایک خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ واقعے کے فوری بعد نصف درجن کے قریب لوگ دوڑتے ہوئے ان کی دکان میں آئے۔

انھوں نے کہا کہ ’وہ گھبرائے ہوئے لگ رہے تھے جبکہ ان میں سے کچھ لوگ رو رہے تھے۔‘

ریلی میں موجود شرکا اور وہاں پیدل چلنے والے اس واقعے کے بعد جان بچانے کے لیے قریب واقع دکانوں اور رہائشی عمارتوں میں داخل ہو گئے تھے۔

حکام نے کیا کہا ہے؟

جرمن چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ مشتبہ شخص کو ’سزا ملنی چاہیے‘ اور اسے جرمنی سے بیدخل کر دینا چاہیے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جرمن چانسلر نے نامہ نگاروں کو بتایا 'اس واقعے میں ملوث مجرم سے کسی قسم کی نرمی نہیں برتی جانی چاہیے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ اگر یہ ’سوچا سمجھا حملہ تھا، تو ہمیں انصاف کو یقینی بناتے ہوئے ممکنہ مجرموں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔‘

باویریا ریاست کے وزیر اعظم مارکس سوڈر نے کہا کہ حکام ’تمام تفصیلات کو واضح کرنے‘ کے لیے اپنی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.